September 1, 2014

پاکستان میں مرنے کے آسان طریقے

Pakistan main marny ke asaan tareqy


جیسا کہ روایت کی جاتی ہے کہ حضرت آدمؑ کو سری لنکا یا سیلون میں اتارا گیا اور وہاں ان کے قدموں کے نشانات بھی پائے جاتے ہیں ایسے ہی گمان غالب ہے ہابیل اور قابیل کو برصغیر پاک و ہند میں بھیجا گیا اور ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ آج بھی یہاں ان کے پیروکار اسی شدومد سے قتل و غارت میں مشغول ہیں۔

لیکن چونکہ بات پاکستان کی ہے اور پاکستان کی بات قائد اعظم سے شروع ہوتی ہے تو قائد اعظم جن کو مولوی حضرات قائد اعظم بلاتے نہیں اور خود ساختہ دانشور قائد اعظم مانتے نہیں کہ پہلے قائد اعظم کو برا بھلا کہنا فیشن اور دانشوری کہلاتا تھا اب فوج اور پاکستان کو لعن طعن کرنا دانشوری کے زمرے میں آتا ہے نے فرمایا کہ پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ اچھا ہوا قائد اعظم اچھے وقت میں وفات پا گئے وگرنہ بہت سارے سوال اٹھ سکتے تھے کہ تب سے اب تک پاکستان پر کون حکمران رہا اور وہ ٹیکس جو ہم بھرتے ہی نہیں کون کھاتا رہا مزید بر آں وہ مسلمان سنی تھا یا شعیہ تھا؟سندھی تھا یا پنجابی تھا؟ پرانے زمانے میں انصافیے نہیں تھے تو وہ لیگیا تھا یا جیالا تھا یا کانگریسی تھا؟ اور پھر جب دوسرا مسلمان ہوا تو اس نے پاکستانی کی حیثیت سے پہلے کی مخالفت میں اس کو گالم گلوچ کی، ہاتھا پائی کی یا جد امجد کی روایت پر چلتے ہوئے قتل کر کے قضیہ ہی تمام کیا۔

پاکستان بننے کے بعد پہلا عذر سرخا ہونا بنا۔ یعنی جو آپ سے اختلاف کرے ، جو آپ کو اچھا نہیں لگتا، جو آپ کو پسند نہیں، جو اپنی بہن کو آپ کو چھیڑنے نہیں دیتا ، آپ کا جس کی زمین ہڑپ کر نے کا دل ہے، جس کو آپ شہر بدر کرنا چاہتے ہیں بس کہہ دیں کہ وہ روس نواز ہے۔ اس کے بعد الزام نے ترقی کی اور مخالف بھارتی ایجنٹ ہونے لگ گئے۔ پھر قادیانی میدان میں آئے اور ایسے آئے کہ بس۔ اس سے نہ صرف مخالفین کی سرکوبی کی جانے لگی بلکہ ہر پیسے والے کے خلاف بھڑاس بھی نکالی جانے لگی کہ صاحب فلاں تو قادیانی ہے اس لیے اس کے پاس پیسے ہیں، فلاں قادیانی ہے اس لیے اس کے پاس پیسے کی ریل پیل ہے اور بڑے بڑے اچھے ناموں کے بارے عام بندوں سے سنا کہ وہ قادیانی ہے۔ اب چونکہ وقت ترقی کر چکا تھا لہذا الزامات نے ، اور ہمارے مزاجوں نے بھی ترقی کی اور لڑائی مار کٹائی کے لیے مذہب، فرقہ، سیاست، زبان، علاقہ غرض کچھ بھی وجہ بن سکتا ہے بس نیت ہو بندے کی۔

چونکہ عام آدمی ہی افسر اور حکمران بنتا ہے تو وہ اونچے عہدے پا کر عادتیں بھی اونچے درجے تک لے گئے اور جی حضوری میں کچھ بھی کرنے کو تیار رہنے لگے (ویسے تو کوئی پاکستانی کسی بھی وقت کچھ کر سکتا ہے)۔ ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ پولیس والوں کی فطرت یہ ہے کہ اگر ان کو کہا جائے کہ اگر اپنے والد کو گرفتار کرلاؤ تو وہ گھر جا کر اپنے والد کو بھی کہہ دیں گے ابا جی ہتھکڑی لوا لو تہاڈے پتر دی ترقی ہو جائے گی۔ لیکن یہ پرانے زمانے کی بات ہے اب تو بھائی جس کی کرسی اس کا ملک جس کا پیسہ اس کا قانون جس کی طاقت اس کی مرضی لیکن بہرحال یہ بات پولیس کیا تمام لوگوں پر لاگو ہوتی ہے کہ جس کا بس لگے اپنے افسر کو خوش کرنے کو کسی کو بھی ہتھکڑیاں لگا سکتے ہیں۔

بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے لیکن ہمارے خیال میں تو یہ وہ قلعہ لاہور ہے جو جنرل ضیا کے دور میں تھا یعنی جو اسلام کے یا ان کے سرکشوں کو کوڑے مارنے کے کام آتا تھا۔ ہمیں غزہ، لبیا، عراق اور بوسنیا کے مسلمانوں کا غم تو کھائے جا رہا ہوتا ہے لیکن ایک پاکستانی کے مرنے پر جب تک ہم ہر طرح اس کے آگے پیچھے سے مطمعن نہ ہو جائیں افسوس نہیں کرتے۔  پچھلے دنوں جب میڈیا پر ہزارہ لوگوں کے مرنے کا شور ہوا تو بڑے بڑے سیانے اور پہنچی ہوئی ہستیوں نے کہا جب سنی مر رہے تھے تو تب تو میڈیا کو کوئی فکر نہیں تھی لیکن اب چونکہ ہزارہ والے شیعہ ہیں لہذا میڈیا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ گویا کہ میڈیا پاکستانی نہیں جیسے انہوں نے بھی تو اپنوں کو رونا ہے فقط باقی جائیں جہنم میں یا جنت میں۔ جبکہ رونے کا مقام تو آپ کی سوچ پر بھی ہے کہ چلو سنی مر گئے تو شعیہ بھی مر جائیں، جیالے مرے تو متوالے بھی مرجائیں۔

پچھلے دنوں ایک فلم دیکھی تھی جس میں تھا ویسٹ یعنی امریکی کاؤبوائے والے زمانے میں مرنے کے ہزار طریقے تھے یقین مانیں پاکستان میں مرنے کے اس سے بدرجہا بہتر مواقع مرنے کے موجود ہیں کہ اس میں تو تمام قدرتی اسباب موجود تھے جبکہ ہم نے تو خود ہی اس صنعت میں ناقابل یقین ترقی کی ہے یقین نہ آئے تو فہرست پر نظر ڈالیں۔
-غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں کے ہاتھوں
- قادیانی /لاہوری ہیں تو مسلمانوں کے ہاتھوں
-سیاست میں ہیں تو دوسری سیاسی پارٹی کے ہاتھوں (خواہ لانگ مارچ کریں یا نہ)
- لسانی بنیاد پر دوسری زبان والوں کے ہاتھوں
-قبائیلی ہیں تو دوسرے قبیلے والے کے ہاتھوں
-ذات پات کی بنا پر دوسری ذات والوں کے ہاتھ
-کار ایکسیڈنٹ میں تو لوگ مرتے ہیں لیکن یہاں آپ کار ایسکیڈنٹ کے بعد لڑائی میں بھی جان ہاتھ سے دھو سکتے ہیں۔
-کسی کی بہن کو چھیڑ کر اور کسی کو اپنی بہن کو چھیڑنے سے روک کر
-نوکر ہیں تو مالک کے ہاتھوں کام نہ کرنے پر اور مالک ہیں تو نوکروں کے ہاتھوں ڈکیٹی کے دوران۔
-طالبان کے ہاتھوں عام آدمی ہونے کے باعث اور پولیس کے ہاتھوں طالبان ہونے کے شک میں
-کراچی میں رہنے پر تو ویسے ہی موت ٹکے ٹوکری ہوئی پھر رہی ہے

المختصر اور الجامع کہ پیارے پاکستانیو، ہنسیں تالیاں پیٹیں تماشہ دیکھیں مرنے والے مرتے رہیں گے اور تفریح کا سبب بنتے رہیں گے تاوقتیکہ آپ بھی کسی کی تفریح نہ بن جائیں۔ ویسے جو آج مرے یہ کونسی پارٹی کے تھے؟؟