June 25, 2013

پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی کی دریافت

Pishawar main mitti main zinda rehny wali machli ki daryaft

خبر:پشاور میں مٹی میں زندہ رہنے والی مچھلی دریافت۔شہری پرجوش


یوں تو مٹی میں رہنے والی مچھلی کوئی نئی بات نہیں۔ انگریزی میں اس کو walking fish یا ambulatory fish کہا جاتا ہے اور اس کو اردو میں سیار مچھلی کہا جا سکتا ہے کی پہلے ہی کئی اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ یہ مچھلی لمبے عرصے تک پانی کے بغیر زندہ رہ لیتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سائینسی تحقیق نہ ہونے کے برابر کی وجہ سے ایسی کوئی بھی ایجاد حیران کن قرار پاتی ہے جبکہ میرے خیال میں یہ حیران کن نہیں بلکہ پریشان کن خبر ہے۔

دنیا کی تمام مخلوق نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی عادات و اطوار میں تبدیلی لائی اور جو نہ لا سکے وہ دنیا سے نیست نابود ہو گئے۔ خشکی پر چلنے والوں نے سمندروں میں تیرنا سیکھا، گرمی کے عادیوں نے سردیوں کی عادت ڈالی، پہاڑی علاقے کے باسی ریگستان میں رہنے لگے، ڈائینو سار کی نسل سکڑتے سکڑتے چھپکلیاں بن گئی، بلی کے بھتیجے بھانجے شیر چیتے بن گئے غرض جیسے جیسے موسم بدلا، خطے میں تبدیلی آئی وہ اسی آب و ہوا میں ڈھلتے چلے گئے اور زندہ رہے اور جو نہ ڈھال پائے وہ ہمیشہ قائم رہنے کے باوجود قائم علی شاہ سے خوش قسمت ثابت نہ ہو سکے اور چوتھی باری آنے سے پہلے ہی جہان پاک کر گئے ۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 19, 2013

استاد جی ہمراہ سائیڈ پروگرام میاں نیک دل

Ustad ji hamrah side program mian naik dil


میاں نیک دل کا فون آیا کہ استاد جی کے ہمراہ میں جمعہ کو آپ کے پاس آؤں گا۔ کچھ اپنی قسمت خراب تھی اور کچھ بلاگروں کی تعریفوں کے انبار، استاد جی سے ملاقات کا خاصا اشتیاق تھا۔ نیک دل صاحب سے پہلے ملاقات ہو چکی تھی اور جتنے وہ دیکھنے میں نرم لگتے ہیں دل کے بھی اتنے ہی نرم ہیں اور ان لوگوں سے ہیں جن سے مل کر اگر آپ کے اندر حیا لحاظ باقی ہے تو یہ ہر بار آپ کو اپنا احسان مند کر کے جاتے ہیں اور آپ ہر بار سوچتے ہیں کہ ایسوں سے نہیں ملنا نہیں چاہیے ۔

میاں نیک دل صاحب کار سے اترے اور مجھے گلے ملے۔ جب میں میاں نیک دل سے مل چکا تو ایک لڑکا سا آ کر ملا، "کیا حال ہیں پائین۔۔" ۔ دل کو صدمہ سا لگا کہ یہ ہیں استاد جی؟ لیکن کن اکھیوں سے کار میں تاکا جھانکی کرتا رہا کہ شاید یہ استاد جی نہ ہوں استاد جی اندر بیٹھے ہوں اور یہ فقط استاد جی کا چھوٹا ہوں لیکن وہی استاد جی تھے ۔ اور میں نے جو زبان سے ان کی تعریفوں کے ڈونگے برسائے تھے گاڑی میں بیٹھ کر دل کو منانے لگا کہ شکل کا بخت اور عقل سے کوئی تعلق نہیں اور مزید وزن پیدا کرنے کو شیشے میں اپنی شکل دیکھنا شروع کر دی۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 13, 2013

سینچری پوسٹ۔ بلاگ اور بلاگر کا تعارف

Century post- Blog or Blogger ka taruf


میرے بلاگ لکھنے کی براہ راست ذمہ داری میرے ماموں پر آتی ہے کہ وہ کمپیوٹر انجنیئر ہیں اور امریکہ میں ہوتے ہیں تو کہنے لگے "شاہ جی آپ بلاگ کیوں نہیں لکھتے"؟ "یہ بلاگ کس چڑیا کا نام ہے ماموں"؟ وہ بولے" آج کل دنیا کتب کی بجائے بلاگ لکھنے پر منتقل ہو رہی ہے"۔ "اچھا جی"!

