September 11, 2013

میں پروفیسر کیوں بننا چاہتا ہوں

Main professor kiyo banna chahta hoon

یوں تو پاکستان میں ہر سرکاری عہدے کے سرکاری مزے ہیں ۔کلرک ہو، ڈاکیا ہو، افسر ہو یا کوئی اور سرکاری عہدہ۔الگ ہی موجیں ہیں۔لوگ دن رات ایک کر کے سی ایس ایس اور پی سی ایس کرتے ہیں کہ سرکاری افسر لگ جائیں۔ڈاکٹر ،انجنیئر کے بعد سرکاری افسر ایک تمام نسل کا خواب رہا ہے۔

کسی بھی سرکاری ملازمت کو حاصل کرنے کے لیے تین میں سے ایک شے کا ہونا لازمی ہے۔یا تو تگڑی سفارش ہو۔سفارش میں اپنا یہ حال ہے تگڑی چھوڑ کانگڑی نہیں ملتی۔ہمیں تو لیزنگ والوں سے کار آج تک نہیں مل سکی کہ ہمارے ہمسائے بھی لیزنگ والوں سے سفارش کرتے ہیں کہ اس بندے کو کار نہ دینا ہم نہیں جانتے۔  

ویسے آج کل سفارش سے زیادہ پیسہ چلتا ہے۔اب بندہ کہاں سے دس پندرہ لاکھ بھر کر پٹواری، تھانیدار یا واڈرن لگے کہ یہاں تو دس پندرہ ہزار کے لالے اور ملالے پڑے رہتے ہیں۔

تیسرا راستہ ہے سرکاری امتحانات کا۔بدقسمتی سے جنرل نالج میں ہم صفر ہیں کہ اپنے علاقے کے علاوہ ہمیں کسی سے کوئی علاقہ نہیں اور انگریزی میں ہم منفی دس ہیں کہ انگریزی کے ہجے کرنا تک ہمارے بس کا کام نہیں اور مضمون نگاری تو دور کی بات ہے۔


لیکن اس کے باوجود بھی اپنے نظام تعلیم کی تعلیم اگر کسی جگہ کام آ سکتی ہے تو وہ ہے یونیورسٹی کہ یونیورسٹی میں تعیناتی کے وقت آپ کی قابلیت نہیں جانچی جاتی۔ بڑی سفارش پر آپ ماسٹرز کے بعد پروفیسر لگ سکتے ہیں چھوٹی سفارش پر ایم فل کے بعد لگ سکتے ہیں اور بنا سفارش کے پی ایچ ڈی کے بعد پروفیسر لگ سکتے ہیں۔اور ہمارا نظام تعلیم اتنا اچھا ہے کہ میں اللہ کے فضل سے پی ایچ ڈی میں پہنچ چکا ہوں۔

اب ویسے تو مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے لیکن پروفیسر لگنے کے اور بھی بڑے فائدے ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ امید ہے آج کے بلاگ کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اس شعبہ کہ اہمیت سے کماحقہ واقف ہو جائیں گے۔ سیدھی اور صاف بات ہے کہ کلاس میں ساٹھ ستر بچوں اور لڑکیوں کی تقدیر آپ کے ہاتھ لگ جاتی ہے اور اچھے نمبر لینا کس طالب علم کو اچھے نہیں لگتے۔ تو آپ پڑھائیں نہ پڑھائیں جائیں نہ جائیں آپ کی واہ واہ ہے۔ اگر آپ کا دل نہیں تو کلاس میں غپ بازی کرکے آجائیں بچے خوش کہ سلیبس نہیں ہے۔ اگر آپ دھڑادھڑ پڑھا آئیں تو بھی بچے خوش کہ پروفیسر صاحب نے علم کے سمندر بہا دیے۔

