June 25, 2013

پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی کی دریافت

Pishawar main mitti main zinda rehny wali machli ki daryaft

خبر:پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی دریافت۔شہری پرجوش


یوں تو مٹی میں رہنے والی مچھلی کوئی نئی بات نہیں۔ انگریزی میں اس کو walking fish یا ambulatory fish کہا جاتا ہے اور اس کو اردو میں سیار مچھلی کہا جا سکتا ہے کی پہلے ہی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ یہ مچھلی لمبے عرصے تک پانی کے بغیر زندہ رہ لیتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سائینسی تحقیق نہ ہونے کے برابر کی وجہ سے ایسی کوئی بھی ایجاد حیران کن قرار پاتی ہے جبکہ میرے خیال میں یہ حیران کن نہیں بلکہ پریشان کن خبر ہے۔

دنیا کی تمام مخلوق نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و اطوار میں تبدیلی لائی اور جو نہ لا سکے وہ دنیا سے نیست نابود ہو گئے۔ خشکی پر چلنے والوں نے سمندروں میں تیرنا سیکھا، گرمی کے عادیوں نے سردیوں کی عادت ڈالی، پہاڑی علاقے کے باسی ریگستان میں رہنے لگے، ڈائینو سار کی نسل سکڑتے سکڑتے چھپکلیاں بن گئی، بلی کے بھتیجے بھانجے شیر چیتے بن گئے غرض جیسے جیسے موسم بدلا، خطے میں تبدیلی آئی وہ اسی آب و ہوا میں ڈھلتے چلے گئے اور زندہ رہے اور جو نہ ڈھال پائے وہ ہمیشہ قائم رہنے کے باوجود قائم علی شاہ سے خوش قسمت ثابت نہ ہو سکے اور چوتھی باری آنے سے پہلے ہی جہان پاک کر گئے ۔

انہی بنیادوں پر ڈارون انکل نے بندر اور انسان کی تھیوری پیش کی جس پر میں کئی بار قلم گرا چکا ہوں کہ بندروں میں سے کچھ ترقی کر کے انسان بن گئے جو نہ کر سکے وہ اس عذاب سے محفوظ رہے ایسے ہی پاکستان میں پائی جانے والی مچھلیوں کا مٹی میں رہنا کوئی ایسا عجوبہ نہیں کہ آئندہ سالوں میں حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ مٹی کے سوا کچھ نہ بچے گا لہذا عین ممکن ہے کہ مچھلیاں آنے والے وقت کے لیے خود کو ڈھال رہی ہوں کہ مٹی بھرے ہاتھوں پکڑی گئیں ہوں۔

اندھی ڈالفن سے آپ بخوبی واقف ہوں گے وہ تو بھلا ہو توہم پرستی کا کہ سندھی مچھیرے اگر جال میں آ بھی جائے تو اس بلھڑ کہلانے والی اس مچھلی کو واپس پانی میں چھوڑ دیتے ہیں تب ہی وہ پاکستان کے 65 سال بعد بھی پاکستان میں پائی جاتی ہے وگرنہ تو یہاں 65 سال میں چھلہ پہنانے والے ماہی بچے ہیں پانی میں رہنے والی ماہی کوئی نہیں۔ لیکن دریائے سند ھ کی ڈالفن بھی خیر منا لے کہ جو ہمارے اعمال ہیں عنقریب دریا سندھ کا حال بھی خدانخواستہ دریائے راوی والا ہونا ہے اور بیچاری اندھی ڈالفن کو پھر ارتقا کے مرحلے سے گزرنا ہو گا کہ راوی میں ڈڈو یعنی مینڈکوں کے علاوہ کوئی اور حیات باقی نہیں۔ 

