August 4, 2014

ایک جہاز جو اڑنے میں تاخیر کا شکار ہو گیا۔

Aik jahaz jo urny main takheer ka shikar ho gia


میں تالن Tallinn سےخوشی خوشی گھر واپسی کے لیے جہاز میں بیٹھا اور پہلی منزل فرینکفرٹ ٖFrankfurt ہوائی اڈا جو کہ میرے ناپسندیدہ ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے جانے کی تیاری کرنے لگا لیکن خوشی یہ تھی کہ وہاں سات گھنٹے سے زیادہ رکنا تھا اور میں کافی دنوں سے فریکنفرٹ کے چڑیا گھر جانے کی کوشش میں تھا کہ سنا تھا وہ تمام یورپ میں واحد چڑیا گھر ہے جہاں نیوزی لینڈ New Zealand کا قومی پرندہ کیوی Kiwi پایا جاتا ہے۔

جہاز پیچھے ہوا اور پائیلیٹ کی آواز کانوں میں گونجی کہ ابھی فضا میں ذرا رش ہے جیسے ہی ہمیں اشارہ ملا ہم پرواز بھر لیں گے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے اور یہ ہوائی اڈوں پر ایک معمولی سی بات ہے اور ہم ایک طرف ہو کر ٹھہر گئے۔

اسی دوران پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے پرتگالی ہوائی کمپنی ٹیپ پرتگال TAP Portugal کی پرواز پہنچی۔ جو لوگ ہوا بازی سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ جب پہلی پرواز کسی ہوائی اڈے پر جاتی ہے تو اس جہاز کا پانی کی پھوار سے استقبال کیا جاتا ہے جس کو محراب آب یعنی water arch کہتے ہیں۔

محراب آب کی چند مثالیں


رنگ برنگ کے قومی ملبوسات میں لوگ استقبال کرتے ہیں۔ مجھے بھی بڑا شوق تھا کہ ایسی پرواز پر سفر کروں جو پہلی بار اس منزل پر جا رہی ہو اور وہاں ہوائی اڈے پر مجھے بھی باقی مسافروں کی طرح ہار پہنائے جائیں، خصوصی استقبال ہو، قومی لباس میں لڑکیاں گلے لگائیں، خاص قسم کے کھانے دیے جائیں لیکن ایسی کوئی خواہش پوری نہ ہوئی اور معاملہ فقط تصاویر تک محدود تھا۔ تاہم اس روز بطور مسافر نہ سہی بطور تماشائی جہاز میں بیٹھ کر ان گناہگار آنکھوں سے براہ راست دیکھ لیا اور خوش ہونے لگا کہ چلو تاخیر کا کوئی تو فائدہ ہوا۔
محراب آب 

خوش آمدید

محراب آب کی طرح کیک بھی پہلی پرواز کا لازم جزو ہے

ایسٹونین اپنے قومی لباس میں خوش آمدید کہنے کو تیار


 لیکن فائدہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا کہ اس کے بعد ایک اور جہاز آیا اور دو جہاز گئے اور رن وے خالی ہو گیا لیکن ہم جون کے توں وہیں کھڑے رہے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کے کپتان نے انکشاف کیا کہ دراصل جہاز کا داہنا انجن کام نہیں کررہا اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ چل پڑے تو جیسے ہی چلتا ہے ہم پروز بھر لیں گے۔

لوجی ہو گیا کام۔ جہاز میں موجود میرے سمیت اکثر لوگوں کی آگے پروزیں تھیں اور اس تاخیرکی وجہ سے ان کے نکلنے کا امکان تھا تاہم مجھے اپنے چڑیا گھر کی فکر تھی کہ پرواز نکلنے کی صورت میں یورپ میں آپ کو کسی اور پرواز پر آپ کی مطلوبہ منزل پہنچا دیتے ہیں جیسے مجھے پرتگال سے واپسی پر جنیوا Geneva سے براستہ ہیلسنکی Helsinki کی بجائے براستہ فرینکفرٹFrankfurt تالن پہنچا دیا گیا تھالیکن میرے چڑیا گھر کا کیا ہونا تھا۔

