December 21, 2015

قائد اعظم- اردو مضمون


پیش تحریر: کمزور دل اور تنگ دل حضرات یہ مضمون نہ پڑھیں

قائد اعظم 25 دسمبر 1887 کوکراچی میں پیدا ہوئے،آپ کا نام محمد علی رکھا گیا اور آپ کا خاندان جناح کہلاتا تھا۔ چونکہ اس وقت شعیہ سنی وغیرہ پیدا ہونے کی سہولت موجود نہ تھی لہذا وہ مسلمان کہلائے- اگرچہ ان کی وفات کے بعد خاصے لوگوں نے انکو یہ سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک ان کو زیادہ تر مسلمان ہی گنا جاتا ہے-

بچپن اور لڑکپن میں قائد اعظم کو کرکٹ میں اور اسنوکر میں دلچسپی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں کرکٹ کی آڑ میں عام و خاص جوا نہیں کھیلا کرتے تھے اور اسنوکر کی میز گلی محلے کے آوارہ و لفنگے لڑکوں کے ملنے کا ٹھکانہ نہیں ہوا کرتی تھی۔

ابتدائی تعلیم کے بعد قائداعظم اعلی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے کہا کہ انہوں نے لنکنز ان میں اس لیے داخلہ لیا کہ وہاں عظیم قانون دانوں کی فہرست میں نبی پاک صلى الله عليه وسلم کا نام بھی لکھا تھا۔ لیکن ہمارے دانشوروں نے بڑی محنت سے یہ ثابت کیا کہ لنکنز ان کے در پر حضورصلى الله عليه وسلم کا نام نہیں تحریر تو اس موقع پر یہی کہا جاسکتا ہے کاش اتنی محنت انہوں نے اپنے آپ پر کی ہوتی تو ان کو کم از کم اپنے ٹیکنیکل فالٹ کا پتہ ضرور لگ جاتا۔

قائد اعظم قانون دان بننے کے بعد پاکستان لوٹ آئے اور کراچی کی بجائے بمبئی کو مسکن بنایا اور وہاں پر قانون کی پریکٹس شروع کی- شروع میں جو ان کی باتیں سنتا وہ ان کا مذاق اڑاتا (اس لیے نہیں کہ اس زمانے میں بھی دانشور ہوتے تھے بلکہ ان کے بلند عزائم کی وجہ سے) لیکن ان سب کو منہ کی کھانی پڑی اور ایک روزقائد اعظم برصغیر کے نامور وکلا میں سے ایک قرار پائے اور اپنے بیگانوں نے انکی قابلیت کا اعتراف کیا۔

1910 میں آپ بمبئی سے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی سیاست کے لیے کانگریس کو چنا اور آپ کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا کہ تب تک ہندوؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انگریز چلے جائیں گے اور ان کے ہاتھ اقتدار آ جائے گا اور وہ تب تک برصغیر کی واحد جماعت نمائندہ جماعت کہلانے کے چکر میں تھے ادھر قائد اعظم بھی تب تک اپنوں بیگانوں سے ناوقف تھے –

1913 میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جو تب تک محض ایک نمائشی جماعت تھی اور چند نوابوں نے مسلمانوں کے حقوق انگریزوں کو بتانے کی خاطر بنائی تھی۔1920 میں آپ نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ آپ کو گاندھی سے اختلاف پیدا ہوگئے تھے کہ کئی لوگ اب تک گاندھی جی کی سیاست نہین سمجھ پائے قائد اعظم تب ہی سمجھ کر ایک طرف ہو گئے تھے۔

1929 میں قائد اعظم نے اپنے مشہور زمانہ چودہ نکات پیش کیے جن کو تاریخ دان پاکستان کی طرف پہلا قدم کہتے ہیں جبکہ طالب علم فیل ہونے کی طرف پہلا قدم کہتے ہیں۔ یہ بھی ان کی خوش قسمتی رہی کہ یہ نکات 1929 میں پیش کیے اب پیش کرتے تو اور نہیں تو کم از کم غداری کا الزام ضرور لگ جانا تھا ان پر کہ اس میں صوبہ توڑنے کی بات کی گئی تھی (سندھ کو بمبئی سےعلیحدہ کرنا) اب تو لوگ کہتے ہیں ملک بھلے ٹوٹ جائے صوبہ نہیں توڑیں گے جبکہ گوروں کی بے عقلی ملاحظہ ہو کہ صوبہ ان کے لیے محض ایک انتظامی اکائی ہے جس کے ساتھ وہ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہم اپنے ایک پرانے غبی نوکر جس کا نام بھی صوبہ ہی تھا کہ ساتھ کرتے تھے کہ وہ دن میں دو تین تھپڑ نہ کھاتا توخود بےچین بے چین پھرا کرتا تھا۔ اس چودہ نکات جو انہوں نے نہرو رپورٹ جو ہندوؤں کے عزائم ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کی مخالفت میں پیش کیے نے آپ کو ملکی سطح پر بڑے لیڈروں میں لا کھڑا کیا اور کانگریس کو پتہ چل گیا ان کا مقابلہ اب ایک ایسے لیڈر سے ہے جو نہ بک سکتا ہے نہ جھک سکتا ہے اور یہ صرف اس کے انتخابی اشتہارات پر لکھنے تک محدود نہیں۔