جب میرے ہم عمر ڈاکٹر، انجنیئر اور فوج میں جانے کے خواب دیکھا کرتے تھے تو تب ہی میری خواہش تھی کہ میں بڑا ہو کر ادیب بنوں اور وقت کے ساتھ اس خواب میں شدت آتی گئی اور زندگی کا مقصد فقط یہ بن گیا کہ کسی پبلشر کو پیسے دے دلا کر ایک کتاب چھپوا لی جائے اور ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے کہ یہ بلاگ بیچ میں آن ٹپکا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 7, 2013

سفرنامہ گدائنسک

 Safarnama Gdansk -Poland


جب ملتان کی ہاڑ کی گرمی سے نکل کر پہلی بار یورپ کے ٹھنڈے میٹھے جون میں پہنچے تو آنے سے پہلے ہی عزم کر کے آئے تھے کہ یورپ کا چپہ چپہ گھومنا ہے۔ کوئی قصبہ کوئی شہر کوئی ملک ایسا نہیں بچے گا جہاں ہمارے مبارک قدم نہ پڑے ہوں تاہم پولینڈ اترتے ہی جب قیمتوں کے آٹے دال کا بھاؤ اور یورپی ویزے کے لیے ایک سال انتظار کرنے کی خبر ملی تو ہمارے ارمان بھی پولینڈ کے موسم کی طرح ٹھنڈے ہوگئے ۔ہم نے منصوبہ ب (پلان بی Plan B) سوچا کہ "تو نہ سہی تیری یاد ہی سہی" تو یورپ نہ سہی پولینڈ کا چپہ چپہ ہی گھوم لیا جائے لیکن پولش زبان سے نا واقفیت بری طرح آڑے آئی کہ ہمیں تو وارسا میں پوچھنا پڑتا تھا کہ "باجی آپ کو انگریزی آتی ہے؟ اگر ہاں تو یہ تو بتا دیں ٹکٹ کہاں سے لیتے ہیں اور مہربانی کر کے ایک ٹکٹ فلاں اسٹیشن کی موبائل میں ٹائپ کر دیں تاکہ ٹکٹ دینے والی ماسی کو کچھ سمجھ آ سکے"۔ تاہم شوق پوری طرح ٹھنڈا نہ ہوا اور دل وارسا سے باہر نکلنے کو مچلتا رہا۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad

June 1, 2013

ہائے ری مہنگائی

hi ri mehngai


انگریزی میں مہنگائی کو انفلیشن inflation اور اردو میں انفلیشن کو افراط زر کہا جاتا ہے۔افراط زر دراصل اس مقصد کے تحت نام دیا گیا ہے کہ جدید اکنامکس یا معاشیات کے تحت مہنگائی ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ ہو گیا ہے جس کو وہ خرچ کریں گے اور زیادہ گاہک ہونے کی صورت میں بیچنے والا منہ مانگے دام وصول کرے گا چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ وہ پیسہ کسی طریقے سے واپس لے لو۔ اب واپس لینے میں امیر کوتو نقصان نہیں ہوتا بےچارہ غریب مارا جاتا ہے کہ حکومت یا اسٹیٹ بنک گھر گھر جا کر تو نہیں کہے گی کہ بھائی نکالو پیسے جو گھر پڑے ہیں (ویسے کیا پتہ در پردہ ڈاکوؤں کو انہی کی پشت پناہی حاصل ہو اور ہم جو دن رات بد امنی کو گالیاں نکالتے ہیں وہ دراصل عوام کی فلاح میں مہنگائی ختم کرنے کا علاج ہو ) تاہم حکومت ٹیکس لگا کر اور بینک سود کا ریٹ بڑھا کر نئے کاروبار کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نوکریاں ختم ہو جائیں گی اور غریب پہلی ہی فرصت میں اپنے پیسے خرچ کر کے صبر کر لے گا اور دکاندار گاہک کم ہونے پر قیمت کم کریں دیں گے اور غریب کے وہ پیسے امیر کے اکاؤنٹ میں جا کر مارکیٹ میں زیر گردش روپیہ کی کمی کا سبب بن جائیں گے گویا مہنگائی ختم کرنے کے لیے قیمتوں کو نیچے مت لاؤ بلکہ بندے ہی مکاؤ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا منشور کہ غربت نہیں غریب مکاؤ کتنا سائنٹیفک ہے۔
مزید پڑھیے Résuméabuiyad