May 13, 2013

اشرف الحیوانات- افسانہ/کہانی

Ashraf-ul-Makhlooqat-afsana/short story

ایک تھا جنگل. اب پتہ نہیں وہ جنگل تھا یا نہیں تاہم وہاں قانون جنگل کا ہی چلتا تھا۔ کسی بوڑھے نیک دل شیر نے جس کی اولاد نہیں تھی مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ آج کے بعد یہاں کوئی شیر اس وجہ سے بادشاہ نہیں رہ پائے گا کہ وہ طاقت ور ہے، اس کی بجائے جو جانور سب سے زیادہ قابل ہو گاوہی بادشاہی کے کا حقدار ہو گا۔ تاہم قابلیت کی تعریف اس نیک بخت نے بھی نہ کی۔ شروع شروع میں تو وہاں شیروں کا ہی بول بالا رہا تاہم بدلتے وقت نے جنگل بھی بدل ڈالا اور قانون یہ قرار پایا کہ جو سب سے زیادہ قیمتی پتھر جمع کر پائے گا وہی بادشاہ بن پائے گا۔ قیمتی پتھر وہاں عام نہیں ملتے تھے بلکہ ان کو ڈھونڈنے کی خاطر پہاڑوں، دریاؤں، وادیوں، صحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ کئی جانور تو اس تلاش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ تاہم ہوا یوں کہ ایک بار اس جنگل کا حکمران ایک گیدڑ بن بیٹھا ۔ اب اس نے اتنے پتھر جمع کیسے کیے یہ ایک الگ کہانی ہے تاہم اس کو پتھر گننے والی کمیٹی کو چوری شدہ پتھروں اور غلط گنتی پر رام کرنے کیلئے بڑے جتن کرنے پڑے۔

 گیدڑ کا انداز حکمرانی بڑا عجیب تھاوہ اپنے سے کمزوروں کیلئے شیر اور طاقتوروں کیلئے بھیگی بلی بنا رہتا۔ لیکن اسکے پاس د وچیزیں تھیں، گیدڑ سنگھی اور گیدڑ بھبکی ۔ بڑے بڑے جغادری اسکے مقابلے میں اترے تاہم کوئی گیدڑ سنگھی سے پچھاڑا گیااور کوئی گیدڑ بھبکی سے ر ام ہوا اور جو نہ ہوا وہ سر پٹختا رہ گیا کہ اس جنگل میں ان دنوں گیدڑ کے پاؤں میں سب کا پاؤں تھا۔

 اس راجہ گیدڑ کا کمال یہ تھاکہ تمام جنگل اس سے نالاں تھاتاہم تمام جنگل اس کو راجہ بھی دیکھنا بھی چاہتا تھااور وہ بھی ایسی جگہ جہاں ایک سے زیادہ بار راجہ بننا ممنوع تھاایک چھوڑو ، دو چھوڑو تین مرتبہ راجہ بن چکا تھااور ابھی بھی اسکا حرص اور ہوس پورا نہیں ہوا تھا۔ شیر، حکمرانی جن کا پیدائشی حق تسلیم کیا گیا ہے اکٹھے مل بیٹھے کہ کچھ کیا جائے تاہم سوائے لگاتار سوچنے کے کچھ حاصل نہ ہو سکا کیونکہ شیر عمل سے بے بہرہ دانشور بن چکے تھے جو سہمے سہمے حروف لکھ کر سمجھتے تھے کہ انقلاب ان کی چوکھٹ پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور وہ جب چاہیں اس کو انگی پکڑ کر جنگل میں نافذ کر دیں۔

 عروج کے بعد زوال تو آتا ہے خواہ عروج ایک لمحے کا رہا ہو یا ایک صدی کا اور ایک ایسی آندھی چلی کہ راجہ گیدڑ کی ہوا اکھڑ گئی ۔ اگرچہ یہ اس سے قبل بھی بارہا ہوتا آیا تھاتاہم اس بار مقابلے میں آنے والے چند گلہریوں کے ٹولے نے ایسی ثابت قدمی دکھائی کہ نہ ہی گیدڑ سنگھی کا جادو چل سکا اور نہ ہی گیدڑ بھبکی کاشور۔گیدڑ راجہ جن کو بے ضرر سمجھ کر اور چند شیروں کے بہکاوے میں آ کر مثالی راج پاٹ کے خلاف بے بنیاد خبریں بنانے والا سمجھ رہا تھا وہ اس کی نیا لے ڈوبے اور گیدڑ کے خود ساختہ تاریخ ساز راج کا خاتمہ بڑی بدمزگی میں ہوا۔خود ساختہ تاریخ بنانے والے اکثر بد مزگی کا ہی سامنا کیا کرتے ہیں۔

 تاہم کہانی ختم نہیں ہوئی، کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک شیر جسکے پاس سب سے زیادہ پتھر تھے بادشاہ بن گیا۔ اس شیر کی بہت دھوم تھی کہ اس نے جنگل جنگل گھوم کر دن رات ایک کر کے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ وہ کسی سے ڈرنے والا نہیں ہے، وہ جانوروں کا حقیقی ہمدرد ہے، اس کی قابلیت کے آگے انسان پانی بھرتے ہیں، اس کے حسن پر تمام جانور مرتے ہیں، وہ انتہائی نیک ہے،اس کی طاقت کے آگے ہاتھی بھی خم کھانتے ہیں، سب جانور اس کے گن گاتے نہیں تھکتے وغیرہ وغیرہ۔

جس روز جشن تاج پوشی منایا جا رہا تھا اس روز جب وہ شیر طاقت اور حکومت کے نشے میں پوری طرح ڈوب گیا تو اس نے اپنی کھال اتار پھینکی ۔

 اس کے بعد کی کہانی سنانے والے کم کم ملتے ہیں کہ وہاں پر موجود تمام لوگ ہی اس کے وزیر بن گئے یا مشیر بن گئے۔ تاہم روایت کی جاتی ہے کہ اس نے پہلا حکم ان گلہریوں کی سرتابی کا دیا جو گیدڑ کو مار بھگانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔دوسرا اس نے سب شیروں کو جنگل کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا علاقہ دے کر شکار کی آزادی دے دی۔ تیسرا اس نے ایسے جانوروں کو جنہوں نے اس کے حق میں خبریں پھیلائیں تھیں کو ایک ایک قیمتی پتھر بطور تحفہ دینے کا حکم دے دیا۔

 البتہ چند جانور جنہوں نے اس کی کھال اترے دیکھی تھی اور ان کو ان کی مرضی سے نوازا نہ گیا تھا اپنے بال بچوں کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ وہ شیر کی کھال میں لومڑ تھا۔