July 1, 2016

استنبول ہوائی اڈے پر دہشت گردی کا آنکھوں دیکھا حال


دوسری دفعہ کا ذکر ہے (ویسے تو پہلی دفعہ کا ذکر بھی قابل ذکر ہے لیکن وہ پھر کبھی سہی) کہ ترکش ائیرلائن کے تمام
  تر برے تجربات کے باوجود میں بذریعہ استبول ترکش ائیر لائن سے سفر کررہا ہے- جب پرواز تالِن – استنبول- کراچی تھی اور استنبول میں دو گھنٹے کا انتظار تھا- جب تالن ہوائی اڈے پہنچا تو پتہ چلا کہ پرواز پندہ منٹ تاخیر سے روانہ ہوگی- وہ پندرہ منٹ بڑھ کر پورا گھنٹہ بن گئے لیکن ایسی چھوٹی موٹی تاخیر ہو ہی جاتی ہیں اور بس مجھے اب یہ کرنا تھا کہ استنبول ہوائی اڈے پر اترتے ہی کراچی والے گیٹ کی طرف دوڑ لگانی تھی


استنبول ہوائی اڈہ لمبائی میں شیطان کی آنت جبکہ چورائی میں بس تین چار ہال سمجھ لیں- اب اگر آپ کا رخ باہر نکلنے کی طرف اور پشت رن وے کی طرف ہے تو جہاز سے بذریعہ بس ہمیں انتہائی باہنے کنارے پر اتارا گیا اور کراچی کا گیٹ اسی ہال میں بالکل دوسری طرف داہنی کنارے پر تھا۔ جیسے ہماری بس آ کر رکی ایک سیکورٹی پر معمور شخص بھاگتا آیا- میں سمجھا شاید ان مسافروں کے لیے ہے جنکی اگلی پروازوں میں تاخیر ہو رہی ہے لیکن اس نے ڈرائیور سے کوئی بات اور میں نے سوچا ہماری ایسی قسمت کہاں کہ ہم سے کہاں پیار سستی تمھیں پیاری ہے 

جیسے میں اندر ہوا تو مجھے کچھ غیر معمولی کا احساس ہوا لیکن وہ کیا تھا اس کو میں کوئی خیال کا روپ نہ پہنا سکا- خیر میں سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلتا گیا اور جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا میں کچھ نہ کچھ ہونے کا احساس بڑھتا ہے- جب کراچی کے گیٹ کی طرف بڑھنے لگا تو دیکھا کہ آگے راستہ سیکورٹی نے بند کیا ہوا ہے اور اس ہال کے متوازی ہال مکمل خالی تھا حالانکہ عام طور پر وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی- میں نے سیکورٹی والے سے پوچھا کیا ہوا اس نے کہا سب پروازیں معطل کردی گئی ہیں- اس سے زیادہ نہ وہ انگریزی بول سکتا تھا نہ میں اس کو سمجھا سکتا تھا۔ اب میں نے وہاں کھڑے مسافروں کی باتوں پر کان لگانا شروع کر دیے تو دو عربیوں کی گفتگو سے پتہ چلا کہ تین مسلح افراد نے ہوائی اڈے پر حملہ کیا ہے اور وہ ادھر ادھر منڈلاتے پھر رہے ہیں- اس نے تصاویر بھی دکھائی جو کہ کسی بم حملے کا نتیجہ لگتی تھیں لیکن میری عربی جتنی ہے میں ہی جانتا ہوں اس لیے بدستور مسافروں کی باتوں پر ٹوہ لگائی کھڑا رہا

پتہ نہیں میری چھٹی حس تیز تھی جو مجھے خطرے کا احساس دلا رہی تھی یا بطور پاکستانی ہم اس چیز سے واقف ہیں کہ پہلی نظر میں ہی مجھے گڑ بڑ کا احساس ہوا- ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ کراچی والے گیٹ کی طرف سے سیکورٹی والے دوڑتے آئے اور آکر چیخے یہ جگہ خالی کرو پیچھے ہو جاؤ دوسری طرف دوڑو- اس وقت وہاں پر کوئی دو سو کے لگ بھگ مسافر ہوں گے اور میرے سمیت سب نے دوسری طرف کو دوڑ لگائی- بھگڈر مچ گئی، ہاہا کار مچ گئی، چیخ و پکار شروع ہو گئی- خواتین اور بچے بے تحاشا رو رہے تھے سب اپنی دانست میں محفوظ جگہ کی تلاش میں تھے کوئی بنچ کے نیچے گھسا کوئی دروازے کے پیچھے- کچھ لوگ ایگزٹ گیٹ میں گھس گئے اور رن وے پر اترنے کے چکر مین شیشہ توڑ ڈالا۔ اتنی دیر میں وہاں سے بم اسکواڈ اور فوجی برآمد ہوئے اور انہوں نے سب ٹھیک ہے کا مژدہ سنایا 

