April 11, 2015

جرمن ونگز کے ہوا باز کی ڈیپریشن کی ممکنہ وجوہات



بات تو افسوس کی ہے کہ ڈیڑھ سو بندے مر گئے لیکن کیا کریں ہم پاکستانیوں کی حس مزاح بھی ایسی ہو گئی ہے بڑی بڑی 
باتیں ہنسی میں ٹال دیتے ہیں اور چھوٹی موٹی باتوں پر سر پھٹول ، گردن قبول اور گفتگو فضول ہونے لگتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر جرمن ونگز کا ہوا باز مسلمان ہوتا تو ستر بیماریوں کا ایک علاج کے مصداق ہم سمجھ لیتے کہ وہ دہشت گرد ہے اور کوئی نہ کوئی جماعت نہ صرف اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتی اور ثبوت بھی فراہم کر دیتی کہ آج کل ویسے بھی دھندا مندا ہے اس لیے سارے تیار بیٹھے ہیں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر سے ہے۔ نتیجے میں یورپی تحقیقات کے تکلف سے بچ جاتےکہ وہ مرتے مرتے اپنا شناختی کارڈ فریم کرا کر کسی اونچی جا لٹکا کر جاتا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت تحقیقاتی ایجنسیوں کو کام آجائے اور ہم بلاگ لکھنے کی تکلیف سے بچ جاتے کہ اب بندہ نہ دہشت گردی کی حمایت کر سکتا ہے نہ مذمت کر سکتا ہے بس جو چاہے ان کا حسن کرشمہ کپور کرے
 بد سے بدنام برا پرانا ہوا اور آج کل بدنام سے مسلمان برا ہوا ہےکہ اتنی تو میرا کی انگریزی مشہور نہیں جتنی مسلمانوں کی دہشت گردی مشہور ہو گئی ہے۔ حالانکہ جتنے ٹینشن اور ڈیپریشن کے جراثیم ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں گوروں کی سوچ ہی ہے کہ یہاں تو یہ حال ہے کہ ہر ایک بات پر رونا آیا بیچارہ بچہ پیدا ہوتے ہی ایسی گھمن گھیری میں آتا ہے کہ تمام عمر اس چکی میں پستا ہے اور مر کر پھر اللہ میاں کو حساب دینا الگ۔ اوپر سے جو نیک ہیں ان کی نیکی دوسروں کے لیے عذاب بن جاتی ہے اور جو بد ہوتے ہیں ان کی بدی صدقہ جاریہ کی طرح ان کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے جیسے ایک ایسے صاحب جنہوں نے اپنی زندگی میں کئی لوگوں کو اس پاپی جہان سے نجات دلائی تھی ان کی برسی کے جلسے میں بم دھماکہ ہو گیا اس طرح مر کر بھی انہوں نے اپنی ریت نہ بدلی۔ لیکن کیا ہے ناں کہ وہ ڈیڑھ سو بندے مار دیں تو وہ ٹینشن دور کررہے تھے اور ہم چھرے والی بندوق کی قیمت بھی پوچھ لیں تو دہشت گرد۔ ان کی ٹنشن 'ٹومی' اور ہماری ٹنشن 'کتی کا بچہ'۔

