October 1, 2013

میرے بچپن کی یادگار شرارتیں

Mere bachpan ki yadgar shrartain


حالانکہ بہت سے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں بچپن میں انتہائی بیبا، باادب اور معصوم بچہ تھا اور آج کل کے بچوں کو دیکھتے ہوئے تو ہماری شرافت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم بھی پورے سورے تھے بس خدمت کا موقع نہیں ملا اور والد صاحب کے ڈر سے اکثر کاموں سے باز رہتے اور لگے رہتے ہوائی قلعے بنانے جس میں ہم اکثر فاتح عالم بنتے یا اکیلے پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوا آتے بعد میں کافی عرصہ ہم خیالی جاسوس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔انہی سوچوں میں گم رہنے کی بنا پر کئی لوگوں نے ہم کو بے وقوف مشہور کرنا چاہا لیکن اللہ کے فضل سے اپنی شہرت بچپن سے ہی اچھی رہی ہے اور اتنی اچھی رہی ہے کہ کبھی رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گئے تو یہ کہہ کر چھوڑ دیے گئے علی ایسا نہیں کر سکتا یہ کسی اور کی شرارت ہو گی۔
لیکن الحمدللہ ہم بھی وہ پہنچی ہوئی شخصیت ہیں کہ بسا اوقات ایسے پکڑے گئے کہ نہ پوچھیں۔ والد صاحب نے ایک استاد رکھ کر دیا تھا جو عربی اور فارسی پڑھا جایا کرتے تھے۔ نئی نئی عربی کے نشے سے سرشار ایک روز اپنے چچا کے اسکول کے دفتر گھسے اور وہاں پر ان کے اسکول کے حسابات والے رجسٹروں پر جلی حروف میں لکھ دیا "انا علی حسان، انا فی الباکستان"۔ہمیں والد صاحب کی طرف سے تو گاہے بگاہے دوا برائے دوری شرارت ملتی رہتی تھی لیکن چچا نے کبھی ڈانٹا نہ تھا۔ پر اس روز یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا اور اس شام کو چچا نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا "کیوں لکھا ہے بد تمیز"؟ تو میں صاف مکر گیا میں نےکہا "میں نے نہیں لکھا"۔ جس پر ایک طمانچہ پڑا کہ "کوئی اور علی حسان ہے"؟ اس روز احساس ہوا بندہ چول سوچ سمجھ کر مارے تو بہتر ہے۔

ایک یاد ہے کہ والدہ سے اکثر پوچھا کرتا تھا کہ بندہ بے ہوش ہوتا ہے تو سانس لیتا ہے؟ پھر ہوش میں کیسے آتا ہے؟ کیا بے ہوش ہوا بندہ باتیں کرتا ہے؟ بندہ بے ہوش کیوں ہوتا ہے؟اور خدا معلوم کیا دل میں آئی کہ ایک دن جھوٹ موٹ کا بے ہوش ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا اکلوتا بیٹا ، مما سب بہن بھائیوں میں بڑی ہیں وہ ننھیال میں تھیں۔ میری خالاؤں کو سچ مچ بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ علی کو کیا ہو گیا؟ پانی لاؤ۔ ایک بھگدڑ مچ گئی اور اس سے قبل کہ رونے کی آوازیں اونچی ہوتیں میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میری کئی خالائیں میری ادکاری سے متاثر ہو گئیں۔ لیکن میری یاداشت میں وہ پہلی بار ہے جب مما سے ٹھکائی ہوئی ہو پر الحمدللہ کبھی والدہ کی ڈانٹ اور مار کو دل پر نہیں لیا کہ یہ تو براہ راست جنت جانے کی ٹکٹ ہے۔

ویسے تو میں بالکل شریف بچہ تھا لیکن ایک بڑی عجیب عادت تھی مجھ میں کہ میں گھر میں ساری الماریاں، ساری درازیں، سارے خانے کھول کھول کر دیکھا کرتا کہ اس میں کیا ہے؟ نئے گھر جاتا تو ہر کمرے میں جھانکتا، ہر کونا کونا چھانتا اور اخر کار خانوں ، درازوں اور الماریوں تک نوبت آجاتی اور انتہائی بے چینی رہتی جب تک میں ہر شے کا جائزہ نہ لے لیا کرتا۔کوئی بھی شے ڈھونڈنی ہوتی گھر والے مجھ سے ہی پوچھتے۔ مجھے پتہ ہوتا کہ پیچ کس وہاں پڑے ہیں، سنی پلاسٹ اس الماری مٰں، مما کا چھوٹا پرس کدھر ہے؟ پانچ پیسے کے تین سکے کس کونے میں چھپے پڑے ہیں وغیرہ وغیرہ۔اب یہ عادت تو نہیں رہی لیکن اب بھی نئے رستوں کو دیکھ کر ویسی ہی اینٹھن جسم میں شروع ہوجاتی ہے جیسے نشئی کا نشہ ٹوٹ رہا ہو۔