اب میں نے جائزہ لیا تو کچھ جہاز بدستور گیٹ سے لگے کھڑے تھے، بم حملہ کچھ دیر پہلے ہو چکا تھا لیکن جہاز بدستور اتر رہے تھے اور مسافروں کی تعداد میں لاؤنج میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا- آخر کافی دیر بعد کسی کو خیال آیا اور جہاز کے مسافروں کو جہاز میں ہی یا لاؤنج سے دور اتارا جانا شروع کیا- میں سوچنے لگا کہ اگر میری فلائیٹ لیٹ نہ ہوتی تو جب بم دھماکے اور فائرنگ ہوئی تو میں نے کراچی والے گیٹ کے پاس ہی بیٹھا ہونا تھا جو متاثرہ علاقے میں شامل تھا تو کیا ہوتا- کیا ہوتا وہی ہوتا جو منظور خدا ہوتا۔ 

ابھی ادھر بچوں اور خواتین نے رونا بند کیا ہی تھا کہ اب کہ دوسری طرف سے شور اٹھا اور وہاں سے سیکورٹی والوں نے مسافروں کو چیخ چیخ کر کہا بھاگو دوسری طرف- اور بھگدڑ اور چیخ و پکار کی ایک نئی لہر اٹھی- دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے کہ کو جس مشکوک نما چیز کو دیکھتا وہ چیخ اٹھتا اور لوگ جانے بچانے کو بھاگنا شروع کردیتے- ترکش ائیر لائن کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہورہا تھا جو عملہ کے ارکین کھڑے تھے وہ بس وہاں پھنس گئے تھے اور ان کو انگریزی کی کچھ شد بد نہ تھی اور جنکو انگریزی آتی تھی وہ حالات سے ناواقف تھے۔ادھر فلائیٹ انفارمیشن بورڈ مستقل ویسے ہی چلا جا رہا تھا جیسے کچھ نہ ہوا ہو اور ہر نئی پروراز کے بعد لوگ آگے آتے اور آگے سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکورٹی اہلکار بس یہی کہہ پاتے "آل فلائیٹس کینسل"۔ گھنٹہ بھر اس کشمکم میں مبتلا ہونے کے بعد چند پولیس والے تمام خواتین سٹاف کو لیکر محفوظ راستے سے باہر نکلے- کچھ رو رہی تھیں کچھ کے پاؤں میں جوتی نہیں تھی ہانپتی کاپنتی خواتین گزری تو میں نے سوچا کہ شاید اب کچھ مسافروں کی بھی سنی جائے گی لیکن یہ خام خیالی تھی بس یہ فرق پڑا کہ اب اس خالی کردہ حصے میں سیکورٹی والے بلا جھجبک آ جا رہے تھےاور آخر انہوں نے کہا جن مسافروں کے پاسپورٹ سامنے امیگریشن کاؤنٹر پر رہ گئے وہ جا کر اٹھا لیں

ادھر پولیس کا یہ عالم تھا کہ جو بھی فون پر بات کرتا یا تصویر لیتا اس کو پکڑ کر اسکی تلاشی شروع کر دیتے کہ کہیں یہ دہشت گردوں سے نہ ملا ہو- آخر جب سب کچھ صاف ہو گیا تو سیکورٹی والے حضرات ہمیں اوپر والی منزل سے نیچے لے گئے جہاں اگر آپ ترکی میں جانا چاہتے ہوں تو استبول ہوائی اڈے کے امیگریشن سے گزرتے ہیں- اس نے کہا سب امیگریشن کراؤ اور ہوائی اڈہ خالی کردو- وہاں پر سب جمع تھے دو اڑھائی ہزار بندے تھے جس میں بچے، طالب علم، اکیلی خواتین، فیملیز سب جمع تھے۔ جب میری باری آئی تو اس نے کہا پاکستانی پاسپورٹ والوں کو تو ویزا لینا پڑے گا۔ اچھا جی ویزا والے کے پاس آئے اس نے کہا 50 یورو لگیں گے- میں نے کہا ماسی ہوش کی دوا کر میں نے کہا ہے میں باہر جاتا ہوں آج بھی ویزا کے پیسے لوگے۔ نہیں جاتا باہر آخر خود دھکے دے کر باہر نکالو گے۔ اور میں پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ 

