December 1, 2013

اٹلی آئیں؟ بسم اللہ- اٹلی آئیں؟ماشا اللہ - حصہ اول

Italy aain? bismillah- Italy aain? mashallah- hissa awal


ہوا یوں کہ میں نے عزم کیا کہ اٹلی دیکھے گئے اکثر ممالک کی طرح ایک روزہ دورے میں نہیں دیکھنا بلکہ تفصیلاً گھومنا 
ہے۔ اور شکر خورے کو شکر اللہ نے راجہ صاحب اٹلی والے کی صورت میں دیا کہ انہوں نے بلاوہ بھیج دیا کہ آ جائیں اور ہم چلے گئے۔ بہانہ اردو کانفرنس کا بنا اور ہم ریان ائیر کی سستی ٹکٹ خرید بیرگامو-میلان کے ہوائی اڈے کے لیےعازم سفر ہوئے جس کو حال ہی میں دنیا کے بدترین ہوائی اڈوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ ہم اس معاملے میں یورپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں کہ اس لسٹ میں ٹاپ دس میں ہمارا اسلام آباد بھی شامل ہے جبکہ بھارت تو دو قدم آگے ہے کہ اس کے تین ہوائی اڈے اس فہرست میں شامل ہیں۔

جہاز نے بیرگامو –میلان اترنا تھا جبکہ راجہ صاحب اٹلی والے کی رہائش پادوا میں ہے جو کہ دو ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے لہذا انہوں نے کہہ دیا کہ آپ وہاں سے ٹرین پکڑ کر پادوا آ جائیں اور میں نے حامی بھر لی۔ لیکن جب ہوائی اڈے پر اترا تو آگے راجہ صاحب اٹلی والے خود مجھے وصول کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ ان کو اپنا منتظر پا کر اور خصوصاً ہوائی اڈے پر منتظر پا کر بڑی خوشی ہوئی کہ ان کا دل نہ مانا تھا کہ مہمان کو خوار کیا جائے لہذا وہ خود ہی لینے چلے آئے اور ہمیں ریل گاڑی ، بس وغیرہ سے بچاتے ہوئے اپنی کار میں پادوا لے گئے جو کہ ہماری خود ساختہ کانفرنس کا میزبان مقام تھا۔ انہوں نے وینس دکھایا، ویرونہ گھومایا، جھیل گاردا کی سیر کرائی اور ہمیں جہاز میں سوار کر کے ہی ہمیں چھوڑا۔ اور ہمارے پاس ایسٹونیا آنے کا وعدہ کر لیا۔
یہ تمام حالات آپ پڑھ چکے ہیں۔

لیکن وعدہ چونکہ کرنے کے لیے ہوتا نبھانے کے لیے نہیں اس لیے انہوں نے معذرت کر لی کہ وہ چند ناگزیر حالات کی بنا پر آنے سے معذور ہیں اور ہم نے ان کو سزا دینے کی ٹھانی اور ان کو کہا کہ پھر آپ کی سزا یہ ہے کہ آپ ایک بار پھر ہماری میزبانی کو تیار ہو جائیں- انہوں نے اپنی گذشتہ وعدہ خلافی کی خفت مٹانے کو ہم سے ایک اور وعدہ کیا کہ آئیں تو پھر اکٹھے ہی اٹلی کے ہمسایہ ملک سلوانیا چلیں گے اور ہم خوشی خوشی جہاز میں بیٹھ گئے۔

حسب معمول انہوں نے کہا کہ ٹرین پکڑ کر پادوا آ جائیں لیکن ہم جانتے تھے کہ راجہ صاحب اٹلی والے ہمیں لینے ضرور آئیں گے کہ راجاؤں مہاراجاؤں کی حمیت کہاں گوارا کرے گی کہ ان کے مہمان دھکے کھاتے پھریں۔ لیکن ہوائی اڈے پر اتر کر اور تمام ہوائی اڈے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بھی جب راجہ صاحب نہ ملے تو ہم کو احساس ہوا کہ وہ راجے مہاراجے لد گئے اور ہم کوئی شاہی مہمان نہیں بلکہ خوامخواہی مہمان ہیں۔ پہلی بار دورہ بسم اللہ یعنی خوش آمدید تھا اور اب کی بار معاملہ ماشااللہ ہے کہ خوش رہیں اپنے خرچے پر۔