1930 میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کی لیکن 1931 میں انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ لندن میں ہی رہ جائیں کہ اغیار عیار تھے اور اپنے بےوقوف حد تک سادہ اس فیصلے پر ہندوں نے بھی شکر ادا کیا اور ان مسلمانوں نے بھی جن کی قائد کی موجودگی میں ہند میں دال گلتی نہیں دکھ رہی تھی تاہم 1934 میں علامہ اقبال (وہی علامہ اقبال جن کی نظموں کی ہم تشریح میں اور قوال گائیکی میں حتی الوسیع رگیدتے ہیں ) اور چند دیگر راہنماؤں نے ان کو قائل کیا کہ اب برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی ذات نہیں جو ان مسلمانوں کا جن کے بچوں نے بڑے ہو کر انہی پر تنقید کرنی ہے کو درست راہ پر گامزن کر سکے۔ علامہ اقبال تو خیر جلد ہی فوت ہوگئے تاہم بقیہ قائل کرنے والے راہنماؤں کے ساتھ ہماری قوم اور لیڈران نے وہ سلوک کیا جو آپ کی ہندستانی سیاست میں واپسی پرہندوؤں نے سوچا تھا۔

آپ واپس آ گئے اور آپ کو مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ 1935 میں الیکشن ہوئے اور کانگریس واحد جماعت بن کر ابھری اور مسلمانوں کو قائد اعظم کی باتوں کا احساس ہوا کہ ہندو کی ہزاروں سال سے دبی رام راج کی خواہش پر عمل کرنے کا وقت آ گیا اور ہندؤں نے مسلمانوں کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ وہ لوگ جو قائداعظم اور ہندو مسلم الگ الگ قوم کی مخالفت کیا کرتے تھے وہ بھی قائد اعظم اور مسلم لیگ کے ہمنوا ہو گئے۔ لیکن کچھ لوگ ابھی بھی تھے جو قائد اعظم کے مخالف تھے اور ان کے خیال میں آئندہ سو ڈیڑھ سو سال میں یہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی اور پھر خلافت بحال ہو گی یہ وہ لوگ تھے جو خود اچھی زندگیاں گزار رہے تھے اور ان کو عام مسلمان کی پریشیانی کا کوئی احساس نہیں تھا۔ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے جو سمجھتے تھے باقی لوگ بھی ایسے ہی قابل اور ذہین ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ جہاں جہاں ہندو اکثریت میں تھے وہاں کے مسلمان نام کے بھی مسلمان نہیں بچے تھے- ایسے ہی کچھ لوگ اب پاکستان کی تقسیم پر سوال اٹھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں پلے بڑھے ہیں یہاں آزاد معاشرے میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار چکے ہیں اور بھارتی مسلمانوں سے مل کر بھی نہیں سبق سیکھے اور مسلم اکثریت کے خواب دیکھتے ہیں جبکہ کشمیر تک میں تو مسلمان وزیر اعلیٰ بھارت سرکار کی مرضی کے خلاف آ نہیں سکتا اور یہ لوگ چلے ہیں مغل حکمرانی بحال کرنے-

