September 1, 2013

میرا سوہنا شہر ملتان

Mera sohna sheher Multan

جب کوئی مجھے ملتان میں ملنے آتا ہے تو پہلی جگہ جہاں میں اس کو لے جاتا ہوں اگلے بندے کی جیب کے مطابق۔ اگر صاحب حیثیت ہو تو زین زی بار یا بندو خان اور اگر غریب ہو تو شفیق سموسے والے کے پاس لے جاتا ہوں۔ اگر مجھے یقین ہو کہ پیسے مجھے بھرنے ہوں گے تو اپنے گھر بلا لیتا ہوں جہاں چائے بسکٹ ٹینگ Tang میں کام نمٹ جاتا ہے۔


 میرے شہر کا بہترین عجائب گھر۔ بوسن روڈ۔ پچھلے دس سالوں سے روڈ کی تعمیر و توسیع ہوئی جارہی ہے اور اردگرد مٹی کے ڈھیر اور ساتھ لگنے والی کالونیوں کی آمد و رفت پر لمبی قطاریں اس کو بلا شبہ کسی عجائب گھر سے کم کا درجہ نہیں دیتے۔اور جب سڑک بن بھی جاتی ہے تو سڑکوں پر گٹر کے ڈھکنوں کا غائب ہونا اور دوسرے محکموں کی کھدائیاں اس کی عظمت رفتہ کو یاد دلاتا رہتا ہے۔

مستند یاد گار خریدنے کے لیے کسی بھی مٹھائی کی دکان سےآپ شہر کی مستند یادگار خرید سکتے ہیں جو کہ سوہن حلوہ ہے۔ اور ہر دکان خواہ حافظ ہو یا حاجی ہو اور نمبر 1 ہو یا 999 سب کا دعوی یہی ہے کہ اصل سوہن حلوہ انہی کے ہاں سے ہی ملتا ہے۔

شہر کا بہترین اونچائی سے منظر دیکھنے کے لیے ملتان کا سب سے بلندی سے منظر قلعہ قاسم باغ سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس میں ایک اندیشہ یہ ہے کہ آپ قلعہ بذات خود نہ دیکھ سکیں گے لہذا اگر آپ شہر کا سب سے بہترین نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو یا تو قلعے کے ساتھ کسی موبائل کے ٹاور پر چڑھ جائیں یا کسی پرانی پانی سپلائی کرنے والی ٹینکی کا سہارا لیں۔ ایک آسان جگہ کچہری کے اوپر سے گزرنے والا فلائی اور بھی ہے جس کے ایک طرف سے کچہری اور ایک طرف سے گرلز کالج نظر آتا ہے تاہم ملتانی ٹریفک پر بھروسہ کرنے سے بہتر ہے آپ ٹاور اور ٹنکی ہی استعمال کرلیں جو کہ عوام کی سہولت کے پیش نظر جگہ جگہ تعمیر کیے گئے ہیں۔



مقامی افراد جانتےہیں کہ چمن آئس کریم کی بجائے بابا آئس کریم کھانی چاہیے کہ چمن مہنگی ہے تخت لاہور کی علامت ہے اور اچھی کوالٹی کی ہے جبکہ بابا سستی ہے ، مقامی ہے، سرائیکی راج کی علامت ہے بابا کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کے بابا کے ساتھ پندرہ بیس اور بابا لکی بابا ، ان لکی بابا، وغیرہ کے نام سے کھل چکی ہیں جبکہ اس سے بھی اچھا کام مسلم ہائی اسکول کے ساتھ کی قلفی ہے جو کہ ہر ریڑھی والے کے بقول اصل اس کے پاس ملتی ہے۔

 میرے شہر کے بڑے لوگوں میں گیلانی خاندان سر فہرست ہیں جنہوں نے شہرت میں بڑوں بڑوں کو پچھاڑ دیا ہے۔انہوں نے ملتانی ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ملتان میں ایک گھر بھی تعمیر کیا ہے جو بذات خود ایک شاہکار ہے۔ اس بارے اتنی کہانیاں مشہور ہوں کہ کھل جا سم سم کی غار بھی شرماتی پھر رہی ہے۔کئی نامور سیاستدان اور گلوکارائیں ملتان سے ہی تعلق رکھتی تھیں۔ (اتفاق سے کئی سیاستدان اور گلوکارائیں آپس میں بھی تعلق رکھتے تھے) جبکہ خاکسار کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔

ملتان آنے کا سب سے بہترین وقت موسم گرما ہے۔یوں تو ملتان میں دو ہی موسم ہیں گرما اور شدید گرما۔ تو شدید گرما جو جون سے شروع ہو کر اگست آخر تک چلتا ہے ملتان آنے کے لیے عین موزوں ہے کہ اگر آپ اچھے موسم میں آئے تو آپ کو باقی شہروں اور ہمارے شہر مٰں کیا فرق محسوس ہوگا۔ گرمی میں آئیں ملتان کی یاد نہ آئے تو پیسے واپس۔ پولینڈ کے ایک سیاح نے خود مجھ سے اعتراف کیا کہ اپریل کے مہنے دس بجے صبح ٹرین پندرہ منٹ کے لیے ملتان اسٹیشن پر رکی اور ان پندرہ منٹوں میں میں دوزخ پر ایمان لے آیا۔

ملتان میں باہر گھومنے کی سب سے اچھی جگہ کسی کے گھر کا لان ہے کہ جیسے پسینے کی برسات شروع ہوئی آپ دوبارہ گھس گئے اے سی میں۔ تاہم اس کے لیے اس شخص کے گھر میں یا توچوری گیس سے چلنے والا  جنریٹر ہو یا وہ کوئی سرکاری کالونی میں رہتا ہو کیونکہ عام گھروں میں یا تو بجلی نہیں ہوتی اور ہو تو والٹیج نہیں ہوتا جو اے سی چلا سکے۔ان کے علاوہ چین ون ٹاوربھی قابل ذکر ہے جہاں اوپر چھڑھنے کے لیے تو ایسکیلیٹرز ہیں لیکن نیچے اترنے کے لیے فقط سیڑھیاں۔ میرے خیال میں وہ دنیا کی بہترین بھول بھلیوں میں سے ایک ہے۔ اس ٹاور اور شہرت کی سیڑھی میں مماثلت یہ ہے دونوں پر چڑھ تو بندہ جاتا ہے اترتے وقت لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ویسے تو ملتان کے فلائی اورز بھی کمال ہیں کہ جائیں فلائی اور پر اور واپسی اسی رش میں لیکن یہ ٹاور کمال ہے۔

میرا شہر جانا جاتا ہے ساونی منانے کےلیے۔ ساونی اصل میں ساون سے نکلا ہے تاہم یہ ساون کی بجائے آم کے موسم میں منائی جاتی ہے کہ آم لیے اور چل پڑے کسی ٹیوب ویل یا نہر میں۔ نہا کر گرمی کم کی اور آم کھا کر حساب برابر کر کے واپس گھروں کو آگئے۔

ملتانی باشندوں کو آپ بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ جو بھی منافقت سے کام لے وہ یا اس کے آبا ملتان سے تعلق رکھتے ہوں گے۔

رنگین رات کے لیے جمعے رات کو کسی بھی فلائی اورر پر چلے چائیں ایک پہیے پر چلتے موٹر سائیکل آپ کا استقبال کریں گے۔ فارمولا ون سے زیادہ ملتان میں پہیہ ون کی ریسیں مقبول ہیں جس میں کئی جیالے جان گنوا چکے ہیں لیکن کھیل کی حرمت پر حرف نہیں آنے دیا۔ رنگین مزاجوں والی رنگین رات کے لیے تھیٹر ٹرائی کریں۔

ملتان سے ذرا باہر آپ کھاد فیکٹری کا دورہ کر سکتے ہیں جہاں بجلی نہیں جاتی اور اس کے ہمسائے علاقوں میں اتنی ایمونیا کی بو پھیلی ہوتی ہے کہ آپ کو آئندہ کوئی شے بد بو دار نہیں لگتی۔

ملتان مشہور گرد گدا گرما و گوروستان کی وجہ سے ہے تاہم آج کل اس کوآم سوہن حلوہ ، کرپشن اور ٹریفک کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نزدیک ملتان انضمام الحق کی وجہ سے بھی مشہور ہے لیکن انضمام کی ہر بری پرفارمنس کے بعد یہ لوگ اپنی رائے بدل لیتے تھے۔

ملتان کی بہترین مارکیٹ جمعہ بازار اور اتوار بازار ہیں جن میں خاصا شغل میلہ ہوتا ہے وگرنہ ملتان مین دکانوں کی کیا کمی ہے۔ جس رفتار سے لوگ گھر گرا کر دکانیں تعمیر کررہے ہیں اس سے امکان ہے کہ بہت جلد دکانیں زیادہ ہو جائیں گی اور مکان کم رہ جائیں گے

بہترین ناشتے کے لیے قادری کے چھولے چاول کھائیں۔ ہر دوسری ریڑھی قادری کے چھولے چاول کے نام سے ہو گی یا آلو بھی چھولے کی اور قیمت بھی مناسب مزید سڑک کنارے گھوم گھوم کر ان میں لذت کے لوازمات بھی پورے ہوتے ہیں۔

رات کا کھانا کھانے کے لیے کسی بھی ایف سی FC کو چن لیں کہ یہاں اے ایف سی AFCسے زیڈ ایف سیZFC تک ہر مال ملتا ہے۔جو قیمت اچھی لگے وہ کھا لیں۔ ویسے یہاں پر کے ایف سی اور باقی ایف سی میں فرق پیسوں کے علاوہ اور کچھ خاص نہیں۔

