October 21, 2013

بکرے کی بک بک

Bakry ki bak bak


صاحبان، قدر دان، قصائیان و مالکان میں ایک بکرا ہوں اور بِک رہا ہوں ۔ اگر آپ یہ فضول سوال پوچھیں کہ میں بکرا کیوں ہوں اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ چونکہ میں ایک بکری کے ہاں پیدا ہوا لہذا میں بکرا ہوں۔ کیونکہ انسان کے علاوہ اور کسی جاندار میں یہ طاقت نہیں کہ وہ جس کے ہاں پیدا ہوا ویسا نہ ہوا کہ بکرے کے گھر بکرے کا بچہ اور گدھے کے گھر گدھے کا بچہ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن انسان کا کوئی پتہ نہیں کہ انسان کے گھر پیدا ہونے والا انسان کا بچہ ہی ثابت ہو گا یا کچھ اور۔ اور اس سوال کے جواب میں کہ میں بِک کیوں رہا ہوں تو اپنے گریبان میں جھانک لیں پاکستانی ہو کر ایسے سوال۔ بہرحال میری فروخت کا معاملہ میرے یا میرے رشتے داروں دوست یاروں کے پیسے کمانے سے تعلق نہیں یہ سرا سر عید قربان کی وجہ سے خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ یہ سیانوں کی باتیں ہیں اور بکرے کے مغز کا سوائے بھون کر کھانے کے اور کوئی استعمال نہیں لہذا ایسی باتیں کیوں کی جائیں۔


یوں تو انسان اور بکروں کا ساتھ اتنا ہی قدیم ہے جتنا بکرے اور قصائی کا، کتے کا اور اس کی دم کا، مرغی کا اور انڈے کا لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بکروں کے ساتھ ہمیشہ سے دوہرا سلوک کیا گیا اور ان کو دوسرے درجے کا جانور سمجھا گیا حالانکہ انڈے اور مرغی کی بجائے یہ سوال بھی رائج کیا جاسکتا تھا کہ پہلے بکرا آیا یا قصائی؟ ہو سکتا ہے کہ آپ اس کو میری شرارت سمجھیں اور قصائی سے مراد حضرت انسان لیں تو یہ فقط آپ کے اندر کی خلش ہے کہ انسان کے اکثر اوقات قصائی واقع ہونے کے باوجود میری مراد اصل قصائی سے ہی تھی جو بکروں کو ذبح کرتا ہے۔ اور تو اور بکواس کرنے کو بکرے کی مناسبت سے "بک بک" قرار دیا گیا۔ اب بھلا ہم خواتین سے بھی زیادہ گفتگو کرتے ہوں گے؟بس جی دنیا نے کب قابل لوگوں کی قدر کی ہے، سقراط ہوئے، کوپر نیکس ہوئے، دانتے ہوئے، بکرے ہوئے مرنے کے بعد ہی احساس ہوتا ہے لوگوں کو۔

تمام جانوروں پر ادب عالیہ اور ادب چھالیہ تخلیق کیا گیا لیکن بکرے پر بنایا بھی کیا گیا کہ "غم نداری بز بخر" (اگر کوئی غم نہیں تو بکرا پال لو)۔ یہ تو نہ بنایا گیا کہ "منکہ ایک بکرا"، "بکریانے"، "بکر در بکر"، "آگ کا بکرا" وغیرہ وغیرہ ہاں اگر بنایا گیا تو سری پائے، چانپیں، رانیں وغیرہ ۔ کاش کوئی یہ بھی لکھتا مجھے جب اس سے پیار ہوا تو اس کو قربان کیے ہوئے تیسرا دن تھا۔ چاہے بعد میں گوشت ہی چسکے لے کر کھاتا رہتا۔ کہ مجھے جب اس کی یاد ستاتی میں اس کے کباب تلنا شروع کر دیتا ۔ اگر کسی نے قدر کی تو وہ مرحوم ابن صفی تھے جنہوں نے حمید کے زریعے مجھے پالا بلکہ نیا نام یعنی بغرا خان بھی مرحمت فرمایا۔ لیکن جیسے ہماری قدر زمانے نے نہ کی ایسے ہی ان کی قدر ادب والوں نے نہ کی اور آج بھی کہتے ہیں کہ ان کا لکھا ادب میں آتا ہے یا نہیں حالانکہ ادب میں وہ وہ کچھ آچکا ہے کہ ادب بذات خود بے ادب بن چکا ہے۔ایک اور بھی یاد آتا ہے کسی نے ہماری تعریف میں لکھا تھا لیکن جیسے جیسے عید قریب آتی ہے ہماری عقل خبط ہوتی جاتی ہےجیسے ہر نئی انسانی نسل کی پرانوں کے مقابلے ہوتی جاتی ہے۔

