June 19, 2013

استاد جی ہمراہ سائیڈ پروگرام میاں نیک دل

Ustad ji hamrah side program mian naik dil


میاں نیک دل کا فون آیا کہ استاد جی کے ہمراہ میں جمعہ کو آپ کے پاس آؤں گا۔ کچھ اپنی قسمت خراب تھی اور کچھ بلاگروں کی تعریفوں کے انبار، استاد جی سے ملاقات کا خاصا اشتیاق تھا۔ نیک دل صاحب سے پہلے ملاقات ہو چکی تھی اور جتنے وہ دیکھنے میں نرم لگتے ہیں دل کے بھی اتنے ہی نرم ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جن سے مل کر اگر آپ کے اندر حیا لحاظ باقی ہے تو یہ ہر بار آپ کو اپنا احسان مند کر کے جاتے ہیں اور آپ ہر بار سوچتے ہیں کہ ایسوں سے نہیں ملنا نہیں چاہیے ۔

میاں نیک دل صاحب کار سے اترے اور مجھے گلے ملے۔ جب میں میاں نیک دل سے مل چکا تو ایک لڑکا سا آ کر ملا، "کیا حال ہیں پائین۔۔" ۔ دل کو صدمہ سا لگا کہ یہ ہیں استاد جی؟ لیکن کن اکھیوں سے کار میں تاکا جھانکی کرتا رہا کہ شاید یہ استاد جی نہ ہوں استاد جی اندر بیٹھے ہوں اور یہ فقط استاد جی کا چھوٹا ہوں لیکن وہی استاد جی تھے ۔ اور میں نے جو زبان سے ان کی تعریفوں کے ڈونگے برسائے تھے گاڑی میں بیٹھ کر دل کو منانے لگا کہ شکل کا بخت اور عقل سے کوئی تعلق نہیں اور مزید وزن پیدا کرنے کو شیشے میں اپنی شکل دیکھنا شروع کر دی۔


اگر آپ استاد جی کو بڑا دانش ور، معزز، قابل اور دھانسو قسم کی کوئی شے سمجھتے ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ استاد جی سے نہ ملیں۔استاد جی سے وابستہ ساری خوش فہمیاں ان کو دیکھتے ہی ایسے غائب ہو جاتی ہیں جیسے بارش کے بعد خواتین کا میک اپ۔ استاد جی کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ اکیلے بھی ہوں تو کوئی ان پر دوسری نگاہ نہ ڈالے۔سونے پر سہاگہ ان کی پنجابی۔لہذا بھلائی اسی میں ہے کہ استاد جی سے غائبانہ تعارف رہے۔

استاد جی کا وطن مالوف فیصل آباد ہے اور فیصل آباد کا سنتے ہی دماغ میں جگت کا دھیان آتا ہے اور استاد جی بھی اپنے وطن کی پوری پوری لاج رکھتے ہیں لہٰذا سامعین کو مایوس نہیں کرتے۔

استاد جی تحریر و تقریر دونوں پر انتہا درجے کی مہارت رکھتے ہیں تاہم اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ کہ ان کی تحاریر گھر والوں کو بھی پڑھائی جا سکتی ہیں۔ تقریر کا اندازہ خود لگا لیں کہ میری کوشش رہی وہاں نشست رکھی جائے جہاں پنجابی سمجھنے والے کم سے کم ہوں۔ استاد جی کا خود کا فرمان ہے کہ ادب بے ادبی کے بنا نہیں لکھا جاسکتا اور استاد جی سے مل کر اس بے ادبی کا احساس بخوبی ہوتا ہے۔ کلامی و زبانی، مرد و زنانی استاد جی کسی کی بھی کسی لمحے مٹی پلید کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ البتہ اپنے قریبی دوستوں پر مہربانی کرتے ہیں کہ ان کی عزت فقط ایک جملے میں ہی کر دیتے ہیں۔

استاد جی سے کسی بھی اہم و غیر اہم موضوع پر گفتگو کرا لیں آخیر میں پچھتانا آپ کو ہی پڑے گا ایک تو استاد جی کا مدلل انداز دوسرا پنجابی اور تیسرا سب سے الگ نتیجہ اخذ کرنا اور چوتھا آپ کو اعتراض کر سکنے کا موقع نہ دینا۔