جیسے دنیا میں آئس ایج Ice age آیا یا پھر گرمی کے سال آئے ایسے ہی پاکستان بھی ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ہم دور جاہلیت سے گزر رہے ہیں۔ یہاں پر ہر اچھی چیز کا داخلہ ممنوع ہے۔ اخلاق، انصاف، امن کے بنا ہم کسی قبل از مسیح تہذیب بنتے جا رہے ہیں اور بجلی، پانی، گیس و دیگر سہولیات کے بنا رہنے کی مشق گویا قیامت کی قبل از وقت مشق کرائی جا رہی ہے۔یہاں پر اب یا تو ہمیں اس ڈالفن کی طرح اندھا بن کر رہنا پڑے گا یا پھر اس نئی مچھلی کی طرح مٹی کا عادی ہونا پڑے گا۔ 

پاکستان میں شروع سے ہی معاشی پالیسی ایسی بنائی گئی کہ امیروں کو مزید سہولیات فراہم کریں تاکہ وہ مہربانی کر کے غریبوں کے لیے مزید کارخانے لگائیں اور ان کو اونی پونی تنخواہیں دے کر ان کو روزگار فراہم کر سکیں۔ یعنی بگڑے بچوں کو مزید پیار دیں کہ وہ نیک بچوں کو کچھ نہ کچھ خیرات دے سکیں۔ ہر حکومت پچھلوں کی ناکامی کا رونا رو کر مزید بربادی کا سامان پیدا کرتی رہتی ہے اور عوام ہر جانے والے پر مٹھائیاں بانٹ کر سرمایہ کاروں کی مزید سیل کا سبب بنتے رہے۔ میرا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ اگر کبھی مجھے اختیار مل گیا تو میں سائیکل کے پہیے سے ہوا نکال کر اپنے نوکروں کو سبق سکھانے کے لیے ان کو کہوں گا کہ مجھے کیریر پر بٹھا کر ریت میں سائیکل چلائیں اور میں ہاتھ میں کوڑا تھامے انتظار میں رہوں گا کہ کوئی ڈگمگائے اور میں اس کی کمر پر چابک رسید کروں۔ لگتا ہے اللہ میاں نے کسی میرے دوست جیسے کی دعا قبول کر لی ہے۔

اس مٹی کھا کر زندہ رہنے والی مچھلی کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ "ہم اہل ملتان مٹی پھانکنے کے عادی ہیں"، لیکن دراصل یہ پانی چھوڑ کر اس کے بغیر زندہ رہنے کی بات ہے کہ اب پاکستان میں جس رہنا ہے اس کے لیے یہ واضح اشارہ ہے کہ بھائی رہنا ہے تو یوں رہو ورنہ پکڑو ویزا یا لانچ،پاکستان سے زندہ بھاگ، جیسے جس کا داؤ چلے۔

سیار مچھلی

کہتے ہیں عقلمند کو اشارہ کافی ہے لیکن ہماری قوم ہمارے اس دوست کی طرح ہے جس کو ایک حادثے میں گولیاں ماری گئی تھیں اور اس واقعے کے بعد اس کے ماموں کہا کرتے تھے بیٹا عقل والے چھوٹے چھوٹے اشاروں سے سدھر جاتے ہیں لیکن تم وہ ڈھیٹ نسل ہو جو گولیاں (بندوق کی) کھا کر بھی نہ سدھرے۔تو ایسے ہی عقلمندوں کے لیے اشارہ اس مچھلی کی شکل میں دیا گیا ہے کہ پاکستانیو دیکھ لو یہی تمھارا مستقبل ہے۔ اللہ خیر کرے لیکن حالات بتاتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب عوام کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ مٹی چاٹ کر زندہ رہیں ویسے ہم لوگوں میں سانپ کی خصوصیات تو پائی جاتی ہیں کہ آتے جاتے کو ڈستے رہتے ہیں باقی یہی کمی ہے کہ سانپ کا سنا ہے مٹی چاٹ کر زندہ رہ جاتا ہے تو عوام تیار رہے مٹی چاٹنے کو اور کیمکلز سے صاف شفاف آکسیجن والے واٹر ٹینک صرف مگرمچھوں کے لیے ہیں۔