انسان اور بکرے میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ بکرا ساری عمر میں میں کرتا رہتا ہے اور انسان بھی تمام عمر میں میں کرتا رہتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بکرے کا قول و فعل ایک ہوتا ہے اس لیے وہ مستقل میں میں کرتا ہے جب کہ انسان ظاہری طور پر انگریزی، فرانسیسی، جاپانی، جرمن، پرتگالی میں بات کرتا ہے لیکن اندر سے وہ میں میں ہی کر رہا ہوتا ہے۔ بکرے کی ایک دم ہوتی ہے اور انسان کی بعض اوقات ایک سے بھی زیادہ دم ہوتی ہیں بلکہ یہ تو ہم سے بھی بڑھ کر کسی کی خود دم ہو جاتا ہے جس کو اکثر لوگ دم چھلہ کا نام دیتے ہیں۔ بکرے کی دم تو بکرے کی ہی ہوتی ہے جبکہ انسان الو کی دم اور کتے کی دم تک بن جاتا ہے۔ اور جس سے مطلب پڑ جائے اس کا دم چھلہ ہو جاتاہے۔

کئی لوگوں کو اعتراض ہے کہ بکرا انسان نہیں بن پاتا اور بکری دیکھتے ہی پھسل جاتا ہے تو وہ یورپی انسانوں کو کیوں بھول جاتے ہیں اور ہمارے مشرقی بھی تو کم نہیں فرق یہ ہے کہ کسی طرح ان کے اعمالوں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ کہتے ہیں بکرا ٹکریں مارتا ہے تو یہ کونسا گناہ ہے آپ کے غالب صاحب کہہ گئے کہ ہماری قسمت میں کوئی دیوار نہیں یا سر پھوڑنا ٹھہرا تو آپ ٹکریں ماریں تو شاعری قرار پائے اور ہم آپ کے اعمال دیکھ کر سر ماریں تو جارحیت پسندی۔یعنی آپ کی میں راگ اور ٹھمری اور ہماری میں بے سرا پاپ۔

انسان نے جانوروں کی درجہ بندی میں بھی ہمارے ساتھ بے ایمانی کر لی۔ بے چاری اللہ میاں کی گائے کو خدا بنا دیا اور جو اللہ میاں کی گائے شادی کر کے لے آئے اس گائے بیچاری کو کولہو کا بیل بنا دیا۔ اب ہم میں کیا کمی ہے؟ کیاگائے دودھ دیتی ہے ہم دودھ نہیں دیتے؟ کیا گائے گوشت دیتی ہےہم گوشت نہیں دیتے، کیا گائے ناچ سکتی ہے اور ہم نہیں ناچ سکتے لیکن نہیں۔ گائے ، سانپ حتی کہ بندر تک مقدس جانور ہیں اور بیچارہ بکرا فقط قربانی کا۔ کئی سیانے بکروں نے دبے لفظوں یہ کہا ہے کہ چونکہ ہمارا گوشت مزیدار ہے اس لیے ہم بیچارے مقدس نہیں ہو سکے لیکن چونکہ ہم اپنے نہ زندہ بھائیوں کا گوشت کھاتے ہیں نہ مردہ بھائیوں کا تو اس معاملے پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔

آج کل ایک گروہ سبزی خور بھی ہے یقین مانیں بڑا پیار آتا ہے ان پر۔ دل کرتا ہے سینگھوں میں بٹھا کر اس کو سیر کرائی جائے لیکن ڈر لگتا ہے کہ سیر کے بعد وہ سبزی خوری پر تین حرف بھیج کر ہمیں لے کر قصائی کے پاس جا پہنچے کہ انسان بھلا کب کسی کے پیار کو سمجھ پایا ہے۔

انسان کے الٹے کاموں میں قربانی جیسا مقدس کام بھی شامل ہو چکا ہے۔ ۔ کبھی کبھی ہمیں شک پڑتا ہے کہ اگر بڑی عید نہ ہوتی تو فریزر بنانے کا خیال لوگوں کو نہ آتا۔ حالانکہ ہمارے خالہ ذاد بھیڑ کے میمنے نے قربانی دے کر مثال قائم کی اور انسان کو حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں حسب حیثیت قربانی کریں لیکن یہاں بکرے تو چپ رہے لیکن انسان کی میں میں شروع ہو گئی اور اللہ کی بجائے محلہ اور اسٹیٹس اہم ہو گیا کہ ہمارا بکرا اونچا ہو، خوبصورت ہو، مہنگا ہو، سلیقہ شعار ہو، سریلا ہو گویا قربانی نہ ہوئی مس ورلڈ کا مقابلہ ہو گیا۔ اور بجائے اس کے کہ ہمارے گوشت کو بانٹا جائے اپنے ہی فریج اور فریزر بھرے جاتے ہیں۔ جس گھر میں بکرا نہ ہو اس کا سماجی حیثیت انتہائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور جو دوسروں کے گھر کے سامنے آنتیں اور دوسری غلاظت نہ پھینکے اس کے رتبے میں کمی آنے کا اندیشہ ہوتا ہے کہ یہ شریف بندہ ہے لہذا اس کا دروازہ آئندہ کے لیے گند پھینکنے کی جگہ قرار پاتا ہے۔

انسان کا تو یہ حال ہے انسان کی کھال اتار لیتا ہے تو بکرے کی کھال پر رونے والے انسانوں پر مجھے بڑی ہمدردی ہوتی ہے اور میرا دل کرتا ہے ایسوں کو اپنی کھال دے دوں کہ یہ لو جس کو مرضی آئے بخش دو کہ تمھارے دل کی تسلی ہو جائے لیکن پھر خوف آتا ہے کہ یہ انسان ہے اس نے ویسے ہی کھال اتار لینی ہے جب اس کا دل چاہے گا لہذا زیادہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ لات مارنا چار ٹانگوں والے گدھے کا کام تھا اور اب یہ کام دو ٹانگوں والے گدھے بخوبی انجام دیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بکروں کو بھی اس میں گھسیٹا جا رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو بات طوالت کھینچ گئی کہنا فقط یہ تھا کہ عید قربان پر بکرا بے شک قربان کریں لیکن ہماری میں میں کی کمی پوری نہ کریں بلکہ آپ آپ کریں کہ بے شک اس میں ٹرین نکل جاتی ہے لیکن خلوص رک جاتا ہے اور ویسے بھی دینے میں جو مزہ ہے وہ جمع کرنے میں نہیں۔ ہمیں دیکھیں دودھ دیتے ہیں، گوشت دیتے ہیں، کھال دیتے ہیں، نئی نسل دیتے ہیں کہ ہمارے بعد آپ کی ضرورت پوری کرتی رہے، خوشی خوشی قربان ہو جاتے ہیں۔ آپ کا تو یہ حال ہے کہ آپ "درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو" ہی بنتے جارے ہیں یعنی اصلی والا درد دل المعروف ہارٹ اٹیک۔۔۔