1939 میں آخر کار کانگریس خود ہی منہ پھلا کر حکومت دے بیٹھی اور مسلمانوں اور لیگ نے شکر کی نوافل ادا کیں کہ جان چھوٹی وگرنہ انگریز اور ہندو دونوں کا ایک ہی مخالف تھا، 'مسلمان'۔ 1940 میں قرارداد لاہور پاس کی گئی جس کو ہندو اخبارات نے ہی قرارداد پاکستان مشہور کیا اور خؤد ہی اپنی کشتی ڈبونے کا انٹطام کیا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں نے نئی روح بھر دی وہ مسلمان جو فارسی اردو انگریزی، مدرسہ اسکول ، ہندو انگریز میں گو مگو کا شکار تھا ایک پاکستان پر متحد ہو گیا اور قائد اعظم کی قیادت پر انہیں اپنے آپ سے زیادہ اعتبار تھا کہ اپنا پتہ تھا کہ ہم بک سکتے ہیں قائد اعظم پر کسی کو شبہ نہ تھا۔

1946 میں کانگریس کی کئی چالیں، زبان بدلنے اور موقع پرستی کے مواقع کے بعد آخر کار الیکشن ہوئے جس میں مسلم لیگ نے کانگریس جو مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار تھی کو چھٹی کا دودھ دلا دیا اور انگریزوں کو یہ بات پتہ لگ گئی کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ ہے- مخلوط حکومت بنی لیکن کانگریس کو پتہ لگ گیا کہ مسلم لیگ کم از کم قائد اعظم کے ہوتے ان کے دام میں نہیں انے والی- انہوں نے بادل نخواستہ مسلمانوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا اور ادھر انگریز بھی ایک دم ہی انڈیا سے بور ہوگئے اور وہ انتقال اقتدار جو دو سالوں میں ہونا تھا انہون نے بندر بانٹ کر کے (جس میں بندر بھارت کے حصے اور بانٹ مسلمانوں کے حصے مین آئی) چلتے بنے اور نئے ملک کو کئی تحفے دے گئے جس میں سے چند ایک تو اب تک بھگتائے جارہے ہیں۔

قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان ہوا تھا یہ وہ پاکستان تھا جو قائد اعظم نے سوچا تھا جبکہ آج کے پاکستان کے حساب سے پاکستان اس دن وجود میں آیا تھا جس دن برصغیر مین دوسرا مسلمان ہوا تھا کہ یہاں اپنے اسلام سے زیادہ لوگ دوسروں کے اسلام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

قائد اعظم نے خود فرمایا کہ پاکستان اللہ کی مدد سے میں نے اور میری قوم نے بنایا بقیہ لیڈر تو گویا میری جیب میں چند کھوٹے سکے ہیں۔ قائد اعظم خود تو اچھے وقتوں میں اللہ میاں کےپاس چلے گئے اور ہمیں اور ہمارے ملک کو ان کھوٹے سکوں کے حوالے کر گئے جنہوں نے ہماری راہ کھوٹی کی، منزل کھوٹی کی، نیت کھوٹی کی اور ہمیں بھی اپنے جیسا کھوٹا بنا کر چھوڑا۔ اور خود کھوٹے کی تکرار کرتے کرتے کھوٹے کی "ٹ" گھسا کر "ت" تک پہنچ گئے۔

پاکستان بننے کے بعد وقت کم تھا مقابلہ سخت تھا اور مسلمان مال غنیمت لوٹنے پر لگا تھا – ابھی انگریز اور ہندو کے دیے زخم تازہ تھے کہ اللہ کو ہمارا ایک اور امتحان لینا مقصود ہوا اور 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم خالق حقیقی سے جا ملے- بہت سے لوگ اس کے ڈانڈے اس وقت کی حکومت سے جا ملاتے ہیں جو کہ اللہ ہی جانے کہ جن پر الزام تھا وہ خود ایسی موت مرے جس کا کسی اور پر الزام لگا-

 قائد اعظم کےبعد اس قوم کو احساس ہوا کہ وہ کتنے اہم شخصیت تھے کہ اس کے بعد ہر کام میں ہماری بد نیتی آڑے آئی اور جہاں سے چلے تھے درحقیقت اس سے بھی پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ پہلے قائداعظم کو ہر گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر کو یاد کرتے تھے تاہم امریکہ کے حملوں کے بعد ہمارے لیے وہ بڑا واقعہ ہے (حامیوں اور مخالفوں دونوں کے لیے) گیارہ ستمبر اور پچیس دسمبر ہم دیسی انگریزوں کے لیے کرسمس اہم ہے اس لیے اب بہت سے لوگوں نے ویک اینڈ پر قائد اعظم کے مزار پر جانا شروع کردیا ہے جہاں جس کے پاس آپ کی تصویر والا نوٹ ہے وہ اچھا وقت گزار سکتا ہے- ملک بنانے والے ٹائم بھی اچھا بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔

Quaid-e-Azam, Urdu mazmoon