April 25, 2013

جوئے شعر لانا- حصہ دوئم

joe shair lana- hissa doem

اس سے پہلے آپ حصہ اول میں پڑھ چکے ہیں:
اباجی کا پڑھائی پر اصرار اور ہماری دلچسپی فقط رسائل و جرائد تک
ٹیوشن والے استاد جی کے ڈنڈے کے راگ رنگ پروگرام اور ہماری بے بسی
بڑے بھائی کی نام نہاد دوستی اور ابا جی کو ہماری شکایتوں کی مستقل بنیادوں پر ترسیل
کرکٹ کا بخار اور گیند بازی میں پڑنے والی مار
کسی لڑکی کا نہ دیکھنا، ہنس کے دیکھنا مجھے
نتیجہ: ہمارا بننا شاعر اور رکھنا تخلص کزن۔
آگے پڑھیں....


ایک اور اداس شام کے دہانے بیٹھ کر اپنی تلخیوں پر ہم نے سوچا کہ شعر کہا جائے لیکن اندر سے آواز آئی (دل کے اندر سے گھر کے اندر سے نہیں) کہ پہلا شعر اس ملک کے لیے لکھ جس نے تجھے اتنا کچھ دیا ہے (اتنا کی تفصیل لکھنے سے قاصر ہوں کہ اگر کچھ دیا ہوتا تو میں شاعری کر رہا ہوتا؟) اور اس روح پرور خیال پر اندر ہی اندر ہم جھوم اٹھے۔ سب سے پہلے ماحول بنایا لائٹ بجھائی، ابا کی جھڑکیاں، ٹیچرز کی مار، بھائی کی پھٹکار، گھر میں دو ٹکے کی عزت، کلاس فیلو لڑکیوں کا لفٹ نہ کرانا، گھر کے کام کرنا غرض کئی چھوٹے بڑے مجموعہ اغمام یاد کر کر کے، بڑے واسطے دے دلا کر آنکھوں میں آنسو لایا اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بدقسمت انسان سمجھتے ہوئے قلم آٹھایا اور جب آنسو خوب زور پکڑ گئے تو قلم نے کاغذ پر لکھ ڈالا....
 زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
کزنؔ مشکل میں پاکستان ہے

 واہ شاہ جی واہ، کمال کر دیا آپ نے۔ کیا شعر لکھا ہے۔ دل نے جھوم کے داد دی اور ہم آگے کا سوچنے لگے....
 رضائی والی بکس میں سنبھال رکھا ہے
وہ طوطا جس میں اپنی جان ہے

 اور پھر تو گویا جھڑی سی لگ گئی کہ غیب سے مضامین آنے لگے اور کزن کچھ نوائے سروش کےنزدیک نزدیک والی کوئی شے سا بن گیا....

 ہماری بربادی کا مجرم پوچھتے ہو؟
 داہنے گال پر کٹ کا نشان ہے

زندگی سے گھبرانے والو
یہ کونسا میٹرک کا امتحان ہے

 اگلے دن ہم سارے کالج میں مشہور ہو چکے تھے کیونکہ غزل نوٹس بورڈ پر جو آویزاں ہو چکی تھی اور اس غزل کا ایک شعر جو ہر خاص و عام کی زبان پر تھا وہ تھا اس کا مقطع۔

 فقیرانہ روش سے مت روکو کزنؔ کو
لمبے بال، قینچی چپل اس کی پہچان ہے

 بس اب تو پہلے ہی دن تین مشاعروں کے دعوت نامے میز پر جگمگا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ہماری ناانصافیاں ختم ہونے کا وقت آ چکا تھا۔  

اسی رات ایک اور غزل کی تیاری میں درج بالا عمل سے دوبارہ گزرنے کے بعد شعر نازل ہوا۔

 بے وفائیاں تری معرکتہ الارا
اس باب میں نام مرا بھی درج ہے

 کبھی اگرکہیں لفٹ کرا دے
اس میں بھی کیا حرج ہے

اب تین گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب اگلا شعر آسمان سے اترتے ہوئے کہیں کسی درخت ورخت انٹینے مینٹینے میں اڑ گیا تو ہم نے پریشان ہونے کی بجائے پنسل کاپی اٹھائی اور لگے لکھنے ہم قافیہ الفاظ۔

درج ہے۔ حرج ہے۔ گرج ہے۔ ارج ، برج، ترج۔۔۔۔اورالف سے بڑی یے تک کی گردان کے بعد ہم  اس نتیجے پر پہنچے یہ قافیہ ناقابلِ استعمال ہے۔ اب معرکتہ الارا لفظ ہم کو بھا چکا تھا لہذا صرف دوسرے مصرعے کی تبدیلی کی بابت سوچنا شروع کیااور نیا شعر کچھ یوں لکھا

 بے وفائیاں تری معرکتہ الارا
ہم پھر بھی ترا اعتبار کریں گے

گانے کو شعر میں ڈھالا ہے کہ
تیری امید تیرا انتظار کریں گے

 عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے کہ’ کریں گے‘سے کئی امکانات کے در کھلتے ہیں مثلاً مریں گے،ڈریں گے،بھریں گے،لڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔

