May 1, 2013

گرائمر کے اسباق-اسم کی اقسام

 اسم – فعل- حرف
 پہلے اسم شریف ہوا کرتا تھا جب ہی پوچھا جاتا تھا "آپ کا اسم شریف"؟ لیکن اب پاکستان میں صرف نام کے شریف ہی جی سکتے ہیں کام کے شریف تو چلو بھر پانی کے بغیر ہی ڈوب مرتے ہیں لہذا اسم شریف ختم ہو گیا ہے اور اب نام اور نیم name سے کام چلایا جاتا ہے۔


فعل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں"ع" آتا ہے(فعل) اور دوسرے وہ جن میں"ی" آتا ہے(فیل)۔اگر "ع" والے فعل کرتے رہیں تو "ی" والے فیل سے بچاؤ ممکن ہے اب یہ الگ بات کہ وہ "ع" والا فعل پیسے سے کیا جائے ، محنت سے جائے، خوشامد سے کیا جائے یا نقل سے کیا جائے۔بہرحال "ع" والے فعل کا مطلب ہے کرنا اور "ی" والے فیل کا مطلب ہے نہ کر سکنا۔"ع" والا فعل اکثر جگہوں پر باعث برکت بنتا ہے جبکہ" ی" والا سوائے عشق کے کہیں بھی کامیاب نہیں۔ طالب علم اکثر امتحانوں میں اس "ع" والے فعل کے چکر میں پھنس کر "ی" والے فیل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں ۔"ی" والا فیل اساتذہ کا بھی پسندیدہ ہے کہ انکو کل نمبر لکھنے کی بجائے فقط ایف F ہی لکھنا ہوتا ہے۔فعلوں اور فیلوں کی ڈھیر ساری اقسام ہیں تاہم ان کو الگ بلاگ میں تفصیل سے لکھا جائے گا۔

 پڑھتے آئے ہیں کہ لکھا ہوا حرف پتھر پر لکیر ہوتا ہے لیکن ربر، ریموور اور کرینوں کی آمد کے بعد نہ پتھر رہے نہ پتھر پر لکیر۔ تاہم حرف ابھی بھی لکھے جا رہے ہیں کوئی سمجھے نہ سمجھے کوئی پڑھے نہ پڑھے ہماری بلا سے

 اسم کی اقسام (معنوں کے لحاظ سے)

اسم نکرہ: وہ اسم جو کسی عام شخص، شے یا مقام کا نام ہو۔
اسم معرفہ : وہ اسم جو کسی خاص شخص، شے یا مقام کا نام ہو۔

 ویسے تو اسم نکرہ کی مثال لڑکا جب کہ اسم معرفہ محمد نواز ہے۔ تاہم ہمارے جمہوری نظام کی بدولت گرائمر کے قاعدے میں بھی تبدیلی آئی ہے اب تمام قوم اسم نکرہ ہے جبکہ تمام حکمران اسم معرفہ ہیں- اب سوائے ان نوازوں کے جو اسمبلی میں ہیں، بیورو کریسی میں ہیں، فوج میں ہیں، باقی تمام نواز اسم نکرہ ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ علاقائی سطح پر، شہری سطح پر ، محلے کی سطح پر الگ الگ اسم معرفہ ہیں جو ویسے قومی سطح پر بھلے اسم نکرہ ہوں مقامی پولیس اور دفاتر میں وہ اسم معرفہ ہی ہوتے ہیں۔