سیکورٹی والے چیختے پھر رہے تھے امیگریشن والوں کو کہ باہر نکالو لیکن لگتا ہے انہوں نے بھی کوئی پاکستانی ایف آئی اے والوں کا جھوٹا کھایا کہ کسی طرح ہجوم کم ہونے میں ہی نہ آرہا تھا- جب رات کے اڑھائی بجے (میری پرواز نو بجے کے لگ بھگ اتری تھی) تو ایک مسافر نے سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والے کو دیکھ کر چیخ ماری اور تب تک یہ حال ہو چکا تھا کہ کوئی اونچی آواز میں کسی کو پکارتا تو لوگ بھاگ کھڑے ہوتے اور یہاں تو بندوق کا معاملہ تھا اور دھڑادھڑ لوگ بھاگے یہ اب تک کہ بدترین بھگدڑ تھی- اب سیکورٹی والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے چیخ چیخ کر امیگریشن والوں کے ساتھ وہ کی جو کہ ہماری ایف آئی اے کے ساتھ ہونے چاہیے- اب انہوں نے تڑاتڑ مہریں لگانا شروع کیں  اور ہم باہر آگئے 
(آخری بھگدڑ کی تصویر ٹائٹل تصویر میں دیکھیں)

اب کیا؟ کسی کو نہیں پتہ تھا بس یہ کہ یہاں سے ڈومیسٹک ٹرمینل جو کہ ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا ہوائی اڈے کے اندر سے ہی وہاں جا کر باہر نکلنا ہے- چل پڑے کہ پردیسی کا کیا اختیار- جہاں بھی کوئی رکتا پولیس والے لپک کر آتے اور چیخ چیخ کر اس کو چلنے کا کہتے- آخر کار جب باہر نکلے تو باہر میلہ سجا تھا- تین چار ہزار سے زائد لوگ موجود تھے- میں نے بھی ایک فٹ پاتھ کے حصے پر قبضہ جمایا اور ایسے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئے جیسے اپنے بستر پر موجود ہوں-


ہوائی اڈے کے باہر 


موت کا خوف ٹلا تو زندگی کا خیال آیا کہ رات کہاں بسر ہوگی- دیکھا کہ لوگ آگے کی طرف چلے جا رہے تھے میں بھی چل پڑا- آگے بسیں کھڑی تھیں- ایک شخص نےبتایا کہ بسیں تقسیم اسکوئر جائیں گی جہاں آپ کو ہوٹل خود لینا پڑے گا اور پروازیں کل شروع ہو گیں ہوسکتا ہے واپسی پر آپکو ہوٹل کے پیسے واپس کر دیے جائیں- ہماری کنجوسی کو ہوش آیا اور ہم نے کہا واہ یہ جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں یہ بھی تو پردیسی ہی ہیں تو ہم بھی رات یہاں ہی گزار لیں گے لیکن کسی ہوٹل والے کو پیسے نہ دیں گے- میں ایک ویگن سے ساتھ کم ٹکا کر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔

اب آج کل میرا جو حلیہ ہے ترکش ترک سمجھ رہے تھے عربی عربی سمجھ رہے تھے اسی لیے ایک پاکستانی میاں بیوی جو دس بارہ غیر ملکیوں کے دارالمحام بنے تھے پاس آ کر بیٹھ گئے- پاکستانی اگر فیملی کے ساتھ ہو تو میرے تجربے کے مطابق ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ کسی دوسرے پاکستانی کو فری نہ ہونے دیں اور ہم تو ویسے ہی ایسے پھرتے ہیں جیسے کبھی پاکستان کا نام نہ سنا ہو- ان کی بیگم صاحبہ ہر آتے جاتے کے پاس ان کو دوڑا دیتیں کہ اس سے پوچھیں اس سے پوچھیں- اتنی دیر میں ایک عربی جو میرے ساتھ بیٹھا تھا کو دوسرا عربی آیا اور بتانے لگا کہ بھائی جاؤ بسوں میں جا کر بیٹھو آپکے بورڈنگ کارڈ پر آپکو ہوٹل میں رہائش مل جائے گی۔ اللہ جانے کہاں سے اتنی عربی سمجھ آگئی اور میں نے اٹھایا بستہ اور بس کی طرف چل پڑا 

 بس ہمیں ہوٹل میں لے گئی اور وہاں رہائش مل گئی کھانا پینا بھی مل گیا- اگلے روز ترکش ہوائی کمپنی والے آئے اور آدھے لوگوں کو لے گئے اور بقیہ آدھوں کو بتایا کہ آپ کی فلائیٹ آج بھی نہیں ہے- ظاہر ہے میں نے بھی منسوخ پروازوں والے گروپ میں ہونا تھا- میں نے پوچھا کل کیا ہوگا؟ آپ آؤگے ہم آئیں؟ آئیں تو کس سے ملیں اور سب کا جواب وہی پرانا کہ اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔ 

