August 21, 2013

یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

 Yeh tera Pakistan hai yeh mera Pakistan hai


نئے پاکستانیوں ، بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو شکایت رہتی ہے کہ پاکستان میں کوئی قاعدہ قانون نہیں اسی تاثر کی نفی کرنے کا بیڑہ اس اردو بلاگ میں اٹھایا گیا ہے اور تمام رائج قوانین کو مجتمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ اس سلسلے کا پہلا حصہ ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں رائج غیر تحریر شدہ قوانین اور اصول پہلی بار احاطہ تحریر میں لائے گئے ہیں امید ہے اس پر عمل کرتے ہوئے لوگوں فائدہ اٹھائیں گے اور اس نئے مطالعہ پاکستان کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے



ٹریفک کے اصول :
یہاں پیچھے سے آ کر کار آپ کی کار میں ٹھوکنے والا آپ کا گریبان پکڑ سکتا ہے کہ آپ نے بریک کیوں لگائی؟لہذا اس بین الاقوامی قانون پر نہ جائیں قصور ہمیشہ پیچھے سے ٹھوکنے والے کا ہوتا ہے۔
اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھنے کا مطلب آپ پچھلی گاڑی کو اس جگہ میں گھسنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہاں ون وے کی خلاف ورزی کرنے والا یا اشارہ توڑنے والا آپ کی گاڑی میں آ لگے یا آپ میں آ لگے تو آپ کا قصور ہے کہ اس کو آتے دیکھ کر آپ رکے کیوں نہیں؟ اور خواہ الٹی طرف سے ہی آ رہے ہوں اگر آپ نے بتیاں جلا کر اگلے کو متنبہ کر دیا ہے تو سارا قصور اسی کا ہے کہ اس نے گاڑی روکی کیوں نہیں ۔
تمام ریڑھیوں ہتھ گاڑیوں اور جانور گاڑیوں سے ایکسیڈنٹ کی صورت میں آپ کا قصور ہے کیونکہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ریڑھیوں کی بریک نہیں ہوتی۔
اگر ایکسیڈنٹ پوش علاقے میں ہو تو پیدل قصوروار اور کچی آبادی میں ہو تو ہمیشہ کار والے کا قصور ہوتا ہے۔
ایکسیڈنٹ کی صورت میں صرف وہاں رکنے والا ہی پھنستا ہے۔


جھگڑے کے اصول:
یہاں پر گالی نکالنے والا قصور وار نہیں بلکہ جس نے گالی کا جواب گالی سے دیا اسکا قصور ہے۔
یہاں پر جھگڑے میں پہل نہ کرنے والا ہی مار کھا بیٹتھا ہے کیونکہ اگر آپ نے جھگڑا نہیں شروع کیا تو دوسرا شیر ہو جائے گا ۔
جھگڑے کے آخیر میں جیت زور آور کی ہوتی ہے اور کمزور کو منہ کی کھانی پڑتی ہے لہذا لڑائی سے پہلے بہتر ہے سامنے والے بندے کی مالی و سماجی حیثیت پتہ کر لی جائے۔


ایمان داری اور بے ایمانی:
ایمان دار پہلے وہ تھا جو نہ خود کھائے نہ دوسروں کو کھانے دے۔ اب ایماندار وہ ہے جو خود بھلےنہ کھائے لیکن دوسروں کو نہ روکے۔ پہلے والا اب خبطی کہلاتا ہے۔
ایمانداری سے کام کرنے کی کوشش میں آپ کو دوگنا کمیشن دینا پڑتا ہے ایک تو کمیشن اور دوسرا ایمانداری کی کوشش کر کے وقت کا ضیاع۔
بے ایمان اب وہ ہے جو پیسے لے کر بھی کام نہ کرے۔
اپنے ماتحتوں کی نظر میں سفارش پر کام کرنے والا نیک ، پیسے لیکر کام کرنے والا ایمان دار اور پیسے لیکر بھی کام نہ کرنے والا زبردست سرکاری افسر کہلاتا ہے۔


