May 12, 2014

ٹماٹر کی دکان دکھا رہی تھی

Tamater ki dokan dikha rahi thee

خبر: برطانوی شہر مڈلینڈز میں ایک شخص نے طوائف کے ساتھ گاڑی میں پکڑے جانے پر پولیس کو بتایا کہ ان کی گاڑی میں بیٹھی خاتون انہیں ٹماٹر کی دکان دکھا رہی تھی

تفصیل یوں ہے کہ ہمارے ایک پاکستانی بھائی گاڑی میں پھر رہے تھے تو پولیس نے ان کے ساتھ بیٹھی خاتون کو طوائف کے طور پر پہچان کر انہیں روکا تو انہوں نے جواب دیا کہ دراصل وہ تو اس خاتون کو اس لیے ساتھ لیے پھر رہے ہیں کہ وہ ان کو ٹماٹر کی دکان کا راستہ دکھا رہی تھی۔
ہمیں ان صاحب کے اخلاق جن کا نام ہی اخلاق ہے کی بات پر مکمل یقین ہے کہ اصل میں انگریزوں کو کبھی پاکستانی حالات میں رہنا پڑے تو وہ اس بات کو سچ مانیں۔ ہمارے یہاں ٹماٹر لینا کوئی آسان کام نہیں کہ انگریزوں کی طرح گئے میلوں پھیلی مارکیٹ میں اٹھائے اور گھر واپس پہنچ گئے۔ ہمارے ہاں تو ٹماٹر صاحب اکثر اوقات عید کا چاند ہو کر مارکیٹ سے عنقا ہوجاتے ہیں اور برگر کی ریڑھی والوں تک کو کیچپ بنانے کے لیے رنگ استعمال کرنا پڑتا ہے ایسے میں اس کو تلاش کرنے کے لیے ایک بندہ ناکافی ہی ہوتا ہے تو اگر انہوں نے اس خاتون کی مدد مانگ لی تو یہ سراسر لاجکلLogical بات ہے اور اس میں نہ ماننے والی کوئی بات ہی نہیں کہ ٹماٹر ایسی چیز ڈھونڈنا اکیلے بندے کا کام نہیں۔ دوسرا قیمتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ سن کر دل کا دورہ، فالج، دماغ کی رگ کا پھٹنا جیسے حادثات کا فوراً شکار ہو جاتاہے اس لیے بہتر ہے کہ کوئی ساتھ ہو۔ اب اتنی سی بات کے لیے اویں گوروں نے کہانی بنا لی۔ ان کا تو مقصد ہی پاکستان کی بدنامی ہے۔

انگریزوں کا کیا ہے گئے بازار ، بند پیکٹ، مرتبان، جمے ہوئے سبزیاں پھل اٹھا آئے اور مزے لے لے کر کھائے اور کہانی ختم ادھر ہمیں ایک دہی سکون نہیں لینے دیتی۔ کبھی ان کو سبزی و پھل لینے پڑیں اور واپسی پر امی یا بیگم سے تعریفی کلمات سننے پڑیں تو احساس ہو کہ یہ کیسا کٹھن کام ہے۔ آج تک مجھے یہ سننے کو ملتا ہے جب سبزی والا سبزی تولنے لگتا ہے تو تم منہ دوسری طرف کر لیتے ہو کہ کہیں کوئی گندہ ٹکڑا دیکھ کر اس کو بدلنے کا نہ کہنا پڑے۔ اکثر لوگوں کی مثالیں سننی پڑتیں کہ کبھی شہزاد کی لائی ہوئی سبزی دیکھی ہے ایسے لگتا ہے درخت سے توڑ لاتا ہے اب کیا پتہ وہ توڑ ہی لاتا ہو کسی درخت سے ہمیں کیا پتہ لیکن ہماری قسمت اور ٹماٹر اکثر ایک جیسے سڑے بسے نکلتے ہیں اور گھر آ کر تعلیم، ڈاکٹری، یورپ میں رہنا، دنیا بھر دیکھنے پر ایک لیکچر سننے کو ملتا ہے اور اگر بد قسمتی سے سالن بد ذائقہ بنا ہو تو وہ بھی شکایت نہیں کر سکتے کہ جواب ملتا ہے خود لے آئے ہو ایسے ٹماٹر۔ اب خود بتائیں اخلاق صاحب نے کیا غلطی کی کہ ایک خاتون کو ساتھ لے لیے ٹماٹر لینے کہ چننے میں آسانی رہے وہ اس طعنے سے جان چھڑا سکیں کہ پتہ نہیں آپ کو سبزی والے کی کیا ادا پسند ہے کہ جو کچھ دیتا ہے آپ لے کر آ جاتے ہیں۔

