February 17, 2014

ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی کی کہانی

Aik beron-e-Mulk muqeem Pakistani ki kahani



میرے سمیت بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی تین خوبیاں ہیں۔
ایک وہ بلا کے شیخی خورے اور ڈینگ باز ہوتے ہیں
دوسرا پیچھے پاکستان میں ان کا سلسلہ حسب و نسب و معاشی حالات اگر شریف و زرداری خاندان سےبڑھ کر نہیں تو کم بھی نہیں ہوتا
تیسرا ان کے حسن و وجاہت کے پیچھے کئی گوریاں دین و دنیا تیاگ کر ذہنی توازن گنوا کر جوگ بجوگ اپنا کر جنگلوں کی راہ لے چکی ہوتی ہیں۔ 


میں بھی پاکستانی ہوں اور بیرون ملک رہتا ہوں اس لیے اپنی ان اداؤں اور خصلتوں سے بخوبی واقف ہوں لہذا میری انتہائی کوشش رہتی ہے کہ بیرون ملک رہنے کا تجربہ رکھنے والے پاکستانیوں سے ملنے سےحتی الامکان گریز کیا جائے لیکن کہیں نہ کہیں ان سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے اور ان کے قصے سننے اور اپنے سنانے ہی پڑ جاتے ہیں تو ایسے ہی گذشتہ دنوں ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی جس کا احوال ان کی زبانی درج ذیل ہے تاہم نقص امن کے خدشے کے تحت جگہوں اور لوگوں کے نام بدل دیے گئے ہیں مثلاً لاہور کو ملتان کردیا گیا ہے، بار کو ہوٹل کر دیا ہے اور منیجر کو ڈاکٹر کر دیا ہے۔

آپ لوگ کتنے کتنے ملک گھوم چکے ہیں؟ دس؟ بیس؟ تیس؟ میں اللہ کی رحمت سے 65 ملک گھوم چکا ہوں۔ میں ایک ہوائی جہاز میں ڈاکٹر تھا۔ جہاں جہاں ان کا دورہ ہوتا میں ان کے ساتھ ہوتا اور یوں میں 65 ملک گھوم سکنے کے قابل ہوا۔ لیکن جو مزہ پیروگوئے اور یہاں (جس ملک میں ہم موجود تھے) ملا کہیں نہیں ملا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ پیروگوئے کی لڑکیاں ذرا ہماری طرح سانولی تھیں لیکن یہاں کی خالص گوریاں ہیں۔ بس وہاں بھی ہاتھ تھام کر ساتھ لے جاتی تھیں اور یہاں بھی یہی حال ہے جس کو کہا چلو ہوٹل میں چائے پیئیں وہ بولتی میں اپنی دو سہیلیاں بھی ساتھ لیتی آؤں؟ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

اوپر سے ان دونوں ممالک میں غربت اتنی تھی کہ مائیں خود آ کر کہتی تھیں کہ بیٹا یہ دیکھو ہماری بیٹی کتنی خوبصورت ہے کتنی جوان ہے اس کو ساتھ رکھ لو اللہ بھلا کرے گا تمھارا۔ 

بس جب میں اس ملک میں پہنچا تو میں تب ہزار ڈالر روز کا لیتا تھا۔اور پیروگوئے کی خواتین کی محبت کو ٹھکرانا مجھےاندر اندر کھائے جاتا تھا۔ مجھے وہی انداز یہاں ملا تو میں نے سوچا کہ بس اب کہیں اور نہیں جانا۔ میں نے بیماری کی درخواست دے دی اور یہیں رہ گیا۔ بس پھر ہزار ڈالر ہوتا تھا، نئی نئی لڑکیاں ہوتی تھیں اور میں ہوتا تھا۔ آج بھی جس شہر میں رہتا تھا وہاں کی ہر تیسری خاتون میری جاننے والی ہے۔