بجلی و گیس:
یہاں کی عوام 8 گھنٹے میں اتنی بجلی استعمال کر لیتی ہے کہ 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔
واپڈا سے زیادہ افراد جنریٹر اور یو پی ایس کی صنعت سے وابستہ ہیں حکومت کیسے بجلی کی کمی پوری کرے؟
جتنی دیر یہاں پر دس لاکھ کمانے پر لگتے ہیں تاکہ کار لے سکیں اس سے زیادہ دیر 10 روپے کی گیس ڈلوانے پر لگ جاتی ہے ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ الرجی پٹرول سے ہوتی ہے اسی لیے عوام گیس ڈلوانا بند ہی نہیں کرتی۔

اسلام سے وابستگی:
 آپ کسی پاکستانی کو خواہ ہزار لوگوں کے سامنے مار دیں لیکن کسی اور اسلامی ملک کے مسلمان کے بارے بری بات بھی نہ کریں ۔ نتیجے کے ذمے دار آپ خود ہوں گے۔
لوگ یہاں مذہب کے نام پر بغیر تحقیق کے کسی کی جان تو لے سکتے ہیں لیکن ووٹ ڈالتے وقت تحقیق کے بعد بھی اسلام کو بھول جاتے ہیں۔
اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہر شخص اپنے سے برابر سے بڑے کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرتا ہے تاہم اپنے سے نچلوں کی بے عزتی یہاں فرض سمجھی جاتی ہے خواہ وہ صدر ہو یا چپڑاسی ہو جس کا جہاں زور چلے وہ وہاں چلاتا ہے۔
علم حاصل کرنے پر خاصا زور ہے تاہم یہاں تعلیم نوکری حاصل کرنے کے لیے حاصل کی جاتی علم حاصل کرنے کے لیے نہیں۔


نظام کی خرابی:
لوگ دال میں نمک کے زیادہ ہونے کا ذمہ دار بھی نظام کو ٹھہراتے ہیں۔
حکومت کے پاس لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے دفاتر کی چھٹی کے علاوہ کوئی حل نہیں اور ایسے ہی امن قائم کرنے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تاہم اب اس میں موبائل پر پابندی بھی جمع ہو گئی ہے۔
یہاں پر قانون صرف اس کے لیے ہے جو اس کو توڑ نہ سکتا ہو
برطانیہ منفرد ملک ہے جہاں قانون لکھا ہوا نہیں اور پاکستان وہ منفرد ملک ہے جہاں سب کا اپنا قانون ہے آپ عام آدمی ، پولیس ، عدالت ،سرکاری افسر کو جو قانون کی شق اٹھا کر دکھا دیں انہوں نے کرنا وہی ہے جو ان کا دل ہو گا۔
یہاں سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے نہیں بلکہ دکان والوں کے تھڑے رکھنے کو بنایا جاتا ہے۔
با اثر افراد کی نشانی کم سے کم ٹیکس دینا ہوتا ہے۔سب سے زیادہ ٹیکس سڑکوں پر قائم ٹال ٹیکس دیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ با اثر اس سے بھی مستشنا ہوتے ہیں۔

عادات و اطوار:
یہاں کتے کو ہاتھ لگانا کراہت جبکہ خون اور دیگر حرام اشیا سے بنی خوراک کھانے والی برائلر مرغی ساری قوم کی پسندیدہ ہے۔
یہاں ملک کی قومی زبان سوائے عام افراد کے باہمی گفتگو کے اور کسی کام کی نہیں باقی کام ہم ویسے ہی انگریزی سے چلا لیتے ہیں۔عام لوگ بھی اب اپنی مادری زبانوں پر واپس آ رہے ہیں لہذا امید ہے عنقریب جیسے بچوں کے لیے مشکل ترین سوال ہوتے ہیں کہ پاکستان کا قومی پھول، پرندہ اور جانور بتائیں اس فہرست میں قومی زبان کا سوال بھی اضافہ ہو جائے گا۔
یہاں بھارت سے تعلقات کی بات کرنا تو گناہ کبیرہ لیکن بھارتی فلمیں گانے اور ڈرامے دیکھنا عین ثواب ہے۔
یہاں پر جواری کرکٹ کھیلتے ہیں، کرکٹر بزنس کرتے ہیں، بزنس مین سیاست کرتے ہیں، سیاستدان ڈاکے ڈالتے ہیں، ڈاکو پولیس بن کی وردی میں لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کی خدمت کے ذمہ دار سرکاری ملازم کچھ نہیں کرتے۔
یہاں پر بوری مردوں کے لیے اور قبرستان کالے جادو کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔  


