November 21, 2013

وینس۔ ول نہ وینساں

Venice- wal na Vensan


فلمیں کیسے لوگوں کا دماغ خراب کرتی ہیں اس کا اندازہ مجھے وینس جا کر ہوا۔ انگریزی فلمیں دیکھ دیکھ کر کئی لوگوں سے 
سنا کہ وینس نہ دیکھا تو دنیا میں کچھ نہ دیکھا۔ وینس عجوبہ ہے، دنیا سے آگے کی کوئی چیز ہے، خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک شہر ہے الا بلا اور وغیرہ وغیرہ. دی ٹورسٹ The Tourist ،دی اٹالین جاب The Italian Job اور اس کا حسب معمول فضول ہندی چربہ پلیئرز Players دیکھ کر جو لوگ کبھی چیچوں کی ملیا اور کالا شاہ کاکو سے آگے نہیں جا سکے وینس جانے کی خواہش کرنے لگے۔

میرا وینس کا پہلا دیدار اصل میں وینس دیکھنے کی غرض سے نہ تھا بلکہ یہ ایک درویش بلاگر کو لینے کی غرض تھا۔ درویش عادات یا نام یا حرکتوں سے نہیں تھے بلکہ ان کے بلاگ کے نام کے حساب سے تھا جو پانچواں درویش ہے۔ خدا جانے پہلے چار درویش کیسے رہے ہوں گے لیکن بہرحال یہ پانچویں درویش صاحب خاصے معقول انسان تھے۔ یوں ہم صبح کے سات بجے وینس کے مارکوپولو ہوائی اڈے پر پہنچے اور اس کی پارکنگ کی جگہ دیکھ کر ہم ملتان کے ہوائی اڈے کی تنگی بھول گئے۔ان کو وصول کیا اور واپس شہرپادوا کی طرف چل دیے جہاں ہمارا قیام تھا۔ راستے میں راجہ صاحب اٹلی والے گویا ہوئے کہ یہ سڑک کے ساتھ ساتھ نہر دیکھ رہے ہیں بس یہی وینس کی پہچان ہے کہ یہی نہر نما سمندر وینس کو گھیرے ہوئے ہے۔ مجھے اپنا گاؤں یاد آ گیا وہاں بھی سڑک کے ساتھ ساتھ نہر چلتی ہے۔ہمارے کیا اکثر گاؤں کے کنارے نہر چلتی ہے لیکن ہم نے کبھی وینس کا شور نہیں ڈالا۔ حالانکہ فرق صرف یہ ہے کہ اس نہر میں کشتیاں اور چھوٹے جہاز چل رہے تھے جبکہ ہماری طرف کشتیاں فقط دریا میں چلتی ہیں اور جہاز چلنے کے قابل نہیں رہے۔ کچھ پی آئی اے کے کارگو میں کھڑے ہیں باقی سڑک کنارے اور نہر کنارے کونے کھدروں میں بےسدھ پڑے ہوتے ہیں۔

وینس کو اطالوی زبان میں وینیزیا Venezia اور میری زبان میں ول نہ وینساں(سرائیکی :دوبارہ نہ جاؤں گا)۔وینس میں اوسطاً پچاس ہزار سیاح روز آتے ہیں اور جس روز ہم گئے تھے اس روز لگتا تھا کہ پچاس ہزار کی اوسط آج ہی پوری کی جارہی ہے۔ اتنا رش تھا کہ فوٹو کے لیے کیمرہ چہرے کے سامنے لاتے تھے تو وہ سامنے کسی شخص کے سر کے پچھلے حصے سے ٹکرا جاتا تھا۔

پتہ چلا کہ وینس اسلام آباد کا جڑواں شہر ہے۔ میں نے ایسے بے تکے جڑواں زندگی میں پہلی بار دیکھےکہ ایک شہر میں پینے کا پانی خریدنا پڑتا ہے جبکہ دوسرے میں آپ کے گھر کے سامنے زمین نہیں بلکہ پانی ہے۔

وینس بحیرہ ایڈریاٹک کے کنارے واقع ہے لیکن وینس کا وہ حصہ جو سمندر اور دریاؤں کے پانی میں گھرا ہے وہاں کوئی ریت کا ساحل نہیں جیسا کہ اکثر ساحلی شہروں میں ہوتا ہے۔بس بےہنگم پانی ہے جو آپ کے دروازے کے سامنے بہہ رہا ہے۔ قرین قیاس ہے کہ وینس کے شعرا حضرات کسی آہٹ کو ہوا کی کارستانی کی بجائے پانی کی شیطانی قرار دیتے رہے ہوں گے۔

پندرہویں صدی عیسوی میں سلطان محمد فاتح نے استنبول کی فتح کے ساتھ رومیوں کے ہزاروں سال کے اقتدار کو ختم کیا تو ان کی فوجوں نے وینس کا محاصرہ کر لیا جوکہ تیس سال جاری رہا۔ وینس اس وقت یورپ کا ایشا سے اہم ترین تجارتی راستہ تھا۔نتیجتہ وینس والوں کو اپنی اہمیت کھونی پڑی حتی کہ کرسٹوفر کولمبس صاحب نے دنیا پر سب سے بڑا ظلم کرتےہوئے امریکہ دریافت کر لیا اور پرتگال نے بھارت کا ایک سمندری راستہ تلاش کر لیا جس سے وینس کی تجارتی اہمیت ہمیشہ کے لیےختم ہو کر رہ گئی۔لیکن اس کے بعد انہوں نے ہماری طرح شہر کو بربادی کے لیے نہیں چھوڑ دیا بلکہ آج یہ دنیا کے سب سے زیادہ سیاحوں کے جانے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ترکوں کی اس فوج کشی کا ہی اثر ہے کہ آج بحیرہ ایڈریاٹک پر دو مسلمان ملک واقع ہیں بوسنیا ہرزگووینا اور البانیہ۔