شہر کے ثقافتی پروگرام جاننے کے لیے پڑھیں ٹانگوں کے پیچھے لٹکے اشتہارات جن سے آپ کو ہر تھیٹر اور اور ہر سنیما کے پروگرام بارے پتہ لگ جائے گا اور ان میں کام کرنے والی ایکٹریسوں کے حلیوں ہر بھی خاطر خواہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

میرے شہر کا سب سے بڑا کھیلوں کا مقابلہ جوا بازی ہے جو انفرادی سطح پر پارکوں، دکانوں، گھروں، بیٹھکوں میں چل رہا ہوتا ہے۔ دوسرا اہم کھیلوں کا مقابلہ اکڑہ بازی ہے ۔ تاہم ان دونوں کھیلوں کو حکومتی سرپرستی بالکل حاصل نہیں۔بلکہ کھلاڑیوں کو کھیلتے رہنے کے لیے پولیس کو حوالات کے اندر یا باہر چندہ دینا پڑتا ہے۔

جب میرے پاس پیسے کی کمی ہوتی ہے تو میں کسی مارکیٹ میں چلا جاتا ہوں اور وہاں  فقیروں کے غول در غول دیکھتا ہوں اور ان کی گزر بسر پر غور کرتا رہتا ہوں اس طرح مجھے حوصلہ ملتا ہے کہ کبھی پھکڑ ہو بھی گئے تو اس بزنس میں بڑا پیسہ ہے۔ 

ہجوم سے بھاگنے کے لیے میں لائبریری میں چلا جاتا ہوں وہی ایک جگہ ہے جہاں کم بندے ہوتے ہیں یعنی صرف میں اور لائبریرین۔ ورنہ تو میرے اپنے گھر کا یہ حال ہے دفعہ چوالیس لگ جائے تو ہم گھر والے قانون توڑنے کے جرم میں پکڑے جائیں۔حیران نہ ہوں ہمارے شہر میں دو لائبریری موجود ہیں

اگر میرا شہر کوئی مشہور ہستی ہوتا تو پشتو فلموں کی ہیروئن ہوتا کہ پھٹے پرانے کپڑے اور جسامت ہر فلم میں پچھلی سے بڑھی ہوئی۔

ملتان کا مشہور مشروب گولی والی بوتل یا املی آلو بخارے والا شربت ہے جو کسی بھی ریڑھی سے عام مل جاتا ہے جبکہ 

ملتان کی مشہور ڈش بھنے ہوئےسٹے (بھٹے) ہیں جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ ابلی ہوئی چھلی (بھٹہ) نے لے لی ہے۔

میری پسندیدہ عمارتیں ملتان کے شادی ہال  ہیں کہ ایک تو وہاں کوئی بلا لے تو کھانا مفت مل جاتا ہے دوسرا ان کی عمارت بھی خوبصورت ہوتی ہے تیسرا وہاں پارکنگ نہ ہونے برابر ہوتی ہے جس سے ہر شادی کے اختتام پر کئی قابل دید لڑائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ملتان میں ملنے کے قابل لوگ روہتکی ہیں جن کی گفتگو لا جواب ہوتی ہے کہ وہ ایک جملے میں چار گالیاں بکتے ہیں۔ابے تبے کے علاوہ گفتگو نہیں کرتے اور لڑنے بھڑنے کو تیار رہتے ہیں۔

ملتان کی ٹریفک مسئلہ کشمیر کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے کہ یہاں موٹر سائیکلوں اور ریڑھیوں کی بہتات ہے اور وہ دونوں خود کو ٹریفک قوانین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

براہ راست موسیقی سننے کے لیے کسی بھی سڑک پر چلے جائیں ہارن کی ایسی ایسی آوازیں آئیں گی کہ رات کو خواب میں بھی راگ رنگ پروگرام چلتا رہے گا۔

ایک بات جو آپ کو ملتان کے بارے جاننا چاہیے کہ ایک بار آئیں تو آئیں دوبارہ ملتان نہ آنا کہ اگر گناہ بخشوانے ہیں تو اور بھی بہت سے طریقے ہیں لازم ملتان میں ہی رہ کر نفس کا محاسبہ کرنا ہے؟

ملتان کے متعلق بہترین کتاب اور فلم آج تک بنے نہیں تاہم بلاگ آج شایع ہو رہا ہے۔

اگر ملتان کے بارے کوئی پوچھے کہ اچھا کیوں ہے تو صرف اس لیے کیوں کہ "داغ تو اچھے ہوتے ہیں"۔ آج کا ملتان قدیم ملتان اور جدید شہر کے نام پر دھبہ ہی ہے۔