اس کے ساتھ ہی میرا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کو ڈرامہ نہ دیکھنے دینا ہوتا تھا۔ ادھر پی ٹی وی کا ڈرامہ شروع ہوتا ادھر میرے اندر کا شریف بچہ رخصت ہو جاتا۔ میں شور کر رہا ہوں، ٹی وی کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہوں، مما کو کوئی کام بتا رہا ہوں، ٹی وی کے ساتھ والی الماری کی تلاشی کر رہا ہوں، انٹینے کی تار اتار رہا ہوں۔مجھے بھوک لگ گئی ہے اور میں کھانے کے لیے رو رہا ہوں۔ آخری حربے کے طور پر مجھے گود میں پکڑ کر بٹھا دیا جاتا اور جب اشتہار شروع ہوتے تو تب چھوڑا جاتا۔ پتہ نہیں مجھ جیسے بڑے صاحب کتاب ادیب کو تب ادب سے چڑ کیوں تھی لیکن اب بھی اسٹار پلس اور ہم کے فضول ڈرامے میرے کمرے میں موجود ہوتے لوگوں کو دیکھنے مشکل ہو جاتے ہیں۔

بچپن میں آگ سے گہری انسیت رہی۔ مولوی صاحب پڑھانے آتے کہنے لگے یہ تاش کھیلنا حرام ہے۔ تب میرے دوسرےچچا کے یار دوست اکثر تاش کھیلا کرتے تھے تو ایک روز میں نے ان کے پتے اٹھا کر گھر میں لگے تندور کی نظر کر دیے اور صاف مکر گیا کہ مجھے کیا پتہ۔ حسب سابق میں یہاں بھی چول چڑھا چکا تھا کہ میں ان کو کہا کرتا تھا کہ تاش کھیلنا حرام ہے۔ لہذا ان کو شک میرے پر ہی تھا۔ انہوں نے کوئی بات تو نہ کی لیکن جب وہ نئی تاش لے آئے مجھے سخت الفاظ میں تنبیہ کی گئی کہ اگر اس بار پتوں کو کچھ ہوا تو ذمہ دار مجھے سمجھا جائے گا۔پر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جلد ہی ان لوگوں نے تاش چھوڑ کر کوئی اور شغل اختیار کر لیا اور ہم نے ایک بار پھر پتے تندور واصل کر دیے۔ لیکن تاش کی بھی ایسی آہ لگی کہ آج میں خود رنگ کا اچھا خاصا کھلاڑی ہوں۔

آگ کا شوق تاش تک نہ رہا بلکہ مجھے انتہائی تجسس تھا کہ آگ لگے تو کیسا ہوتا ہے اور اسی چکر میں ایک بار ماچس سے اپنی بہن کے سونے والے کارٹ baby cart کو آگ لگا دی جس سے پلاسٹک کا لگا بان جلنے ہی والا تھا کہ بچا لیا گیا اور تھوڑی سی جلی ہوئی ایک طرف کافی عرصہ میرا تجسس جگاتی رہی ۔

اب کی بار میں نے پکا کام کرتے ہوئے غسل خانے میں پڑے میلے کپڑوں کو ہی آگ دکھا دی اور نتیجہ گھر کو آگ لگتے لگتے رہ گئی۔پانی کی بالٹیاں ڈال ڈال آگ بجھائی گئی اور کئی روز تک جلے ہوئے کپڑے باہر صحن میں نظر آتے رہے لیکن تب میں چھوٹا تھا اور حسرت پوری نہیں ہوئی اب بھی کئی چیزوں کو آگ لگانے کا دل کرتا ہے اور جب بس نہیں چلتا تو اکثر لوگوں کی طرح باتوں سے ہی آگ بھڑکانا چالو کر دیتے ہیں اور ہمارے پاس تو اللہ کے فضل سے قلم کی طاقت بھی موجود ہے۔۔۔