ایک پروفیسر صاحب نے اعلان فرمایا جو ایک بوسہ دے گا اس کو پانچ نمبر اضافی دیے جائیں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اکیسویں بوسے پر نمبر 100 سے بھی آگے نکل جائیں گے دوسرا بوسوں کی نوعیت بارے بھی کچھ نہیں بتایا گیا تیسرا یہ بھی واضح نہیں کہ یہ سہولت لڑکوں کے لیے بھی ہے کہ نہیں۔تو وی سی صاحب نے ایسی غیر دانشمندانہ پیشکش کو ختم کرتے ہوئے لائبریری سائنس کا شعبہ ہی ختم کر دیا کہ کتابوں سے ہمیں کیا لینا دینا اور سرکاری پروفیسر کو نکالنا مشکل کام ہے جبکہ پورا شعبہ تحلیل کرنا آسان کام۔لیکن جب ہم پروفیسر بنیں گے تو ایک تو ہم مساوات کے قائل ہیں ہم کوئی ایسا نظام لائیں گے جس میں مرد و خواتین کو برابر مواقع ملیں اور خواتین مردوں کا استحصال نہ کر پائیں دوسرا مانگ کر ہم ایوارڈ لینے کے قائل نہیں تو بوسہ کیسے لیں لہٰذا کوئی اپنی خوشی سے دے گا تو وصول کر لیا کریں گے ورنہ خوش رہو مگر اپنے خرچے پر۔

ایک پروفیسر صاحب نے اپنے کمرے میں پلنگ اور بستر بھی لگوا رکھا تھا کہ گاہک اور شکار کبھی بھی آسکتا ہے تو تف ہے ایسی سوچ پر۔اتنے لالچی تو سیاہ ست دان بھی نہیں ہوتے۔40 سال کے لیے پروفیسر لگے ہیں حلوہ ٹھنڈا کر کے کھائیں۔اگر گھر پر بیگم سے ڈر لگتا ہے تو کوئی کرائے پر کمرہ لے لیں۔ایسے ہی لوگوں نے استاد جیسے مقدس پیشے کو بدنام کر رکھا ہے تب ہی پنجاب یونیورسٹی سے انکو نکالا گیا وگرنہ کون مائی کا لال سرکاری ملازم کو نوکری سے نکال سکتا ہے۔چاہے بیچاری لڑکیاں ٹی وی پر آ کر کیوں نہ چیخیں کہ ان کے ساتھ بد تمیزی کی گئی ہے مختاراں مائی کی جنگ کی سپہ سالار بھی انکا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہیں کہ ساتھی پروفیسر کا معاملہ ہے کل کلاں کوئی ان پر بھی انگلی کھڑی کر سکتا ہے۔ چاہے کوئی اخبار میں آ کر کہہ دے کہ نفسیات کی خاتون پروفیسر ساتھی مرد پروفیسروں کی شکار میں مدد کرتی ہیں کس کی جرات ہے تحقیقی کمیٹی ہی بٹھا کر دکھائے۔اب آپ خود ہی سوچیں اور کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں نوکری کی اتنی گارنٹی ہو۔

ایک پروفیسر صاحب کے خلاف انتی شکایات بڑھیں کہ ان کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی براہ راست وزیر اعلیٰ ہاؤس سے تشکیل پائی اور اس کمیٹی کے ایک ممبر وہ خود بھی تھے موصوف آج بھی منیجمنٹ کے شعبہ کے سربراہ ہیں۔

ایک پروفیسر صاحب جن کی عرفیت ہی "کرائم" Crime تھی کو ایچ ای سی HEC کی ایک کمیٹی کے سامنے گاڑی کے بے جا استعمال کے جواب میں پیش ہونا پڑا تو اس سوال کے جواب میں کہ پروفیسر صاحب گاڑی اتنی زیادہ کیسے چلی جواب دیا "اللہ کے فضل سے"۔ اب اللہ کے کاموں میں کون مداخلت کر سکتا ہے نتیجۃ دو نمبر پی ایچ ڈی ڈگری ہونے کے باوجود موصوف باعزت طور پر ریٹائر ہوئے۔

ایک پروفیسر صاحب نے ایمانداری کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے فرمایا کہ اگر میرا باپ بھی مجھ سے غلط کام کی سفارش کرے تو میں انکار کر دوں گا البتہ وی سی صاحب کہہ دیں تو میں مان لوں گا۔کوئی کیسے نہ قربان جائے ایسی سادگی پر۔

اب بھلا پروفیسر کے علاوہ اور کون نوجوان لڑکے لڑکیوں کو کلاس میں سر عام کہہ سکتا ہے اگر تم مجھ سےپیار کرتے ہو ظاہر کرو ان کے الفاظ یہ تھے"if you love me then show me" آپ ہی بتائیں یہاں تو لڑکی سے اس کا نام گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھنا پڑتا ہے کجا ایسی بولڈنیس۔