 اسم معرفہ کی اقسام: اسم علم- اسم ضمیر۔ اسم اشارہ۔ اسم موصول

اسم علم: علم کے معنی نشان یا علامت کے ہیں۔ جو کہ انتہائی خاص طور پر بیان کی گئی ہے کہ علم ہمارے لوگوں کی لیے ہما سا کوئی پرندہ ہےجو اٹھارہ بیس جماعتیں پڑھ کر بھی ہاتھ نہیں آتا۔لیکن گرائمر میں اس سے مراد اسم معرفہ کی وہ قسم ہے جس میں کسی خاص چیز جگہ اور فرد کی پہچان کے لیے جو اسم بولا جائے اس کو اسم علم کہا جاتا ہے۔ مثلا رائے ونڈ ، گؑڑھی خدا بخش ، قائدانقلاب ، وغیرہ۔—
 اسم علم کی پانچ اقسام عرف- خطاب۔ لقب۔ کنیت- تخلص
عرف: کے دو معنی ھیں: معرفت اور پہچاننا-یہ وہ نام ہے جو پیار یا حقارت کیوجہ سے دیا جائے۔ پیار تو کبھی ہمیں چھو کر نہیں گزرا اس لیے اکثر عرف غصہ نکالنے کا زریعہ ہوتے ہیں۔ہماری قوم عرف رسید کرنے میں ماہر ترین قوم ہے۔مجال ہے جو کسی کمتر کو درست نام سے پکار لیں۔ گویا شکل دیکھے بغیر ہی پہچاننے کی مہارت ہمارے ہاں عام پائی جاتی ہے۔شیدا پستول، مانا کملا، مودا بگھیاڑ، شرفو لوہار، فجو ماشکی اس کی چند مثالیں ہیں۔
خطاب: وہ نام ہے جو حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دیا جائے۔اسکو اعزاز بھی کہا جاتا ہے اور عام زبان میں آج کل عہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے شمس العلماء ، نواب، خان صاحب وغیرہ دیا جاتا تھا تاہم آج کل گورنر، وزیر، مشیر، او جی ڈی سی کا چیرمین ، وائس چانسلر وغیرہ عام ہیں۔
لقب: یہ وہ نام ہے جو کسی خاصیت کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہو۔ ویسے خاصیت ہو یا نہ ہو مشہور ہونا زیادہ اہم ہے۔ لقب چونکہ اسم معرفہ کی قسم ہے لہذا خاص لوگوں کے ہی لقب ہوتے ہیں مثلاً قائد عوام، قائد حرام، قائد انقلاب، قائد شباب۔ بابائے ٹک ٹک ،قائد اعظم ثانی، قائد اعظم ثانی کی ثانی ۔موجد پانی والی کٹ وغیرہ
کنیت: یہ وہ نام ہے جو ماں باپ یا بیٹے بیٹی کے تعلق کی وجہ سے پکارا جائے۔ یوں تو یہ عربوں میں مقبول ہے جیسے ابو زبیدہ، ام کلثوم لیکن ہمارے ہاں سیاستدان میں یہ خاصا مقبول ہے۔ ہمارے ہاں اس میں ابو یا امی بھی نہیں لگایا جاتا اور سننے والے کو پھر بھی پتہ چل جاتا ہے مثلاً بلاول بھٹو زردادی ، مریم نواز شریف ، مونس پرویز الہی ، حمزہ شہباز شریف۔وغیرہ وغیرہ
تخلص: یہ وہ نام ہے جو شعرا استعمال کرتے ہیں مثلاً غالب، میر، مومن ۔یہ نام اس کثرت سے استعمال کیا گیا ہے کہ بےچارے نئے شعرا کے لیے شعر کہنا مشکل نہیں بلکہ نیا تخلص چننا مشکل ہے کہ جس لفظ پر ہاتھ رکھو وہ پہلے ہی کسی نے چن رکھا ہوتا ہے۔

اسم ضمیر:یہ وہ قدیم اسم ہے جو کبھی انسانوں میں پایا جاتا تھا۔ شنید ہے ڈائنو سار کے ساتھ یہ بھی زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب کے ساتھ یہ بھی معدوم ہو گیا ہے —  

اسم اشارہ: جہاں جنس مخالف کا ٹاکرہ ہو وہاں یہ اسم خاص استعمال میں لایا جاتا ہے۔مثلاً خواتین کالجوں کے باہر، بازاروں میں۔کچھ لوگ بڑے کائیاں ہوتے ہیں آنکھوں کا اشارہ بھی سمجھ لیتے ہیں اور کچھ کوڑھ مغز پولیس کے ڈنڈے کا اشارہ بھی نہیں سمجھتے۔ پھر ان لوگوں کو لفافہ پہنچانا پڑتا ہے کہ معاملہ اچھی طرح سمجھ سکیں-ویسے اشارے بازی کوئی اچھی بات نہیں خاص طور پر جب آپ اشارے کرتے پکڑے جائیں--

اسم موصول: یہ وہ ناتمام اسم ہے جس کا مطلب پورے جملے کے بغیر سمجھ نہیں آتا اور اس کے بغیر جملہ بھی ادھورا رہتا ہے۔مثلاً اس نے پیسے لیکر چالان نہ کاٹا۔ اس میں اس نے اسم موصول ہے اور پیسوں کی وصولی نے جملہ اور کام دونوں مکمل کر دیے ہیں۔

 اسم نکرہ کی اقسام اسم ذات- اسم استفہام- اسم مصدر- اسم حاصل مصدر(اسم کیفیت)- اسم فاعل۔ اسم مفعول-اسم حالیہ- اسم معاوضہ

اسم ذات: یہ وہ اسم ہے جس سے ایک چیز کی حقیقت دوسری چیز سے الگ سمجھی جائے۔ پہلے وہ چیز خاندان ہوا کرتی تھی اب پیسہ ہے کہ جیسے جیسے پیسہ آتا ہے ویسے ویسے اسم ذات سے اچھے وصف منسوب ہوتے جاتے ہیں مثلاً میراثی کا سید بننا، کمہار کا شیخ ہونا وغیرہ وغیرہ۔چونکہ ہم ترقی پسند قوم ہیں لہذا ہمیں کسی بھی قیمت پر ترقی منظور ہے خواہ خاندان کا نام ہی کیوں نہ بدلنا پڑ جائے۔ ویسے تو اسم ذات کی پانچ اقسام ہیں پر آج کل دو استعمال میں ہیں پیسہ اور عہدہ۔باقی پانچ جگہ کی کمی کے باعث کسی گرائمر کی کتاب میں پڑھ لیں۔