 بہرحال کہانی لمبی ہے اور بلاگ پڑھنے والے تھوڑے تو چونکہ ہم پچھلے چند سالوں سے گوروں کے دیس میں خوار ہوتے پھر رہے ہیں اس لیے اپنے محدود علم اور لامحدود سوچ کی بنا پر آج ہم تُکے لگائیں گے آخر اس جرمن ونگ کے ہوا باز کی ڈیپریشن کی اصل وجہ تھی کیا۔ اگر وہ ہوا باز پاکستانی ہوتا تو ہم سمجھ لیتے کہ اس کو سی این جی کی ٹینشن تھی( ویسے تو سی این جی اکیلی ہی مکمل ٹینشن ہے مثلاً لگوانے کی ٹنشن، ڈلوانے کی ٹنشن، نہ ملنے کی ٹنشن، الغرض بندہ دنیا تیاگ کر فقط سی این جی کا ہورہتا ہے) ، دس بارہ بچوں کے مستقبل کی نہیں بلکہ مزید دس بارہ پیدا کرنے کی ٹینشن تھی، بجلی کے بل کی ٹینشن تھی، مہنگے سے مہنگا بل بھرنے کے باوجود ڈی ایس ایل کی رینگتی اسپیڈ خود کشی کی طرف لی گئی تھی، جب اس کی گرل فرینڈ نہ تھی تو موبائل کے نائیٹ پیکج پر نئی نسل کے خراب ہونے کا غم تھا اور جب گرل فرینڈ بن گئی تو نائیٹ پیکج ختم ہونے کا غم کھائے جاتا تھا،اچھا موبائل نہ ہونے کا غم تھا اور تھا تو چھن جانے کا ڈر تھا دنیا میں پیٹرول سستا اور پاکستان میں مہنگا ہونے کی پریشانی تھی یا یہ کہ پیٹرول مہنگا ہونے پر ہر شے مہنگی جب سستا ہونے پر فقط انسانی جان کے سستے ہونے کا افسوس تھا، راحت علی کے کیچ چھوڑنے کا غم تھا یا سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو دعا کر جتوانے کے بعد فائنل میں آسٹریلیا کو ہرانے کی دعا کی نا قبولیت کا غم تھا، گالیاں نکالنے والوں کو گالیاں بکتے بکتے بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا یا سرکاری محکموں کے چکر کاٹ کاٹ کر اور ان کا سلوک سہہ سہہ کر بلڈ پریشر لو ہو گیا تھا المختصر اور الجامع پاکستان نام ہی ٹینشن کا ہے اور ہر پاکستانی ٹینشن کی ایک چلتی پھرتی بوری ہے جو کبھی بھی کسی پر بھی کھل سکتی ہے۔پاکستانیوں کا حال سرائکی کہاوت "تھوک لگا مکوڑا" والا ہے کہ وہ باؤلا ہو کر کاٹتا پھرتا ہے کہ کسی نے اس کو چھوا نہیں اور وہ اس کو چمٹا نہیں۔

لیکن وہ ہوا باز تو یورپی تھا ، کیڑا مکوڑا تھوڑی تھا، اشرف المخلوق اور افضل الانسان تھا تو یورپ میں رہتے اس کو کیا ٹنشن ہو سکتی تھی۔ کبھی کسی اس لڑکے سے پوچھیں جو گدھا بن کر یا ڈونکی لگا کر بھی یورپ پہنچنے پر تیار ہے گویا ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے جنت میں حوریں نہ ملیں گی۔لیکن ہمارا فرض بنتا ہے کہ جو جو بونگی ہمارے دماغ میں آتی ہے وہ عوام کے سامنے رکھی جائے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ بونگیوں کا ٹھیکہ صرف حکومت نے اور ہمارے کھلاڑیوں نے لے رکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپیوں کی بھی ٹنشن ہوتی ہے یقین مانیں وہ ایک بار سن لیں کہ ٹمبکٹو میں دو کوے سردی میں ٹھٹھر کر مرنے گئے تو ان کو کئی رات اس ظلم پر نیند نہیں آتی ہاں انسانوں کی موت الگ بات ہے کہ انسانوں تو مرنا ہی ہے ایک دن۔ بہرحال ذیل میں آپ وہ وجوہات دیکھ سکتے ہیں جوہ ہمارے خیال میں وجہ ڈیپریشن تھیں۔