یوں تو مجھے بتایا گیا تھا کہ بیرگامو سے بریشیا آ جاؤں بس پر اور وہاں سے ٹرین پکڑ پادوا آ جاؤں لیکن ہم تو خوش فہمی میں مبتلا تھے حالانکہ ہم خود اس بات کے بڑے مبلغ رہے ہیں کہ انسان سانپ پال لے، انسان پال لے مگر خوش فہمی نہ پالے تو بیرگامو پہنچ کر ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور دی گئی تمام ہدایات بڑوں کی ںصحیت کی طرح بھول چکے تھےنتیجۃ باہر نکلتے ہی جو پہلی بس ملی اس پر سوار ہوگئے اور میلان پہنچ گئے۔ یوں ہم پادوا سے نزدیک ہونے کے بجائے مزید پچاس کلو میٹر دور ہوگئے۔

میلان پہنچ کر جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ہمیں لگا شاید سارے میلان کو راجہ صاحب کے لینے کی امید تھی اور سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا کہ ٹکٹ لینے کی قطار میں ہمارا نمبر دو سو لوگوں کے بعد تھا۔ میں نے تو رات ٹیشن (اسٹیشن) پر گزارنے کا ہی سوچ لیا کہ اتنا بڑا اسٹیشن بنایا ہے آخر کوئی تو مقصد ہوگا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میری ٹکٹ لینے کی باری آ گئی اور پادوا کی ٹکٹ ایک اطالوی بابے نے میرے ہاتھ میں تھما دی۔ شاید کسی نے میرے ٹیشن کی بنچ پر سونے کے ارادے سے ان کو آگاہ کر دیا ہو وگرنہ دو سو بندہ تو ویسے کا ویسے ٹکٹ لینے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔

اب ہوایوں کہ یورپ میں اکثر ٹرینوں میں کوئی سیٹ نمبر نہیں ہوتا کہ ٹرین میں جہاں جگہ ملے آپ بیٹھ جائیں نہ ملے تو کھڑے رہیں نہیں تو کہیں کسی ڈبے میں دیوار سے ٹیک لگا کر وقت گزاریں تو ہم سمجھے یہاں بھی یہی کہانی ہوگی لیکن پتہ چلا کہ تیزرفتار ٹرینوں میں سیٹ نمبر ہوتا ہے اور اسی سیٹ پر بیٹھنا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ ہوا کہ حسب معمول میں ایک بار پھر اعداد بھول گیا اور جس ٹرین نے تین بج کر پانچ منٹ پر روانہ ہونا تھا میں تین بج کر پندرہ منٹ سمجھتا رہا۔ میں نے اپنی دانست میں فارغ وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تصاویر کھنچنی شروع کردیں کہ اچانک دیکھا ایک چینی لڑکا دوڑتا ہوا اسی پلیٹ فارم پر بھاگتا جارہا تھا جہاں براستہ پادوا وینس جانے والی ٹرین کھڑی تھی ۔ مجھے ہنسی آ گئی کہ بھائی اس کو بڑی جلدی ہے لیکن مجھے اپنے اعداد کو گڈمڈ کرنے والی عادت کا پتہ تھا تو میں نے احتیاطاً ٹکٹ نکال کر دیکھی اور اگلے ہی لمحے میں چینی کو ایسے پیچھے چھوڑ کر بھاگا جیسے بچپن میں کبھی کبھار گاؤں میں کتے پیچھے بھاگا کرتے تھے ۔

پہلا کھلا دروازہ دیکھ کر ٹرین کے اندر گھس گیا۔ ایک سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ سیٹ نمبر نظر آئے ۔ میں نے گھڑی دیکھی تین منٹ بچے تھے میں نے دوبارہ دوڑ لگائی اور گارڈ کے پاس جا کر دم لیا۔ اس نے کہا کہ آپکا بوگی نمبر 4 ہے اور آپ ایک نمبر کے آس پاس گھوم رہے ہیں یعنی ہمیں گاڑی کے اختتامی ڈبے تک جانا تھااور دوڑ دوبارہ شروع ہوگئی۔