دوسرے روز دیکھا کہ پروازیں چل پڑی ہیں تو ہم پہنچے اورپرانے تجربے کی بنا پر ترکش فضائی کمپنی کے ٹکٹ کاؤنٹر سے رابطہ کرکے جہاں بیسیوں افراد اپنی ٹکٹوں کی ازسرنو بکنگ کے لیے خوار ہو رہے تھے وہاں سے نئی ٹکٹ لی اور جہاز میں چڑھتے وقت لال بجھکڑ کی ایک نظم یاد آ گئی جس کے آخر میں تھا کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ 

ہوائی اڈے پر اعلان ہو رہا تھا کہ وہ خواتین و حضرات جو حادثے میں وفات پا گئے یا زخمی ہو گئے خود یا ان کے لواحقین تین بجے فلاں کاؤنٹر سے رابطہ کرکے حکومت کی طرف سے ازالے کا چیک لے لیں- ہم سوچنے لگے کوئی شیشہ شوشہ لگ جاتا چلو ہم بھی شہیدوں میں گنے جاتے لیکن کہاں پیسے کو تو ہم سے ایسے چڑ ہے جیسے خوش قسمتی کو بہرحال اس حادثے سے بچ کر ترکش فضائی کمپنی کی خامیاں مزید اجاگر ہوئیں کہ 

جب حادثہ ہو چکا تھا تو مزید پروازں کو اتارنا مسافروں اور جہازوں کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف تھا جبکہ استنبول میں ہی ایک اور بڑا ہوائی اڈہ ہے پروازیں وہاں موڑ سکتے تھے۔ 

لاؤنج میں مسافروں کو اللہ کے حوالے چھوڑ دیا گیا نہ ہی ان کی حفاظت کی فکر کی گئی نہ ہی ان کو حالات سے آگاہ کیا گیا آخری وقت تک مسافر اپنی ٹکٹوں اور اگلے سفر کے لیے خوار ہوتے رہے جبکہ علیحدہ اسپیشل کاؤنٹر بنا کر ان لوگوں کو جو اس حادثے کے وقت موجود تھے کو یہ احساس دلایا جا سکتا تھا کہ آپ ہمارے لیے اہم ہین کہ جو لوگ دہشت گردی سے بچ نکلے تھے وہ ترکش فضائی کمپنی کا شکار ہورہے تھے۔ 

بلا شبہ رہائش اور کھانا دیا گیا اور بہت عمدہ دیا گیا لیکن ادھر بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ ہم تو پھر جلدی نکل آئے ٹی وی میں بتا رہے تھے کہ صبح پانچ اساڑھے پانچ تک لوگ وہاں ہوائی اڈے کے باہر کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے اگر شروع سے ہی بتا دیا جاتا یا کوئی اعلان کر دیا جاتا تو خواتین اور بچوں کو تکلیف سے بچایا جا سکتا تھا اور ترکش ہوائی کمپنی کا امیج مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ 

باقی بھائی ہمارا کیا ہے ترکش کا منافع ہمیں تو نہیں ملنا ہم تو اب تک جہاں کوئی شور سنتے ہیں فوراً دوڑ لگانے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں کہ کہیں پھر کوئی دہشت گرد حملہ ہوا ہو اور ڈرتے بھی ہیں کہ اللہ خیر کرنا کہ ابھی ہمیں کم از کم ایک سفر بذریعہ استنبول اور بھی کرنا ہے۔سستا روئے بار بار سنا تھا لیکن ترکش ائیر لائن کی اس بار سستی ٹکٹ جیسا حال سوچا نہ تھا۔ 

کراچی کے جہاز میں بیٹھے اور سو شکر ادا کیا کہ ہم سمجھے کہ امتحان ختم ہوگئے لیکن ابھی کہانی باقی تھی کہ جہاز میں میرے ہمسفر نے بیٹھتے ساتھ بوٹ اتارے اور مجھے لگا کہ بھائی صاحب نے جو زندگی میں پہلا جرابوں کا جوڑا پہنا تھا وہ آج تک نہیں اتارا- ابھی یہ معرکہ ہوش و بو جاری تھا کہ احساس ہوا کہ ایک صاحب کا معدہ بھی خراب ہے- بس احساس ہوا کہ کیمائی ہتھیاروں پر پابندی کا اصل سبب کیا تھا- دہشت گردوں کے ساتھ گزارے پانچ گھنٹے ہیچ نظر آنے لگے کہ ادھر تو 
یا بچ جانا تھا یا مر جانا تھا ادھر تو نہ جی سکتے تھے نہ مر سکتے تھے۔

Istanbul air port per dehshat gerdi ka ankho dekha haal