رج کی مستی: رج کی مستی کا آسان پاکستانی میں ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ ابو کا کھا کا کر بور ہوجانا۔ ہمارے ہاں اور ان کے ہاں رج کی مستی اور پھر اس کے اثرات میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں ہم حرام کی پیتے تھے مے کہ مصداق ہم پورے حرام خوری پر اتر آتے ہیں اور ہمارا اولین فریضہ ابا جی کی ایسے ویسے کمائے مال کو جیسے تیسے اڑانا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ اکثر ایسا نکلتا ہے کہ فلاں کے بچوں نے فائرنگ کرکے نوعمر لڑکا مار دیا، باورچی کو بہن کو چھیڑنے سے رکنے پر مالک نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، کار ٹکرانے پر مار ڈالا، میچ میں ہارنے پر مین آف دی میچ کو جنت کا ٹکٹ دے دیا۔ تاہم یورپ میں رج کی مستی یہ ہے کہ ان کو دنیا کی ہر آسائش میسر ہوتی ہے۔ تھوڑی تنخواہوں والے بھی معمولی قسطوں پر دنیا کی ہر نعمت گھر میں لے آتے ہیں ساری دنیا گھوم لیتے ہیں جو سوچتے ہیں وہ بن جاتے جو چاہتے ہیں وہ پا لیتے تو ان کی زندگی میں یکسانیت آجاتی ہے پھر ان کے دماغ میں ایسی ہی باتیں آتی ہیں کہ اب میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے لہذا مر ہی جانا چاہیے اور کبھی کوئی دوست یار مذاق میں کہہ بھی مر جا او 'آندریس' آ تو وہ سچی مچی مر ہی جاتے ہیں۔

بلی کتے کا غم: ادھر روز کراچی میں دس بارہ بندے ٹرجعون ہو جاتے ہیں اور کسی کے کانوں پر بال جوؤں سے بھرے ہونے کے باوجود نہیں رینگتی ادھر یہ ہیں کہ کوئی کتا بلا بیمار ہو گا تو ایسے پریشان ہوں گے جیسے نام نہاد کرکٹ ماہرین بھی ہماری ٹیم کے لیے پریشان نہ ہوتے ہوں گے۔ ہاں ویسے یہ بات ہے بندوں کا مرنا انکی طرف سے بھی ٹھینگے پر ہی ہے بس مرنے والے مسلمان ہوں۔تو عین ممکن ہے اندریس صاحب کا کوئی کتا بلی مر گیا ہو یا کوئی ان کی کار کے نیچے آ کر مر گیا ہواور وہ جرم اندر ہی اندر ان کو ایسے کھائے جاتا ہو جیسے ہمارے ہاں کی ساس کو نئی بہو کی آمد۔اور اس ساس کی مانند انہوں نے دے مارا زمین پر جو ان کے ہتھے چڑھا۔

گلوبل ورامنگ: یقین مانیں اس ماحولیاتی گرمی نے تمام یورپ اور امریکیوں کے دماغ پر گرمی چڑھا رکھی ہے۔ قطبین پگھل رہے ہیں تو بھائی پگھلنے دو آپ نے وہاں سے برف امپورٹ کرنی ہے، قطبی جانور بے گھر ہو رہے ہیں بھائی جو پہلے آپکے بندے بے گھر گھوم رہے ہیں ان کو تو گھر دے دو اور حال یہ ہے کہ بڑے مظاہرے کر کے ماحول دوست تبدیلیاں اپناتے ہیں اور بڑے کمنیاں وہی مال چین ، بھارت جا کر بنانا شروع کر دیتی ہیں خود ملازمتوں سےبھی جاتے ہیں اور گلوبل ورمنگ کے وہی تین پاٹ- اس لحاظ سے ہم اچھے ہیں کہ ہمارا جانوروں اور پرندوں سے پیار محبت فقط انکو کھانے تک محدود ہے اس طرح ان کو مستقل گھر مل جاتا ہے اور ہمیں کھانا کہ جا تجھے غم زندگی سے آزاد کیا۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گلوبل ورامنگ کی پریشانی اس لیے نہیں کہ ایک تو ہمیں پریشان کرنے کو جون جولائی کی وارمنگ بھی کافی ہے پھر دوزخ کی گرمی اندر اندر تو کچوکے لگاتی یی رہتی ہے تیسرا ہمارا گلوبل وارمنگ بڑھانے میں ذرا بھی کردار نہیں اللہ بھلا کرے حکومت اور دہشت گردوں کا کہ بجلی اور امن ہوگا تو ہی کوئی صنعت لگائے گا ناں تو نہ نو من تیل ہو گا نہ گلوبل ورامنگ ہو گی۔