ہم کھانا کھانے پہنچے تو پتہ چلا کہ استاد جی کو ڈاکٹر نے آج کل گوشت کھانے سے منع کیا ہوا ہے اس لیے ہم دونوں نے مل کر ایک پلیٹ منگوائی جس میں ایمانداری سے میں نے چاول استاد جی کو پکڑائے اور گوشت میں نے سنبھالا۔ تاہم استاد جی استادی دکھانے سے باز نہ آئے اور ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود بھی میرے حصے سے گوشت کھاتے رہے لیکن میں نے پوری ایمانداری کا مظاہرہ کرتا ہوئے ان کے ابلے چاولوں سے ایک لقمہ بھی نہ لیا۔

استاد جی کی جسمانی حالت دیکھ کر آئیوڈین کی کمی والا اشتہار دماغ میں آتا ہے اور اس پر استاد جی کی سیگرٹ نوشی۔ مجھے شک ہے عنقریب ڈاکٹر صاحب استاد جی کے سیگرٹ پینے پر بھی پابندی لگا دیں گے اور مجھے یقین ہے استاد جی تب بہانے بہانے سے سیگرٹ پینے والوں کے پاس جا کر ٹھہر جائیں گے "میں تے نئی پی ریا پائین" ۔ استاد جی کی دھواں چھوڑنے والی صنف نازک میں دلچسپی ہمیں اسی منظر نامے کا ایک تسلسل لگا۔

میاں صاحب سے یہ دوسری ملاقات تھی اور پہلی ملاقات کے پیش نظر مجھے امید تھی کہ کھانے کا بل میاں صاحب ہی ادا کریں گے لیکن میاں صاحب کی خوش فہمی دیکھیں کہ ان کو شک تھا شاید ہم میں کسی کی آنکھ میں حیا باقی ہے کہ شاید ہم میں سے کوئی بل ادا کر ہی نہ دے تو وہ غسل خانے جانے کے بہانے بل ادا کر آئے اور اس کے بعد سینما کی ٹکٹ بھی انہوں نے ہی ادا کی۔یوں دل ہی دل میں ہم نے ایک بار پھر میاں صاحب کا زیر بار محسوس کیا لیکن پھر پرانی کمینگی عود کر آئی اور ہم نے دل ہی دل میں ان کا شکریہ ادا کر کے گویا ان کا احسان اتار دیا۔

جب انگریزی فلم کی ٹکٹیں خریدنے لگے تو میں نے بے اعتباری سے استاد جی کو دیکھا جنہوں نے ساری گفتگو میں ایک لفظ اردو تک کا نہیں بولا تھا بس یہی کہے جاتے تھے کہ اگر آپ کہیں تو میں اردو میں گفتگو کر لوں۔پھر میں نے سوچا میں تین چار سال بعد سینما میں فلم دیکھ رہا ہوں شاید پنجابی یا کم از کم اردو کے سب ٹائیٹل ساتھ دکھاتے ہوں لیکن اندر جا کر وہ امید بھی ختم ہو گئی۔ ہم نے سوچا کہ ٹوئٹر استعمال تو کر رہے تھے انگریزی آتی ہی ہو گی لیکن خود کو یقین نہ دلا سکا اور جب فلم شروع ہوئی تو امکان غالب ہے کہ وہ بھی ہماری طرح لوگوں کے قہقہے سن کر کورس کے ساتھ ہی قہقہہ لگا رہے تھے کہ ہمیں خود انگریزی فلم دیکھنے کے لیے پاز Pause کے بٹن اور انگریزی اردو ڈکشنری کی ضرورت پڑتی ہے۔

میاں صاحب جس کے ساتھ دل لگا لیں نہار منہ اس کا وظیفہ جپتے اٹھتے ہیں اور رات کو سوتے وقت کی دعا پڑھ کر اسی کا نام لیکر سوتے ہیں۔اگر میں لڑکی ہوتا تو قسم سے میاں کی دوسری بیگم ہونے کو تیار ہو جاتا اس طرح ان کی بھی دلی خواہش بر آتی اور مجھے بھی بکس نما شوہر مل جاتا۔ بہرحال میاں صاحب کی سادہ دلی سے ہم اتنے بیزار ہوئے کہ کسی شخص کی تعریف کرنے لگے تو میں نے کہا میاں صاحب رہنے دیں آپ تو شیطان سے مل کر بھی اس کی تعریف کرتے پھریں گے کہ کمال بندہ ہے یار برائیاں اپنی جگہ پر بندہ بڑا زنردست ہے۔میاں صاحب نے تازہ بیعت استاد جی کے ہاتھ پر کی ہے اور پہلی ملاقات میں استاد جی کی تعریف میں اور دوسری ملاقات انہوں نے استاد جی کی تائید میں گزار دی۔ استاد جی اور نیک دل صاحب کی جوڑی دیکھ کر مجھے پی ٹی وی کا ایک پرانا ڈرامہ یاد آ گیا جس میں ایک ماں بیٹی کسی کے گھر جاتے ہیں اور اماں لگائی بجھائی شروع کرتی ہے تو اپنی بات میں زور ڈالنے کے لیے بیٹی کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد جھنجھوڑ کر کہتی ہے تو بھی تو بول اور بیچاری بیٹی ہر بار یہی کہتی ہے "اماں ٹھیک تو کہتی ہے" اسی طرح نیک دل صاحب بھی ہر فقرے کے اختتام ہر یہی دوہراتے ہیں کہ "استاد جی ٹھیک تو کہتے ہیں"۔

