April 28, 2014

کھانا پکانے کی آسان تراکیب

Khana pakany ki asan trakeeb


جو لوگ گھر میں ایسے ہوتے ہیں کہ پانی بھی نوکر پلاتے ہیں یا باجی یا امی یا چھوٹا بھائی تکلیف کرتا ہے اور ان کو بیرون ملک آ کر رہنا پڑتا ہے جہاں کوئی آپ کا کام تو درکنار منہ لگانے کو تیار نہیں ہوتا تو ایسے لوگوں کی خدمت میں حاضر ہیں چند آسان کھانا پکانے کی تراکیب جو ہینگ لگے نہ پھٹکری اور پیٹ بھی بھر جائے کی عملی تفسیر ہیں اور میرے خود کے چھ سالہ ولایتی زندگی کا نچوڑ ہیں۔ کھانے کی ان تراکیب کے لیے آپ کو چند بنیادی اشیا چاہیے ہوں گی جو ہیں

نان اسٹک فرائینگ پین Non Stick Frying pan
لکڑ ہضم پتھر ہضم معدہ
ایسی بھوک جو حس ذائقہ ختم کر دے
 اگر آپ کے پاس آخری دو چیزیں نہیں ہیں تو سستی و کاہلی سے بھی کام چل سکتا ہے۔

اب تیار ہوجائیں ہم بنانے لگے ہیں چند آسان مگر جلد بن جانے والی ڈشز۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 21, 2014

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کا جواب شکوہ

Bairon e mulk muqeem Pakistanio ke Pakistan main rehny waly rishty daro ka jawab e Shikwa


پاکستانیوں کا وطیرہ ہے کہ تھوڑی تھوڑی باتوں پر ہائے وائے کا ورد کرتے رہتے ہیں اور تازہ ترین وقوعہ جس پر ہر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی کو شدت سے تکلیف کا احساس ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں رہنے والے ان کے رشتہ دار و لواحقین ان کی بجائے ان کے پیسے سے محبت کرتے ہیں اور ان کےلاکھ منتوں ترلوں کے باوجود ان کے وطن واپسی پر رضامند نہیں ہوتے اور وہ پردیس میں خوار ہو رہے ہیں جب کہ پاکستان میں بسنے والے ان کے بال بچے عیاشیاں کر رہے ہیں۔

حالانکہ ہمیں باہر رہنے والوں سے پوری ہمدردی ہے کہ ہم خود ملک فرنگ میں دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہمیں پاکستان میں بسنے والے ان پاکستانیوں سے جن کے رشتہ دار باہر کمانے گئے ہیں سے کوئی ہمدردی نہیں لہذا بے ادبِ بلاگریہ میں ہم ان کی آواز شامل کرتے ہوئے آج کا بلاگ ان ملک میں بسنے والے پاکستانیوں کے نام کرتے ہیں جو اپنے بیرون ملک مقیم اقارب کی امداد کے محتاج ہیں اور جن کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں۔

بیرون ملک مقیم ہمارے والد، چاچا، ماما، رشتے دار کہتے ہیں کہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔ اب کوئی بتائے ان کو کہ بھائی ہم تو کسی سے محبت نہیں کرتے ۔ کیا کبھی کسی پاکستانی کو لڑکیوں کے علاوہ کسی سے محبت کرتے دیکھا ہے؟ اب ہم آپ کے لیے دوہرا معیار کہاں سے لائیں۔ اب ان کو پاکستان چھوڑے سالوں بیت گئے ان کو کیا پتہ پاکستان میں اب معاشرہ کیسا ہے۔ یہاں تو قیامت مچی ہے اور ان کو اپنی محبت کی پڑی ہے۔ یہاں تو والدین بچوں کے نہیں، میاں بیوی کا نہیں، محبوب محب کا نہیں اور لڑکیوں سے محبت بھی کوئی مفت نہیں ایزی لوڈ لگتا ہے بھائی۔لیکن اس میں ان کا اتنا قصور بھی نہیں کہ وہ باہر رہ رہ کر تھوڑی جذباتی ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کو وی آئی پی VIP کا درجہ ملے ان کے آنسو بہیں تو ہم دھاڑیں مار کر رونے لگ جائیں وہ مسکرائیں تو ہم ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں لیکن ایسا کہاں ممکن ہے دنیا بدل گئی پاکستان بدل گیا آج کا نوجوان منافقت کا عادی نہیں اور ویسے بھی ہمارا نعرہ ہے کہ زبان پر کچھ بھی ہو عزت دل میں ہونی چاہیے لہذا ہمارے پردیسی بڑوں کو ایک بار ہمارے دل میں ضرور جھانک لینا چاہیے کہ خواہ ہم منہ پر گالیاں بک رہے ہوں دل سے ہم ان کی عزت ہی کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ہم تو واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پچھلے واپس آنے نہیں دیتے۔ اب آپ ہی بتائیں کیا جب وہ گئے تھے تو ہم سے پوچھ کر گئے تھے؟ اب جو وہ ہم سے پوچھیں تو ہم کیسے کہیں کہ واپس آ جائیں کہ ہم تو عقل کی بات کریں گے کہ اگر واپس آگئے تو گھر کیسے چلے گا؟ اتنی مہنگائی ہوگئی ہے پاکستان میں ۔ پہلے مہینے کا بجلی کا بل ہی ان کی طبعیت درست کر دے گا پھر کہیں گے کاش نہ آیا ہوتا۔ ہم ان کی آسانی کا سوچتے ہیں اور پھر بھی ہم مورد الزام۔ ویسے تو ہمارے دوست گئے ہیں امریکہ، برطانیہ، دبئی وغیرہ وہ بتاتے ہیں کہ وہاں پر اچھی خاصی عیاشی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آتا کہ اصل میں یہ خود ہی نہیں آنا چاہتے کہ باہر جا کر اب یہ پاکستان کے قابل ہی نہیں رہے اور نام ہمارا بدنام کر رہے ہیں کہ بدگمانی بری بات ہے کیا پتہ واقعی آنا ہی چاہتے ہوں واپس پاکستان۔