ایک اور گارڈ کے پاس پہنچے اسے ٹکٹ دکھائی اور اس نے اکتا کر دروازے کی طرف اشارہ کر دیا اور میں بسم اللہ کر کے ڈبے میں گھس گیا اور خالی نشست دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔ بھاڑ میں گئے نمبر جب کوتوال نے اشارہ کر دیا تو ڈر کاہے کا۔بس شکر یہ ہوا کوئی اس نشست کا امیدوار نہ آیا اور ہمارے ساتھ بیٹھے انکل بھی راستے میں ویرونہ اتر گئے تو تین نشستوں پر ہم چوڑے ہو کر بیٹھے اور پادوا جا کر دم لیا۔ویسے ہم نے سوچ لیا تھا کسی نے تعرض کیا بھی سہی تو ہم کہہ دیں گے۔ نو اٹالین۔ انگلیس۔ گارڈ (اور ساتھ ہی ٹکٹ پر اشارہ کرنا ہے ، سیٹ نمبر پر کرنا ہے اور خود پر کرنا ہے)

ہمارا موبائل جو کہ ہم فقط وقت دیکھنے کے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ایسا ہڈحرام ہو کر رہ گیا ہے کہ کبھی اگر کسی کو تحریری پیغام بھیجنا پڑ بھی جائے یا فون کرنا پڑ جائے تو صاف انکاری ہوجاتا ہے اور فون کو بند کر کے دوبارہ چلانا پڑتا ہے تب جا کر پیغام روانہ ہوتا ہے اور کال ملتی ہے۔ لیکن اٹلی جا کر پتہ چلا کہ فون کے ساتھ ساتھ سم بھی حرام خوری پر اتر آئی ہے اور بین الاقوامی رومنگ پر پیغام اور کال موصول تو کر رہی ہے لیکن بھیجنے سے قاصر ہے۔ اب ادھر راجہ صاحب خدا معلوم اپنے پیسے بچا رہے تھے یا ہمارے کہ پیغام پر پیغام بھیج رہے ہیں کہ کہاں پہنچے مگر فون کرنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہم بھی سکون سے بیٹھے رہے کہ تنگ آ کر خود فون کریں گے اور آخر جب میں پادوا اسٹیشن پر اترا تو ان کا فون بھی آ گیا اور میں نے بجتے ہی اٹھا لیا کہ مبادا فون کا یا راجہ صاحب کا دل بدل جائے ۔

پادوا پہنچ کر راجہ صاحب نے خوشخبری سنا دی کہ سلوانیا والوانیا تو بھول جائیں بس آپ کو ادھر ادھر گھما دیں گے۔ میں نے سوچا کہیں گھر سے ہی نہ نکال باہر کریں تو اندر ہی اندر وعدہ خلافی کے خلاف احتجاج کرتے بظاہر ان کی تائید کی کہ دفع کریں جی سلوانیا بھی کوئی جگہ ہے جانے کہ بلکہ آپ نے تو جب کہا تھا تب ہی آپ کی بزرگی کے ڈر سے چپ رہے ورنہ ہم تو تب ہی انکار کر دیتے۔

میری ہمیشہ سے حتی الامکان کوشش رہی ہے کہ پرائی گاڑی اور پرایا کیمرہ نہ چلایا جائے لیکن اٹلی پہنچ کر راجہ صاحب نے اپنا نائیکون ڈی اکتیس سو تھما دیا کہ تصاویر اسی سے کھینچنی ہیں۔ طوعاً و کرہاً ہم نے تصاویر کھینچنی شروع کیں لیکن اس کا رزلٹ اتنا زبردست تھا کہ ہمارا نائیکون کا ڈیجیٹل ایس 2700 اس کے سامنے ایسے لگنے لگا جیسے اسٹین کے سامنے حفیظ اور ہم نے سارا سفر اسی سے فوٹو کھینچے۔ لیکن آتے وقت میں کمپیوٹر مییں وہ تصاویر نہ ڈال سکا اور آج دو مہینے گزرنے کے بعد بھی ان تصاویر کے موصول ہونے کا منتظر ہوں۔ بھیج دیں یار راجہ صیب۔

جاری ہے۔