July 15, 2013

کون کی کھوج

Kon ki khoj


 راہ چلتے میری تم پر نظر پڑی ،مجھے ایک جانا پہچانا سا احساس ہوا۔۔۔جیسے ایک شناسا سا ذائقہ زبان پر آ جائے۔ تم نے ایک لمحے کو مجھے دیکھا۔ تمھاری آنکھوں میں شناسائی تھی۔ تمھاری مسکراہٹ۔۔۔ جانی پہچانی مسکراہٹ تھی۔ جیسے موڑ مڑتے ہی سامنے منزل سامنے آگئی ہو۔ اچانک ہی کوئی کھوج کی تکلیف سے آزاد ہو گیا ہو۔میری تمام حسیات اس کی طرف مرکوز ہو گئیں۔کون ہے؟کون ہے؟کون ہے؟کہاں دیکھا ہے؟کہاں دیکھا ہے؟کہاں دیکھا ہے؟میں وہاں رُکا تو نہیں لیکن اس لمحے کی تصویر میرے دل نے محفوظ کر لی اور میں یادداشت کے سہارے ماضی کے اوراق پلٹنے لگا۔

جب میں اسکول جایا کرتا تھا تو اسکول کے راستے میں ریل کی پٹری گزرتی تھی اور مجھے اس سے گزر کر دوسری طرف جانا ہوتا تھا لیکن ہمیشہ اسکول سے آتے وقت یا اسکول جاتے وقت پٹری پار کرتے ہوئے میرا دل پٹری کے متوازی چلنے کا کیا کرتا تھا۔لیکن ایک تو اس کی لامتناہی طوالت اور دوسرا گھر واپسی کی وجہ سے میں ہمیشہ ایسی سوچ کو دبا دیا کرتا تھا۔۔۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی لا متناہیت اور دوسرا کنارہ نہ نظر آنے کی وجہ سے یہ میرے لیے ایک جادوئی حیثیت رکھتی تھی اور روز مجھے وہاں سے گزرتے کھل جا سم سم کا منتر پھونکنے کی تحریک دیا کرتی تھی۔

ایک روز جب میں دھند سے ڈوبی صبح میں لائین کے پار جانے کے لیے رُکا اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے پٹری کے متوازی کو ئی چلتا نظر آیا۔اس روز میں اسکول جانے کی بجائے اس شبیہ کے پیچھے پیچھے لائین کے متوازی چل پڑا۔شاید ایسی ہی کسی شبیہ کا پیچھا کرتے کپٹن کک اسٹریلیاپہنچا تھا،لیکن ہر شخص سرابوں کا پیچھا کر کے کامیابی نہیں پاسکتا۔تین گھنٹے کی لاحاصل سعی کے بعد جب میں محض ایک چھوٹے سے اسٹیشن تک ہی پہنچ سکا تو میں نے وہاں پر موجود تمام لوگوں پر ایک نظر ڈالی اپنا کھانے سے بھرا ٹفن وہاں چھوڑا کہ شاید کسی کے کام آجائے اور واپس چل پڑا کیونکہ وہاں موجود کسی چہرے پر اس شبیہ کا گمان نہ ہوتا تھالیکن آج تم کو دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ تم وہی تو نہیں؟یا پھر تم اس اسٹیشن پر موجود لوگوں میں سے ایک تھیں۔ پر وہ تو سائے تھے،پرچھائیاں تھے، دھندلے تھے لیکن تم تو حقیقت تھیں، سامنے تھیں، صاف نظر آ تی تھیں۔