یہ بات لکھ لیں یہ واپس بھی گئے تو ہوائی اڈے پر اترتے ہی ان کی بس ہو جانی ہے آگے کی منزل تو آگے رہ گئی۔ ہوائی اڈے پر جو سلوک ان کے ہم وطنوں نے ان کے ساتھ کرنا ہے ان کا دل کرے گا پہلی پرواز لیکر واپس چلے جائیں۔ پھر آگے ہر آتا جاتا ان کو باہر کی جنت چھوڑ کر ملکی دوزخ میں آنے پر سرزنش کرے گا۔ پھر جب گرمیاں آئیں پھر ان کو احساس ہوگا۔ ہم تو یہاں پر پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں نہ بجلی نہ پانی نہ گیس نہ پیٹرول کجا زیرزمین ٹرانسپورٹ کے جھولے کجا لو اور مٹی کے جھونکے۔ اور جب مال ختم ہو گا تو رشتے دار، دوست، یار بھی منہ لگانا چھوڑ دیں گے اور تو اور گلی کی نکڑ والا چاچا بھی ادھار ایک پاؤ دال نہیں دے گا تو ان کو پتہ چلے گا۔ ۔ ویسے بھی پاکستان میں تو کتے کو عزت مل جاتی ہے غریب کو نہیں۔

اور کہتے ہیں عیاشی کر رہے ہیں، زیور خرید رہے ہیں، گاڑیاں چلا رہے ہیں، دعوتیں اڑا رہے ہیں اب کوئی جا کر ان کو بتائے کہ نام تو انہی کا ہے۔ کہ فلاں کا بیٹا ہے، فلاں کی بیوی ہے، فلاں کے بچے ہیں، دبئی کا گھر ہے، سعودیہ کا جہیز ہے، امریکہ کا خاندان ہے ہمارا کیا ہے اگر اپنا نام ڈبونا ہے تو بسم اللہ آ جائیں۔ کبھی ہم نے یہ دعوی کیا ہو کہ یہ ہمارا خود کا کمایا مال ہے پھر تو غصہ جائز ہے جب ان کا ہے انہوں نے ہمیں بھیجا ہے تو غصہ کیوںکر کہتے ہیں وہاں کی زندگی بڑی سخت ہے تو بھائی محنت تو کرنی پڑتی ہے نوکری کرنی کونسی آسان ہے اور پیسہ کمانے کے لیے جان تو لگانی پڑتی ہے درختوں پر تو پیسے نہیں اگتے۔ اور پھر کون سا کام آسان ہے اور یہاں کون سی پھولوں کی سیج ہے زندگی۔ قسم سے ایک چوک سے دوسرے چوک تک جانا کسی خواری سے کم ہے۔ زندگی یہاں بھی کوئی آسان نہیں۔ یقین مانیں اینٹیں ڈھونا اتنا مشکل نہیں جتنا لڑکی پھنسانا مشکل ہے اور وہ اس کو عیاشی کہتے ہیں جبکہ آپ تو جانتے ہیں کہ یہ اب سوشل اسٹیٹس ہے اور جب ہماری باری آئی گی تو ہم کیا محنت نہ کریں گے اور اگر ہمیں وہ کوئی بزنس مزنس چالو کر کے دیں گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں دل و جان سے محنت کریں گے اور نہ چل سکتا اللہ کی مرضی سے تو دوسرا کاروبار ہم اس سے بھی زیادہ دلجمعی سے کریں گے اور تیسرے میں اس سے زیادہ۔ والدین ویسے ہی کماتے اولاد کے لیے ہیں ہاں اگر وہ چاہتے ہیں ان کے بچے تنگ ہوں، زندگی غربت میں گزاریں، در در کے دھکے کھائیں تو ایسے سہی ہم تنگ ہو لیں گے وہ خوش ہو لیں کہ وہ تو نئے بچے تلاش کرسکتے ہیں ہم تو نئے والدین تلاش کرنے سے رہے اب۔