وینس گھومنے کے دو طریقے ہیں یا تو پیدل گھومیں۔ بس پانی میں گھری عمارتیں دیکھتے جائیں اور پلوں پر کھڑے ہو کر تصاویر بنوائیں اور چل چل کر خوار ہو کر گھر واپس ہو جائیں دوسرا یہ ہے کہ کشتی میں گھومیں۔ اس میں آپ کو ہندی دی گریٹ گیمبلر The Great Gamblerفیم دو لفظوں کی ہے ساری کہانی قسم کے گانے گاتے ملاح اور موسیقی کی دھنیں بکھیرتی خواتین بھی دیکھنے کو ملیں گی اور چلنے کی مشقت بھی کم۔لیکن ایسی صورتحال میں اپنا اور اپنے بٹوے کا وزن برقرار رکھنا خاصا مشکل ہوجائے گا کہ وینس میں ایک کافی پینے کے لیے بھی شیر کا سا جگر چاہیے کجا کشتی اور موسیقی کا خرچ۔ لیکن نہ تو وہاں چلنے کو راستہ ملتا ہے نہ بیٹھنے کو کشتی۔ عقل سے خالی اور جیبوں سے پُر افراد کہاں نہیں ملتے؟ باقی ہم تو اس فارمولے کے حامی ہیں کہ بندہ ایسی جگہوں پر ایک کافی یا ایک کوکاکولا پینے سے اچھا نہیں گھر جا کر انہی پیسوں سےتین تین پی لے۔

راجہ صاحب اٹلی والے، پانچویں درویش اور میں نے وینس خوب گھوما اور وینس کے بارے تمام خوش فہمیاں اچھی طرح سے سمندر برد کیں اور تب تک چلتے رہے جب تک کم از کم میرے دل سےوینس ہمیشہ کے لیے اتر نہیں گیا۔جب واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو کہنے کو کچھ دل نہ کرتا تھا کہ اتنی تھکاوٹ اور پیاس تھی کہ وینس کا سبزی مائل پانی بھی کچھ کچھ اچھا لگنے لگا تھا ۔ البتہ واپسی کے راستے میں ہم سستی دکان سے کافی پینا نہیں بھولے تھے یوں وینس کی ایک کافی کی قیمت میں ہم تینوں نے کافی سے لطف اٹھایا۔

عام طور پر مجھے اپنی فوٹو یا کسی اور انسان کی فوٹو کھینچنے کا اتنا شوق نہیں ۔ کئی لوگ میری کھینچی ہوئی فوٹو دیکھ کر کہتے ہیں کیا تمام شہر میں ایک بھی انسان نہیں تھا ۔ لیکن وینس میں نہ صرف میری تصاویر کھینچی گئیں بلکہ مجھے بھی مروت میں اپنے ہمراہیوں کی فوٹو کھینچنی پڑیں یوں یہ ان چند شہروں میں سے ایک بنا جہاں میں گیا اور جہاں میری خود کی فوٹو بھی موجود ہے۔ورنہ کچھ شہر ایسے ہیں جہاں میں گیا ہوں لیکن تصاویر نہیں لیں۔ بہت سے ایسے ہیں جہاں میں گیا ہوں اور تصاویر بھی لی ہیں۔ اور بہت کم ایسے ہیں جہاں میں گیا ہوں اور میری خود کی تصویر بھی کھینچی گئی ہے۔

بھائی مختصر یہ ہے کہ وینس اور ہمارے شہروں میں ذرا برابر فرق نہیں ماسوائے اس کے کہ ہمارے ہاں ویسے تو ہر جگہ غول در غول انسانوں کے پھر رہے ہوتے ہیں لیکن خصوصی اوسط پورا کرنے والا رش کسی بھی مفت لنگر والی جگہ پر مل جاتا ہیں جبکہ دوسرا ہمارے ہاں گٹر کا پانی اتنا کبھی نہیں ہوا کہ بیچ میں کشتیاں دوڑا سکیں ہم اینٹ اور پتھر رکھ کر اپنے وینس کے سمندر میں پیدل ہی گھوم لیا کرتے ہیں۔اور بیچاری حکومت کی بے پناہ کوششوں کے باوجود کہ ہر شہر ہر گلی کو وینس بنا دیا جائے آپ کو اخبار میں اکثر ایسی خبر دیکھنے کو مل جاتی ہے کہ محلہ بےکار پورہ کے رہائشیوں کی طرف سے احتجاج۔ ایک ماہ ہونے کے باوجود گٹروں کا پانی گلیوں میں کھڑا ہے۔ چونکہ جمعدار صرف حکومتی کہنے پر مفت ملتے ہیں اس لیے اہل محلہ کے بیس بیس روپے بچاتے ہوئے حکومت پہلی فرصت میں ہمارے محلے کو وینس بنانے کی کوشش ترک کرے۔ ایک پس منظر میں نوعمر بچے ہاتھوں میں پتھر اور لاٹھیاں اٹھائے ایسے کھڑے ہوتے ہیں کہ مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔

اٹلی کے سفرنامے کی یہ تیسری قسط ہے۔ اس سے قبل ویرونہ کا سفر نامہ بنام جانا اٹلی اور ملاقات ماسی جیولیٹ سے کے  اور جھیل گاردا کا سفر بطخ کی اداسی اور جھیل گاردا کے نام سے شایع ہو چکے ہیں۔

وینس کی تصاویر کے لیے لنک درج ذیل ہے۔