یونیورسٹی میں ایک اسکالر شپ کے لیے میرا اور انور کا مقابلہ پڑ گیااور میرا ریکارڈ اور میری لوگوں سے رسم وراہ مجھے انور سے اوپر لے کر جارہے تھی،لیکن میں نے وہ وظیفہ لینے سے انکار کر دیا اور وہ انور کو مل گیا۔اسے اس کی اشد ضرورت بھی تھی کیونکہ اس کے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہ تھے۔کسی طرح انور کو بھی یہ بات پتا چل گئی اور وہ ایک دن میرا شکریہ ادا کرنے آیا۔لیکن میں نے اس کے سامنے ماننے سے انکار کر دیاکہ اسے یہ وظیفہ میرے انکارکے بعد ہی ملا ہے۔اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی جس کو تب میں نے غور سے نہ دیکھا تھا جو خدا معلوم اس کی بہن تھی، دوست تھی یا کلاس فیلو۔ جب انور کمرے سے چلا گیا تو وہ بھی جانے لگی۔۔۔ اس لڑکی نے جاتے ہوئے میرے ہاتھ کو گرم جوشی سے دبایا،میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر کسی ماں کا سا نور تھا،کسی بہن کا سا پیار تھا، کسی بچھڑے ہوئے دوست کا سا اخلاص تھا۔کیا تم وہی ہو؟لیکن تب تو تمھارے بال گھنگریالے نہ ہوا کرتے تھے اور اس روز تم نے عینک بھی نہ پہنی تھی۔

ستلج کنارے جب میں اور میرے دوست شرط بد کر بہاولنگر سے پنجند تک پیدل نکلے تھے کہ دیکھیں کون سب سے پہلے ہمت ہارتا ہے توگرچہ ہمیں امید تھی کہ ہمیں راستے میں کھانے پینے کی اشیا آسانی سے ملتی رہیں گی کہ نیم مردہ دریا پر رہی سہی کسر اردگرد بسنے والے لوگ ڈھا رہے ہیں جو آہستہ آہستہ اس کے بیٹ پر فصلیں کاشت کر کے تڑپتے دریا کے سینے میں برچھیاں اُتار کر اس کی آخری سانسوں میں آسانی فراہم کر رہے ہیں۔تاہم پھر بھی کسی امکانی صورت کے پیش نظر ہمارا نوکر کھانے پینے کا سامان اُٹھائے ہمارے ہمراہ تھا۔ دن بھر گیلی ریت پر چلتے اور رات کو قریبی گاؤں سے چارپائی مانگ کر سو رہتے۔ حالانکہ ہمیں ہمارے بڑوں نے ڈرایا کہ دریا کنارے فقط چور ڈاکو بستے ہیں لیکن نوجوانی سے بڑی کیا بے خوفی ہو گی۔ ہم نے خود کو اطمینان دلایا کہ زیادہ سے زیادہ ہمارے پاس موجود ہزار روپے ہی چھین لیں گے۔۔۔ لیکن ہم بڑھاپے میں ہائے جوانی کہہ کر پچھتانا نہیں چاہتے تھے۔ نا تجربے کاری کے باعث ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وقت اچھا گزرے یا برا پچھتاوا ہر حال میں آتا ہے۔

نویں رات جب ہم میں سے اکثر بے زار ہوچکے تھے اور ہمارے نوکر کے بقول ہم بہاولپور پہنچنے والے تھے صبح اذانوں سے ذرا پہلے دو افراد چاقو لیے ہم سے پیسوں کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ان کی جسمانی حالت بتاتی تھی کہ ان کو پیٹ بھر کر روٹی کم ہی نصیب ہوتی ہو گی۔ آٹھ لڑکوں کو دو نحیف نوجوانوں پر قابو پانے میں مشکل نہ ہوئی تاہم جب ان کو مارنے کی باری آئی تو میں نے نوکر کو اشارہ کیا ہم دونوں ان دو لڑکوں کو کمر پر تھپڑ مارتے مارتے ایک طرف لے گئے اور میں نے اپنی جیب سے تین سو نکال کر اس لڑکے کی پھٹی قمیص کی جیب میں ڈالا اور سرگوشی کی ’’بھج ونج۔‘‘ (بھاگ جاؤ) ۔وہ بے اعتباری سے مجھے اور میرے نوکر کو تکنے لگا۔ میرے نوکر کی آنکھوں میں بے اطمینانی صاف نظر آ رہی تھی۔ وہ بولا ’’شاہ جی۔۔۔! آپ ان کو نہیں جانتے۔۔۔ یہ ایک نمبر کے حرامی اوراُچکے ہیں۔‘‘
 میں نے اسے مصنوعی غصے سے دیکھا اور لڑکے کو اشارہ کیا۔ دونوں نے چھلانگ لگائی اور جتنا تیز دوڑ سکتے تھے دوڑے اور نظرسے اوجھل ہو گئے۔
’’واہ شاہ جی! آپ تو دعوت دے کر لٹنے والوں میں سے ہیں کہ آؤ مجھے لوٹ لو۔‘‘
میں مسکرایا اور پیچھے سے آواز آئی’’ پتر جے میرا پتر ہووے ہا تاں اج میں تیرے نال بدل گھناں ہا۔‘‘ (بیٹا! اگر میرا اپنا کوئی بیٹا ہوتا تو میں آج تم سے اس سے بدل لیتی)ایک ادھیڑ عمر خاتون ممتا کے نور سے جگمگا رہی تھی۔ پکے رنگ پر پیار اور شفقت لاٹیں مار رہا تھا۔ پیار کا ہالہ اس خاتون کے اردگرد طواف کر رہا تھا۔ اس خاتون کی محبت سے تمام صبح انتہائی خوبصورت اور پیاری لگ رہی تھی۔ میں مسکرایا۔۔۔ اسے اشارے سے سلام کیا اور ہم سب دوبارہ دریا کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