اگر کوئی ہم سا شرمیلا لڑکیوں سے دور رہنے والا ہو تو بھی پروفیسری میں خاصا کچھ مل سکتا ہے۔ اوپرلی کمائی صرف کلرکوں اور پلسیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ کئی پروفیسر صاحبان اپنے شاگردوں سے ماہانہ سودا سلف لیتے ہیں اور بدلے میں فقط چند نمبر ہی دینے ہوتے ہیں اب ایسا سودا کون ٹھکرائے گا باقی تحفہ ٹھکرانا تو ویسے ہی اسلام میں حرام ہے لہذا اس کو برا صرف وہی سمجھتے ہیں جو ہر ماہ بیس تیس ہزار خرچ کر کے ماہانہ کھانے پکانے کا سامان لاتے ہیں۔

تعلقات بنانے میں صرف نمبر ہی کام نہیں آتے بلکہ بڑے والدین کے چھوٹے بچوں کا کم نمبروں پر داخلہ بھی تعلقات جوڑنے کے لیے کام آتا ہے اور یہ تو صدقہ جاریہ ہے کہ کسی مستحق کے کام آیا جائے اور یہ صدقہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک وہ بچہ یونیورسٹی لائف سےلطف اٹھا کر کے چلا نہ جائے۔

کئی ایسے قابل پروفیسرز بھی نظروں سے گزرے ہیں جنہوں نے طلبا تنظیموں کو بھی گود لیا ہوا ہے کہ ان کی نوکری یا دو نمبر ڈگری کی بات ہوئی نہیں اور یونیورسٹی کے حالات بگڑے نہیں کوئی مائی کا لعل چھیڑ کر دکھائے۔

بھائیو المختصر اور الجامع اگر کوئی ایسا شعبہ ہے جہاں دین و دنیا دونوں کی کامیابی ممکن ہے تو وہ یہی پروفیسری ہے اور ہمارا بلاگ پڑھ کر آپ بھی قائل ہو چکے ہوں گے کہ بظاہر رکی ہوئی اور خشک نظر آنے والی گنگا میں کیسے کیسے ہاتھ ، منہ اور جسم دھوئے جا سکتے ہیں۔ آخر میں عبرت کے واسطے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں کہ زاہد خشک کی بھی رال ٹپک پڑے اور ڈاکٹر، سیاستدان اور بڑے بڑے سرکاری افسر اپنی نوکری تیاگ کر پروفیسر بننے کو تیار ہو جائیں اور پہلی فرصت میں مشتہر اور غیر مشتہر اسامیوں پر پروفیسر لگ جائیں گے۔

ایک لڑکی پر دو پروفیسر صاحبان بیک وقت لٹو ہو گئے۔ لڑکی نے دونوں کو وقت دینا شروع کر دیا کہ استاد سے گنوانی نہیں چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی وہ ایم بی اے کے تیسرے سمسٹر میں تھی کہ عارضی پروفیسر لگ کر ایم بی اے کو پڑھانے لگی اور دن گنے جانے لگے کہ وہ ایم بی اے میں گولڈ میڈل لے اور مستقل پروفیسر قرار پائے۔ یہاں پر اس سے اندازے کی غلطی ہو گئی کہ اس نے ایک استاد سے شادی کر لی جن کا آرہا تھا کہ وہ شعبہ کے چیرمین بننے والے ہیں۔لیکن بدقسمتی تو کبھی بھی آپ کے گلے پڑ سکتی ہے تو دوسرے پروفیسر صاحب وی سی لگ گئے۔ انہوں نے سب سے پہلے لڑکی کو ملازمت سے فارغ کیا اور پھر دوسرے پروفیسر صاحب کو نوٹس بھیج دیا۔ میاں پروفیسر کو عقل آ گئی اور وہ طلاق کا نوٹس لیکر کر وی سی صاحب کے پاس پہنچے اور معافی مانگ کر شعبہ کے چیرمین قرار پائے۔ لڑکی کے بارے آخری بار سنا تھا کہ وارد کے دفتر میں سیلز گرل ہوتی ہے۔ 

رہے نام اللہ کا