وہ کہتے ہیں کہ کبھی ہمارے شکرگزار نہیں ہوئےتو پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی پاکستانی قوم میں شامل ہیں ہم نے کبھی کسی کو بھولے سے بھی شکریہ ، مہربانی جیسے الفاظ بولے ہیں کیا اور دوسری بات یہ کہ کون بے وقوف اپنے والدین کا شکر گزار ہو اب بندہ بات بات پر ابا تیری مہربانی ڈیڈ تھینک ہو ویری مچ کہتا اچھا لگتا ہے کیا؟ اچھا اللہ کرے ہمارے بچے بھی ہمارے شکر گزار نہ ہوں بس اب خوش؟ اب تو اس مہینے موٹر بائیک کے پیسے بھیجیں گے ناں؟
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 14, 2014

میلان اور میلان طبع

Milan aur milan taba

خدا معلوم مجھے میلان Milan سے کیا چڑ تھی کہ اٹلی Italy کے چھوٹے موٹے شہر بریشیا Brescia ، ویچنزا Vicenza، پادواPadova  وغیرہ دیکھنے کے بعد بھی میں میرا میلان جانے کو دل نہ کرتا تھا۔

پہلی بار جب میں اٹلی گیا تو میلان کے سفر کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے اس پر جھیل گاردا جانے کو ترجیع دی اور بارش کے تمام مزہ کرکرا کرنے کے باوجود مجھے میلان نہ جانے پر کوئی افسوس نہ تھا۔

اب میرے سامنے چار رستے تھے۔ میں چھوٹے سے شہر بیرگامو Bergamo چلا جاتا جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ۔میلان چلا جاتا جو فیشن کا دارالحکومت کہلاتا ہے۔ میں جینوا Genoa  (سوئیس Swiss جنیوا Geneva نہیں بلکہ اطالوی جی نوا) جو کہ سمندر کنارے واقع ہے یا تورن Turin چلا جاتا، تورن جانے ایک وجہ یہ تھی کہ وہ مشہور فٹ بال کلب یوونٹوس Juventus کا گھر تھا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 7, 2014

کرکٹ ٹیم میں منتخب ہونا اور "ژ" خاصیت (ایکس فیکٹر) کا پایا جانا

Cricket team main mutakhib hona or Xe Khasiat (X-factor) ka paya jana


چھوٹے ہوتے ایک ٹی وی پروگرام میں انور مقصود نے معین اختر مرحوم سے جو سلیکشن کمیٹی کے ممبر بنے ہوئے تھے پوچھا "شعیب محمد" کو کیوں نہیں ٹیم میں چنا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں چند خامیاں ہیں
ایک تو وہ بلے بازی عمدہ کرتا ہے
دوسرا وہ گیند بازی بھی اچھی خاصی کر لیتا ہے
تیسرا اس کی فیلڈنگ تو لاجواب ہے۔
اور تو اور کیپر ان فٹ ہو جائےتو وہ وکٹ کیپنگ بھی کر لیتاہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

April 1, 2014

ایمسٹرڈیم میں ڈیم فول

Amsterdam main damn fool

آئی ایم ایمسٹرڈیم
ایمسٹرڈیم Amsterdam یوں تو ہالینڈ Holland یا نیدرلینڈ Netherlander کا دارالحکومت ہے لیکن یہ ڈچ Dutch یا ولندیزیوں سے زیادہ راستہ بھولے ہوؤں کا دارالحکومت لگا۔ ہر دو طرح کے راستہ بھولے ہوئے۔ گناہ ثواب کے تنگ راستوں پر خود اپنے راہبر بنےراستہ بھولنے والے اور ہاتھوں میں نقشہ تھامے ، گلے میں کیمرہ لٹکائے اور کسی ہمسفر کا ہاتھ تھامے ہر آتے جاتے سے راستہ پوچھتے والے کھلی کشادہ سڑکوں پر مارے مارے پھرنے والے۔ اور مزے کی بات ہے کہ ڈچ بھی راستہ بتانے کے اتنے عادی ہیں کہ کسی اجنبی کو گم سم دیکھ کر لوگ گاڑی روک کر خود ہی پوچھ لیتے ہیں بھائی کہاں جانا ہے؟

مزید پڑھیے Résuméabuiyad