اصل میں یار سب پیٹ کا چکر ہے کہ اگر ہوتی وفا خون کے رشتوں میں تو یوسف نہ بکتا مصر کے بازاروں میں ۔۔۔ بس پاپی پیٹ کی خاطر نکلنا پڑا اور دربدر کی ٹھوکریں کھائیں ورنہ اپنے ملک سا کچھ نہیں اس دنیا میں۔ اب بھی میں سال میں آٹھ مہینے پاکستان میں رہتا ہوں باقی چار ماہ یہاں اللہ کے فضل سے ایسا بزنس ہے کہ بس نہ پوچھیں۔ آپ لوگوں کو کسی بھی مدد کی ضرورت ہے اس خاکسار کو یاد رکھیں۔ بس جب پھر یہاں کی لڑکیاں گھیرنے لگتی ہیں میں واپس پاکستان چلا جاتا ہوں کہ بہت گناہ کیے اس دنیا میں اب مزید نہیں ہوتے۔

اچھا آپ کی یہودیوں کے بارے کیا رائے ہے؟ ایماندار ہیں؟ مسلمانوں کے دشمن ہیں؟ایک بار کیا ہوا کہ ایک لڑکی میری محبت میں گرفتار ہو گئی۔ ان دنوں میرے حالات ایسے برے تھے کہ کوئی رہنے کی جگہ نہ تھی۔ ایک روز وہ مجھے بلا گئی کہ آج میرے گھر کھانا کھاؤ۔ میں بھی چل پڑا۔ آگے جا کر دیکھا وہ تو یہودن تھی اور اس کا گھر بالکل ان کی عبادتگاہ کنیسہ کے سامنے تھا۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور بولی میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ویسے تو یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے لیکن اس طرح تمھیں یہاں کی شہرہت مل جائے گی اور اگر تم وعدہ لو مجھے مسلمان نہ کرو گے تو میں ساری عمر تمھارے ساتھ رہ لوں گی۔ اگر نہیں تو تم جب تک چاہو میرےساتھ رہ لو، نہیں تو چپ کر کے اس عبادت گاہ میں رہنا شروع کر دو۔ اس کی ایک ماں بھی تھی وہ اکیلے میں ملی اور بولی اگر میں اپنی بیٹی کی جگہ ہوتی تو تمھیں نہ جانے دیتی۔لیکن میرے اندر کا مسلمان جاگ گیا اور میں نے کہا میں کیوں یہودی کی مدد لوں۔ اس سے آپ یہودیوں کی دردمندی اور انسان سے محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

میرے پاس پیسے کی ایسی ریل پیل تھی کہ میں اس کسینو میں جا کر جوا کھیلا کرتا تھا جہاں یہاں کا صدر کھیلا کرتا تھا۔ میں واحد غیر ملکی تھا جو وہاں جایا کرتا تھا اور میں اور صدر ایک ہی میز پر کھیلا کرتے تھے۔ میرے پاس ایک کار تھی جب میں وہ بیچنے لگا تو تین دن تک بیچارے ڈیلر پریشان رہے کہ وہ کہتے تھے انہوں نے یہ کار دیکھی ہی پہلی بار ہے وہ اس کی قیمت کیسے لگائیں ادھر اس کے شوروم پر الگ تماشہ لگا ہو کہ لوگ دور دور سے دیکھنے آئیں کہ ایک زبردست کار بکنے آئی ہے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ آخر تین بعد جرمنی سے ایک پارٹی نے آکر اس کی قیمت لگائی اور وہ کار بکی۔

بس بھائیو اب میں کیا مزید بتاؤں دنیا گواہ ہے کہ آپ کے بھائی نے یہاں پر راج کیا ہے لیکن اصل بات جو میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی کہ میں پاکستان سے نکلا کیوں تھا؟ میں اور میرے چھ دوست یہ نیت باندھ کر غیر قانونی طور پر ملک سے نکلے تھے کہ گستاخ رسول تسلیمہ نسرین کو قتل کریں گے لیکن بس ایسے گھیرے میں گھرے کہ اب تو یہ خواب و خیال لگتا ہے۔

یہاں پر ہماری برداشت جواب دے گئی اور ہم ان کے مزید گھیرے میں گھرنے کی بجائے زبان دبا کر بھاگنے کی نیت کی اور اجازت طلب کی کہ بھائی ہم نے کلب جانا ہے ۔ اس سے قبل کہ وہ گوری پھسانے کے دس سنہری اصول بھی بیان کرنا شروع کر دیتے ہم سیدھا اپنے فلیٹ میں آ کر بلاگ لکھنے لگے۔