قطار کی اہمیت:
قطار میں صرف عام آدمی لگتا ہے وہ بھی با امر مجبوری۔
یہاں پر قطار میں اول تو لگنا نہیں اور کہیں با امر مجبوری لگنا بھی پڑ جائے تو اگلے بندے سے اس حد تک لگ کر ٹھہریں کہ ایک دھکا لگنے پر تمام قطار گر جائے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو کوئی اور بندہ بغیر قطار سے آ کر اس خالی جگہ کو پر کر دے گا اور آپ کو مجبوری میں اپنی قطار میں ایک نمبر پیچھے ہو کر بندے سے لگ کر ٹھہرنا پڑے گا۔ تاہم اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کوئی میرے جیسا بندہ پیچھے سے ساتھ چپکنے سے تنگ آ کر قطار چھوڑ کر ہی چلا جائے۔  


مرد و خواتین:
یہاں مردوں کا تناسب خواتین کی نسبت اس حد تک زیادہ ہے کہ نیٹ پر اور فون پر خواتین کی کمی پورا کرنے کو اکثر مرد حضرات ہی جعلی آواز اور اکاؤنٹ چلاتے ہیں۔ اسی کمی کے باعث مرد حضرات ہر نظر آنے والی خاتون کو گھورتے نظر آتے ہیں۔
یہاں پر خواتین کو گھورنا، ایس ایم ایس کرنا، رانگ کالیں کرنا کوئی جرم نہیں بس بھرے بازار میں ہوشیار رہیں کہ کسی خاتون نے با آواز بلند کہا نہیں کہ آپ نے اس سے بدتمیزی کی ہے اور آن واحد میں پندرہ بیس افراد آپ کی مرمت کرنے میدان میں اترے نہیں۔


فیشن:
یوں تو وقت کے ساتھ ساتھ فیشن بدلتے رہتے ہیں لیکن چند ایک فیشن یہاں ہمیشہ سے رائج رہے ہیں۔
قائد اعظم اور پاکستان کو گالی دینا ایسا فیشن ہے جس کے سوا آپ دانشور نہیں کہلا سکتے۔
تحریک پاکستان کے اکثر لیڈروں کو انگریز ایجنٹ اور جہنمی قرار دینا فیشن ہے۔
کسی بھی کامیاب شخص کو قادیانی قرار دینا عام آدمی کا فیشن ہے لیکن یاد رہے یہ ان کا کام ہے جو ایسے لوگوں کے پیسے اور شہرت سے جلتے ہیں۔
آج کل سب سے بڑا فیشن فوج کو گالی دینا ہے۔
دوسرا بڑا فیشن کاٹن Cotton ہے جس سے خواتین کے آدھے ادھورے کپڑے بنائے جاتے ہیں۔
ایک اور فیشن کرپشن بھی ہے۔
عام آدمی نہ ہونا، ہونا تو نظر نہ آنا، نظر آنا تو ماننا نہ بھی فیشن ہے یعنی خاص آدمی بننے کا فیشن ہے۔  
پہلے ایک سے زیادہ موبائل سموں کا فیشن تھا اب ایک سے زیادہ موبائل فون رکھنے کا فیشن ہے۔

قوانین بے شمار ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث فی الحال اسی سے فائدہ اٹھائیں اور آئندہ اقساط کا انتظار کریں۔