خلائی مخلوق کا خوف: گوروں کو ایک خوف خلائی مخلوق کا بھی ہے۔ وہ زمین پر آجائیں گے یہاں قبضہ کر لیں گے بندوں کو بھون کر کھا جائیں گے بھائی آئیں گے تو دیکھا جائے گا۔ہو سکتا ہے کسی نے "بھو" کی آواز نکالی ہو اوراس سے قبل کہ وہ کہہ پاتا 'باجی ڈر گئی'  پائلیٹ صاحب نے جہاز زمین پر دے مارا ہو جبکہ ہمارے ہاں یہ خلائی مخلوق کا خوف نہیں پایا جاتا اور کیسے پایا جائے بھلا خلائی مخلوق نامعلوم افراد سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی؟

وہ بچے جو پیدا نہیں ہوئے کے مستقبل کا غم: اگر سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں شیکسپئر کا شعر ہوتا تو گورے کئی پریشانیوں سے بچ جاتے۔ اب آپ کہیں گے کہ شیکسپئر شاعر نہیں تھا جبکہ یہ بھی سوچ سکتے تھے وہ اردو میں کیسے لکھتا کہ وہ ولیم شیکسپئر William Shakespeare تھا ولی میاں شیخ پیر نہیں اور لکھتا بھی تو ٹکے ٹوکری خوار ہوتا اور آج اس کی کلام کی بجائے اس کے شراب کے قصے مشہور ہوتے یا وہ شعر جو وہ اپنے نام سے پڑھ لیتا تو دنیا جہان تیاگ کر فیس بک پر زنانہ آئی ڈی بنا کر ایک گروپ کا ایڈمن بن کر ہر ایرے غیرے کو اس میں ایڈ کرنا شروع کر دیتا۔ تو یورپیوں کو آنے والے وقت کا بڑا غم کھائے جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا مستقبل دے کر جا رہے ہیں۔ اب ہمیں دیکھیں اسی بات پر قناعت کر لیتے ہیں کہ بچوں کو اتنے بہن بھائی دے کر جا رہے ہیں اور کیا قارون کا خزانہ دے دیں۔ لیکن ان گوروں کی ہر کل الٹی ہے اور بس مولانا صاحب کے دل میں آیا ہو گا کہ ان کا ہونے والا بچہ اس پاپی دنیا میں آئے گا تو پتہ نہیں وہ اس قابل تھے کہہ نہیں کہ اپنے بچتے کو اس پاپی دنیا سے بچا سکتے کہ یورپ میں تو حکیم نہیں ہوتے لیکن اس کے مشکوک مستقبل کو محفوظ بناتے بناتے انہوں نے ڈیڑھ سو والدین کے بچوں کے مستقبل کا بیڑہ ضرور غرق کر دیا۔

گرل فرینڈ نہ ہونے کا غم: خیر یہ غم تو ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی بڑا تنگ کرتا ہے خواہ لڑکیاں اب ان کو دادا جی بلاتی ہوں پر یہ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی لڑکی گھاس نہیں ڈالتی جبکہ آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ گھاس تو گدھے کھاتے ہیں اور اسی لیے شوہروں کے لیے ہی کہا جاتا ہے کہ میاں کیا گھاس چر گئے ہو۔ اور بیوی ہو یا گرل فرینڈ ایک ایسی مشین ہے جو مستقل بنیادوں پر ٹینشن کی لہریں پیدا کرتی رہتی ہے تو بھائی الٹا شکر ادا کرو کہ کوئی نہیں ملی وگرنہ کہہ دیتی سنتے ہیں بارسیلونا سے واپسی پر دہی لیتے آنا اور آپ چونکہ پہلے لیٹ ہیں اس لیے دو گھنٹے کا اسٹار پلس کی ڈرامے کی مانند مصنوعی رونے دھونے کا پروگرام نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے کہہ دیتے ہیں کوئی اور حکم میری جان۔جبکہ حقیقت میں دہی اور جان کا کوئی تعلق ہے تو وہ جان نکلنے میں ہوسکتا ہے اور کسی طور نہیں۔

German wings ke hawa baaz ki depression ki mumkina wajuhaat