کچھ حاسدین استاد جی کو اردو بلاگنگ کا الطاف بھائی سمجھتے ہیں جو باہر سے بیٹھ کر تمام معاملات پر کنٹرول رکھتے ہیں۔اس لحاظ سے تو نیک دل صاحب ڈاکٹر فاروق ستار ہوئے لیکن نیک دل صاحب کی وجہ سے میں استاد جی کو الطاف بھائی نہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ اگر اصلی رابطہ کمیٹی میں بھی ایسے بندے ہوتے تو کیا بات تھی۔مخالفین کا کہنا ہے کہ استاد جی کے حامی بلاگران اکثر دوسرے بلاگروں کی ناک میں نتھ ڈال کر رکھتے ہیں جس سے شروع شروع میں مجھے خود استاد جی پر ڈان شان قسم کا بندہ ہونے کا شک شبہ رہا لیکن بعد میں معاملہ صاف ہو گیا کہ استاد جی پرائے معاملوں میں پھڈے بازی نہیں کرتی البتہ بلی بھی ان کا راستہ کاٹ جائے تو بےچارے ہفتہ ایک تو پیٹ کے درد میں مبتلا رہتی ہوگی بلاگر تو پھر بلاگر ہوئے وہ ایک الگ بات کہ استاد جی کے معیار پر کم کم بلاگر ہی پورے اترتے ہیں اور اس معیار سے کم والوں کو وہ بلاگر ماننے سے یکسر انکاری ہیں۔

تاہم استاد جی نے اس خاکسار کی اس پر زور تعریف کی کہ آس پاس والے رک کر دیکھنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر میں نے کونسا کارنامہ انجام دیا ہے اور میں کھسیانا سا ہو کر رہ گیا۔ آخر مسلسل تعریف سن کر مجھے لگنے لگا شاید یہ تعریف نہیں عزت افزائی کی جا رہی ہے اور میں دیکھنے لگا کوئی سڑک کنارے کھمبا نظر آئے تو میں وہاں رک کر تھوڑا نوچ سکوں اور اپنی ملاقات کا شوق ٹھنڈا کر سکوں۔تاہم استاد جی کی زبان سے مسلسل اپنے ہیچ سے قلم کی مدح سرائی سن کر آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس احسان کا بدلہ استاد جی کی شخصیت کے دو ہزار تین سو اکتیس پہلوؤں میں سے چند ایک کا بیان کر کے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

کسی بھی نئے شخص کو جس کی پہلی ملاقات ہو استاد جی سے کو باہر نکل کر سمجھانا پڑتا ہے "یار استاد جی کی سخت گوئی پر نہ جانا استاد جی دل کے بہت نرم ہیں" جیسے اپنی ماں کا ستایا ہوا بےچارہ دلہا شادی کے بعد نئی دلہن کو ٹپس دے رہا ہوتا ہے اور ڈر بھی رہا ہوتا ہے کہ کہیں اماں سن ہی نہ لے۔اور سیانی خاتون سمجھ جاتی ہے کہ ہو گیا کام اور ہم جیسی بے وقوف بہویں دوبارہ بھاگ پڑتیں ہیں کہ اماں جی کی نرم دل دیکھ آئیں۔

بہرحال پیارے بلاگرو یاد رکھنا، استاد جی کا آج کل بلاگ پر اپنا روایتی انداز چھوڑ کر خلیل جبرانی اور حکیم لقمانی انداز اختیار کرنااور میرے سے درجہ چہارم کے بلاگروں کا استاد جی کا خاکہ اڑانا اردو بلاگروں کے لیے کھلی نشانی ہے کہ آخیر عمر میں استاد جی سا وڈا اور اصلی بلاگر ہی کیوں نہ ہو اس کی قسمت میں خواری ہی لکھی ہے۔