ویسے تو اکثر یورپی فضائی کمپنیاں بھوکی ننگی ہو گئی ہیں اور دوران پرواز کھانے پینے کو کچھ نہیں دیتی تاہم اس تاخیر کی وجہ سے فضائی میزبان پہلے پانی اور پھر جوس دے گئی۔ سرہانے اور کمبل علیحدہ تھے۔

جہاز دوبارہ اسٹینڈ کو لگا دیا گیا تاہم ہمیں نہیں اترنے دیا گیا اور ہم جہاز میں بیٹھے اور مکینک عملہ باہر کھڑے مکھیاں مارنے لگا۔ تمام مسافروں نے جنہوں نے موبائل ۔ کمپیوٹر وغیرہ بند کرلیے تھے دوبارہ چلا لییے۔ اب کپتان نے نیا اعلان کیا کہ ہم جہاز میں پٹرول بھرنے لگے ہیں لہذا کوئی غسل خانے نہ جائے مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا زمینی پیٹرول میں انسانی پیٹرول ملنے کا خدشہ تھا وگرنہ کہاں پیٹرول ڈالنا کہاں غسل خانہ۔اور دوسرا کہ اگر پیٹرول اب ڈالا ہے تو پہلے کہ دعاؤں پر جہاز اڑانے کا ارادہ تھا؟

دو گھنٹے بعد کپتان نے اعلان کیا کہ مکینک صاحب آلات لینے گئے ہیں اور جیسے ہی وہ لے کر آئیں گے ہم انجن چالو کرنے کی کوشش کریں گے تو مسافر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے کیا اب تک وہ دم درود سے چالو کرنے کی کوشش کررہے تھے؟

آخر کار دو جوس دو پانی ایک کوک کے گلاس اور ایک سرہانے ایک کمبل کے دینے کےبعد کپتان صاحب نے اعلان کیا کہ انجن چالو ہونے سے انکاری ہے لہذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ ہم پرواز منسوخ کر دیں۔ مزید تفصیل کے لیے زمینی عملے سے رابطہ کریں۔

زمینی عملے نے بعد ازاں ٹکٹ ایسی تو کر دی جس میں میں کراچی اسی وقت ہی پہنچ رہا تھا جو پچھلی پرواز کے مطابق تھا تاہم ایک تو جہاز میں میری پسند کی کھڑکی والی نشست نہ ملی دوسرا میرا فرینکفرٹ چڑیا گھر اور فرینکفرٹ شہر کا چکر بھی رہ گیا۔ تالن ہوائی اڈے کے زمینی عملے نے اپنی سی کوشش کی کہ فرینکفرٹ کی نحوست دھو سکیں اور انہوں نے نہ صرف مسافروں کو جو تمام ایک قطار میں لگے اپنی متبادل پروازوں کے لیے لفتھانزا Lufthansa کے زمینی عملے کے سامنے پیش ہورہے تھے کو کرسیاں پیش کیں اور بعد ازاں پانچ پانچ یورو کے دو کھانے کے واؤچر بھی دیے کہ جو مرضی آئے لے کر کھا لیں۔ لیکن دس یورو اب فرینکفرٹ چڑیا گھر اور پھول گھر کے برابر تو نہ تھا۔

تاہم تمام تر تنگی ترشی کے باوجود مجھے یاد رہا تھا کہ ایک بار جب پی آئی اے نے ملتان سے دبئی کی پرواز منسوخ کی تھی تو بیچارے مسافروں کو اگلی پرواز بیس دن بعد کی دی تھی اور جن کو فوری دی تھی ان کو لاہور یا کراچی خود سے پہنچنا پڑا۔اور میں شکر ادا کرنے لگا انہوں نے تالن، فرینکفرٹ، دوہا، کراچی کی ٹکٹ تالن، وارسا ، دوہا ، کراچی میں خود سے بدل کر دے دی وگرنہ میں نے کہاں سے وارسا اپنے پلو سے پہنچنا تھا اور اب وہیں تالن میں بیٹھا بیٹھا گرمی ، مٹی اور لوڈشیڈنگ کو ترس رہا ہوتا