اسم استفہام: وہ اسم ہے جو پوچھنے کے محل پر بولا جائے۔ جیسے کون ۔یہ اسم عدالت اور تھانوں میں زیادہ چلتا ہے-اس کے جواب میں لاعلمی کا ہی مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ اور اس پر پردہ ڈالنے کو ہر دو مقام پر کمیشن چلتا ہے خواہ پیسوں والا ہو خواہ پیشی والا ہو۔تاہم عام آدمی کے لیے اس کے سب سے اہم مثال ہے کہ "بجلی آنے والے ہے یا جانے والی ہے"؟

اسم مصدر: یہ وہ اسم ہے جس سے اور تو بہت سے الفاظ تو بنائے جاسکتے ہوں مگر وہ خود کسی سے نہ بنا ہومثلاً کھیلنا، لوٹنا،بنانا وغیرہ گویا یہ کسی آزاد ادارے کی طرح کام کرتا ہے اور پاکستان میں آزاد ادارے کی مثال دینے سے راقم قاصر ہے اگر آپ کے ذہن میں کوئی ہو تو اسی سے کام چلا لیں-

اسم حاصل مصدر(اسم کیفیت): وہ اسم جس سے کسی شخص یا شے کی کوئی حالت یا کیفیت معلوم ہو۔ جیسے ہن آرام اے؟ اور ووٹ دو ان کو۔ایسی کی تیسی میں بھی پاکستانی ہوں وغیرہ وغیرہ ۔ -

اسم فاعل: یہ وہ اسم ہے جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے۔ تاہم آج کل کام کرنے والے انتہائی کم ہیں اور مفت کی توڑنے اور حرام کی کھانے والے زیادہ ہیں تو اصل زندگی سے اس کی مثال دینا خاصا مشکل ہے تاہم گرائمر میں اس کی مثال محنتی، محسن، مجاہد وغیرہ ملتی ہیں جس سے آپ خود اس کی کمیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ -

اسم مفعول: یہ وہ اسم ہے جو اس شخص یا چیز کو ظاہر کرے جس پر کوئی کام واقع ہوا ہو۔اسکی سب سے بڑی مثال پاکستانی قوم ہے جس پر اسم مفعول پسا ہوا، لٹا ہوا، مرا ہوا وغیرہ وغیرہ فٹ بیٹھتے ہیں۔

اسم حالیہ: یہ وہ اسم ہے جو فاعل یا مفعول کی حالت ظاہر کرے جیسے فلاں صاحب بڑے امیر ہیں۔ یہ ہمارے قانون کی طرح سابقہ حساب کتاب نہیں مانگتا کہ چار سال پہلے تو وہ سوزکی جیپ پر چڑھے پھرتے تھے آج لکسس کہاں سے آ گئی بلکہ اسکا زور آج پر ہے کہ آج وہ ہر دل عزیز ہیں، امیر ہیں، سیاستدان ہیں، اور حکمران پارٹی میں ہیں وغیرہ وغیرہ-

اسم معاوضہ: یہ وہ اسم ہے جو پہلے کسی خدمت یا محنت کے عوض ملا کرتا تھا جیسے رنگائی، دھلائی، سلائی وغیرہ تاہم اب یہ بغیر محنت کے بھی عام مل جاتا ہے مثلاً تحفہ، نذرانہ، لفافہ، بریف کیس وغیرہ وغیرہ۔

 اسم کی اقسام (استعمال کے لحاظ سے)
اسم بک را- اسم تعارفہ- اسم اعظم- اسم بالمسمیٰ۔ اسم نامعلوم- اسم بکرا

وقت کے ساتھ گرائمر کے استعمال میں فرق آتا چلا گیا ہے اور آج ہم اسم کی نئی اقسام جو استعمال کے لحاظ سے ہیں پہلی بار متعارف کروا رہے ہیں۔ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اسم کی اقسام عام استعمال کی جاتی ہیں لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ انکو بھی پابند گرائمر کیا جاتا اور یہ شرف خدا نے پہلی بار اس خاکسار کو عناعیت کیا ہے۔