کیا وہ محبت کا روپ دھارے تم تھیں؟ کیا وہ تم ہی تھیں جس کا ہر لفظ شریں تھا۔ وہ ممتا کا کیموفلاج اوڑھے تم تھیں؟ لیکن ستلج کنارے اس چھوٹے سے بے نام گاؤں سے وِلنوس کے ریلوے اسٹیشن پر موجود اس ڈھابے نما دُکان تک تم کیسے آ گئیں۔ اگر تم بول رہی ہوتیں تو مجھے پکا یقین تھا کہ تم بھی اتنی ہی شفقت، اتنے ہی پیار سے بولتیں لیکن تمھارا پکا سانولا رنگ اس ہلکی میٹھی سفیدی میں کیسے بدل گیا؟
اگر مجھے آواگان نظریے پر اعتبار ہوتا تو میں سمجھتا کہ شاید تم نئے جنم لے کر آتی رہی ہو۔ نئے جنم میں انسانی فطرت تو نہ بدلتی ہو گی ناں۔ یا اگر روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم سے حلول کرنا ممکن ہوتا تو میں یہی سمجھتا کہ تم اپنا جسم ڈھونڈتی پھر رہی ہو۔

کہتے ہیں جو لوگ اچھے لگتے ہیں وہ دراصل دو روحوں کی ایک دوسرے سے باہمی محبت ہوتی ہے۔ کیا پتا اس اسٹیشن پر ، یونیورسٹی میں، ستلج کنارے ، وِلنوس اسٹیشن پر تم ہی ہو جو اپنی محبت بھری روح کے لیے ایسا ہی نرم دل اور نرم خو بدن ڈھونڈتی پھر رہی ہو اور تمھیں ہر بار میری روح نے پہچان کر شناسائی کے سگنل بھیجے ہوں۔ کہتے ہیں جو لوگ اپنا آپ تیاگ دیتے ہیں ان کے جسم سے محبت کی خوشبو پھوٹتی رہتی ہے اور جو لوگ بھی اس رستے پر چلنا چاہتے ہیں یا چل رہے ہوتے ہیں کو اپنی طرف کھینچی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم نے ہر جگہ مجھے اشارہ بھیجا ہو، پیغام روانہ کیا، خوشبو کی علامت دکھائی ہو لیکن میرا محبت سے کیا علاقہ؟ مجھے اپنا آپ تیاگنے سے کیا مطلب؟ میں نے کبھی کسی کو سُکھ دینے کا نہیں سوچا، میں نے تو کبھی کسی کے لیے کچھ نہیں کیا پھر اس سکون اور سُکھ سے مجھے کیا لینا دینا اور اس سلسلے کا مطلب۔۔۔؟

میں ان کی کھوج میں نہیں۔۔۔ وہ میری کھوج میں ہیں۔۔۔کہ سگنل مجھ سے ہی پھوٹ رہے ہیں۔ ایک بلبلہ سا دماغ میں بہتی سوچ میں ابھرا۔ مجھے اپنی خوش فہمی پر ہنسی آئی اور میرے دماغ نے گمراہی پر مبنی فضول خیال جھٹک کرپہچاننے کا عمل بدستور جاری رکھا۔۔۔!!

*** ولنوس Vilnius یورپی ملک لتھواینیاLithuaniaکا دارالحکومت