اچھا اب برطانوی پولیس کے کام بھی ہماری پولیس سے کم نہیں کہتے ہیں کہ پولیس اہلکاروں نے گاڑی میں سوار علاقے کی مشہور طوائف کو پہچان لیا تھا یعنی پولیس جانتی ہے کہ یہ طوائف ہے تو بھائی اسی کو پکڑ لو نہیں وہ جو مرضی آئے کرے اس کی خیر ہے پکڑے بیچارے اخلاق صاحب جیسے بھولے بھالے شہریوں نے ہے جو انجانے میں اس کی مدد مانگ بیٹھتے ہیں۔ ویسے بھی باہر کھڑے کسی کے چہرے پر تو نہیں لکھا کہ یہ شریف ہے یا بدمعاش۔ اب ویسے بھی کچھ پوچھنا ہو جو سڑک پر کھڑا ہو گا اسی سے پوچھیں گے نہ کہ شریف آدمی کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے کہ پہلے شریف بندہ ڈھونڈو پھر ٹماٹر۔ یہ وہی حال ہے کہ ملتان میں ایک علاقے میں شراب کی بھٹی تھی اور سب کو پتہ تھا کہ یہاں شراب کی خرید و فروخت ہوتی ہے لیکن پولیس نے کبھی فروخت کنندگان کو تکلیف دینے کی کوشش نہ کی تھی بلکہ گلی کے آخیر میں ناکہ لگا کر ٹھہر جاتے اور جو بیچارہ بوتل لے کر جاتا اس کو دھر لیتے اور اس بیچارے کو بوتل کے ساتھ رہے سہے پیسے بھی پولیس والوں کو دے کر جان بچانا پڑتی۔ پس ہماری پولیس بھی یورپی پولیس سے پیچھے نہیں ہم ایسے ہی ان کے بارے الٹی پلٹی ہانکتے رہتے ہیں۔

پولیس کی کانسٹیبل نے کہا میں نے اس سے پہلے بھی بڑے بہانے سنے ہیں لیکن پولیس میں اپنی دس سالہ سروس کے دوران میں نے کبھی کسی شخص کو طوائف کے ساتھ پکڑے جانے پر جرم کو چھپانے کے لیے ٹماٹر خریدنے کا بہانہ کرتے نہیں دیکھا۔ اب کوئی ان بی بی کو بتائے آپ کی عمر ہی کیا ہے اور آپ نے دنیا میں دیکھا کیا ہے؟ آپ کے ملک میں بھی سیاستدان پائے جاتےہیں اور ماشا اللہ وہ بھی پورے ہاتھ پاؤں رکھتے ہیں۔ ویسے تو سیاستدان تمام دنیا کے ہی جھوٹ بولتے ہیں لیکن جب جب پکڑے جاتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو پکڑے بھی جائیں تو ۔۔۔خیر چھوڑیں ہمارا بلاگ غیر سیاسی ہے ۔

یوں تو جھوٹ بولنے میں بھی ہم ماشا اللہ سے ید طولی رکھتے ہیں لیکن چونکہ ہمارا خود کا بلاگ اکثر و بیشتر جھوٹ موٹ پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے ہم ذرا ہتھ ہولا رکھے ہوئے ہیں- اور کسی کا کیا کہوں اپنے بارے میں سوچوں تو لگتا ہے کہ شاید جھوٹ بولنے کی عادت پیدائشی طور پر ساتھ لے کر آیا تھا اور تبھی یہ بلاگ اور افسانوں کا کام چل رہا ہے۔ اسکول نہ جانے کے بہانے بہرحال ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں پہلے جھوٹ کے طور پر جانا جائے گا لیکن جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے ہمارے اس جھوٹ میں معقولیت کم سے کم اور جدیدیت بڑھتی چلی گئی۔ ایسے ایسے بہانے گھڑے کہ بعد میں خود سوچتا تھا تو دل کرتا تھا وہ بندہ مل جائے جو ایسے خیالات دماغ میں ڈالتا ہے تو اس کی طبیعت صاف کروں اچھی طرح۔ لیکن وہ بہانے یہاں تحریر کرکے میں طلبہ کی اسکول نہ جانے کی حوصلہ افزائی اور اپنے اوپر ہنسنے کا موقع نہیں دیتا کہ دنیا نے کب کسی بات کی قدر جانی ہے یہ تو ٹماٹر خریدنے پر مدد مانگنے والوں کو طوائف کی خدمات حاصل کرنے کا الزام لگا کر اس جرم کی پاداش میں 400 پاؤنڈ جرمانہ کر دیتی ہے بلکہ عدالتی خرچ کی مد میں مزید 665 پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم بھی کہہ دیتی ہے۔ 

اخلاق بھائی ہر وہ پاکستانی جو ٹماٹر خریدنے جاتا ہے آپ سے پوری ہمدردی رکھتا ہے۔