اسم بک را : یہ پاکستان میں سب سے زیادہ چلنے والا اسم ہے۔ پہلے لوگ اپنے سے عمر میں بڑوں کا احترام کرتے ہوئے اس اسم کو اپنے ہم عمروں میں استعمال کرتے تھے تاہم اب فقط اپنے سے زیادہ پیسے والے کا احترام کیا جاتا ہے۔باقی جس کو دیکھ لیں غصے سے پیار سے خرافات ہی بک را ہو گا۔ عام زندگی میں اس کی مثالیں عام ملتی ہیں۔ کہیں معمولی سی بات ہوئی نہیں اور اسم بک را آیا نہیں۔ اس کی تین حالتیں ہیں۔ اسم "کتے" کے حساب سے پہلی حالت کتا، دوسری بھونکنے والا کتا۔اور آخری کتی کا بچہ ہے۔ آخری حالت کے بعد اکثر حالت اسپتال جانے کے قابل رہ جاتی ہے۔ پھٹے کپڑے اور خون و خون ہونے پر ہی معاملہ ٹلتا ہے۔

اسم تعارفہ: اسم تعارفہ ایک زمانے میں عام پایا جاتا تھا تاہم آہستہ آہستہ اس کی جگہ اسم معاوضہ نے لے لی۔ اب فقط خاص خاص بندوں کا اسم تعارفہ چلتا ہے لیکن اب بھی جب چلتا ہے تو ان پڑھوں کو مشیر مقرر کرا دیتا ہے۔

اسم اعظم: یہ وہ اسم ہے جس کے پڑھنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں۔ پہلے یہ کوئی وظیفہ ہوتا تھا کہ فلاں قبر کے سرہانے ایک ٹانگ پر پڑھیں اور تمام دنیا تسخیر کر لیں تاہم علی بابا چالیس چور کے کھل جا سم سم کے بعد لوگوں نے متبادل اور آسان اسم اعظم تلاش کرنے شروع کرنے شروع کر دیے اور آج کل اس قسم کے اسم اعظم چلتے ہیں کہ میں گیلانی صاحب کا بھتیجا ہوں، میں خان صاحب کا داماد ہوں، کلیم صاحب میرے چچا ہیں اور اکثر یہ اسم کام کر جاتے ہیں -

اسم بالمسمیٰ: پہلے لوگوں کے نام واقعی ایسے ہوتے تھے کہ سوچتے تھے حلیم صاحب انتہائی نرم دل ہوں گے اور شقیق صاحب انتہائی پیار کرنے والے لیکن وقت کے ساتھ باقی چیزوں کی طرح اس میں بھی کھوٹ شامل ہونا شروع ہو گیا ہے اور اب نام زاہد ہو گا اور اعمال سب الٹے ہوں گے۔ نام مومن ہو گا اور آپ سے رشوت طلب کر رہے ہوں گے۔تاہم اب یہ اسم اعمال کی بجائے عہدے کی بنیاد پر کام کرتا ہے جیسے نوکر کا ایک نام ہو گا وہ بھی شرفو، کریمو۔ اس سے معزز بندے کا نام دو حروف والا ہو گا یہ سفید پوش بندے کی پہچان ہے جیسے محمد شریف، عبدالکریم۔ اس کے بعد جیسے جیسے بندے کا عہدہ بڑھتا جاتا ہے اسکے ناموں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جیسے میاں محمد نواز شریف۔ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی۔ جناب آصف علی زرداری وغیرہ وغیرہ اور تو اور جب کا ہمارا بلاگ پڑھا جانے لگا ہے ہم بھی علی حسان سے سید علی حسان لکھنے لگے ہیں -

اسم نا معلوم: اسم نامعلوم اس اسم کو کہتے ہیں جو نا معلوم ہو یا جس اسم سے جانتے بوجھتے پردہ پوشی کی جائے۔اسکی مثال کراچی والوں سے اچھی کون دے سکے گا مزید تفصیل کے لیے انہی سے رابطہ کریں۔

اسم بکرا(سابقہ اسم الو): یہ اسم بھی ہمارے معاشرے میں عام پایا جاتا ہے۔اس اسم کا فعل ٹوپی پہنانا ہے۔پہلے اس کو اسم الو پکارا جاتا تھا تاہم ہمسایہ ملک کی ثقافت کی یلغار کے بعد اب یہاں پر بھی یہ اسم بکرا کے نام سے رائج ہے۔اسم بکرا کے دو مستعملات ہیں۔ ایک میں جب آپ کو بکرا بنایا جائے اور یہ عمل ہر پاکستانی دوسرے پاکستانی پر دوہرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔جس کا بس چلتا ہے وہ دوسرے کو بکرا بنا کر بیچ کھاتا ہے۔ دوسرا جب ہم خود فخریہ طور پر اسم بکرا بنتے ہیں اور قومی مفاد کی بجائے میں میں کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ پچاس سال دھکے کھانے کے بعد بھی جہاں سے سنیں بکرے کی میں میں کی آواز آئے گی۔