اب ہم نے ایک ڈائری بنائی جس میں شاعری کے راہنما اصول درج کیے جس میں سے چند نوآموز شعراء کرام کےواسطے درج کر رہا ہوں۔ کہ ہم ان سینئرز میں سے نہیں جو خزانے کے سانپ کی مانند علم کو لپٹ جاتے ہیں بلکہ ہم تو جہاں تک پیغام پہنچا سکیں وہاں تک پہنچانے کے قائل ہیں۔ تو تاریخ میں پہلی بار شاعری کے راہنما اصول پیش خدمت ہیں

1۔ اردو لغت کا مطالعہ اور اس میں سے مشکل،متروک الفاظ ڈھونڈنا اور اشعار میں انکا حسبِ موقع تڑکا لگانا۔
2۔ اگر کوئی شعری اوزان پر تنقید کرے اسے قدامت پرستی کاطعنہ اور اردو کی ترقی کا واسطہ دے کر چپ کرایا جائے۔
3۔ ہم قافیہ الفاظ کی تلاش۔ جو لفظ بھی دماغ میں آئے اس کے ہم قافیہ سوچنا شروع کر دیں۔لفظ آیا نہیں کہ الف بے کی گردان شروع۔ ایک غزل کے لیے کم از کم 5،6 ہم قافیہ چاہیے ہوتے ہیں۔ جتنی تعداد بڑھتی جائے اتنے شعر بڑھاتے جائیں۔ کئی شاعر سینکڑوں اشعار کی غزل لکھ لیتے ہیں اس میں کمال فقط ان کے اردو ب کے استاد کا ہے جس نے پڑھاتے وقت ہم قافیہ ان کو خاص محنت سے پڑھائے۔
4۔ اگر وقت کم اور مقا بلہ سخت درپیش ہو تو آزاد نظم کا حربہ استعمال کیا جائے۔
5۔ اول تو نظم زبانی یاد رکھی جائے کہ گاہک،موت اور شعر سنانے کا موقع کبھی بھی آسکتا ہے بصورتِ دیگر آپکا حافظہ تیز نہ ہے تو نظمیں اور غزلیں لکھ کر جیب میں بھی رکھی جا سکتی ہیں۔
6۔ پنسل کاپی ہمیشہ ساتھ رکھیں کہ کبھی بھی شعر کا نزول ہو سکتا ہے۔

 آزاد شاعری اپنے نام کی طرح آزاد ہوتی ہے۔ ہر چیز سے آزاد قافیے سے، ردیف سے، غلامی سے، مضمون سے۔ آزادی سے۔ گویا مادر پدر آزادی کا دیسی ورژن سمجھ لیں۔ آزاد شاعری کے لیے واحد شرط ہے کہ آپ کو لکھنا آتا ہو۔ تاہم اگر کوئی مضمون بھی آپ کے ذہن میں ہو تو آسانی رہے گی۔ اگر آپ آخر میں یا درمیان میں دو تین قافیے ملا دیں تو سمجھیں بارہ مصالحوں کی چاٹ بن گئی ہے۔ اس میں موضوع کی بھی آسانی ہے کسی بھی موضوع پر طبع آزمائی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر شام کے ڈھلنے کو ہم آزاد نظم میں باندھتے ہیں
 سورج ڈوب رہا ہے
جمعدارنی گلی سے جھاڑو لگا رہی ہے
کسی نے کسی گھر کی گھنٹی بجائی ہے
اور میں سوچ رہا ہوں
کس سے کہوں مشکل جو آن پڑی ہے
اسکول کا کام کون کر دے گا
 سورج ڈوب گیا ہے
کوئی کسی گھر میں گھس گیا ہے
اندھیرا ہو گیا ہے
اور میں
سونے جا رہا ہوں
کل کی کل دیکھی گئی

دیکھا آپ نے کس آسانی سے چار پانچ لائنیں آگے پیچھےلکھ کر شاعری کر لی۔ ویسے تو ہم کہہ چکے ہیں کہ اگر کوئی شعری اوزان پر تنقید کرے اسے قدامت پرستی کاطعنہ اور اردو کی ترقی کا واسطہ دے کر چپ کرایا جائے لیکن اگر کسی خبطی شاعر سے واسطہ پڑ جائے جو آتے جاتے کو پکڑ کر اوزان کا واسطہ دیتا ہو تو پھر آزاد شاعری سب سے عمدہ حربہ ہے۔کہ وہ سوائے مجبوری میں بےچینی سے کروٹیں بدلنے کے سوا کچھ نہ کر پائیں گے اور آپ آزاد نظم پڑھ کر محسوس کریں گے کہ اوزان اور اوزان کے دعوے داروں کی ایسی تیسی۔

 امید ہے کہ نوجوان شعرا اس ضابطہ سے فائدہ اٹھائیں گے اور آپ لوگ میری شاعری کے مزید قائل ہو چکے ہوں گے۔اور آخر میں نئے شعرا کے لیے ایک آزاد نثری نظم کا نمونہ جس نے ہمیں کالج میں آزاد شاعری کا بے تاج بادشاہ بنا دیا – شاعری پڑھنے والوں کے لیے سر دھننے کا ایک اور موقع۔

 اکیلا میں تنہا
بس سٹاپ پر
ہر آتی جاتی بس کا نمبر نوٹ کر رہا ہوں
پولیس کا سپاہی نہیں
کوئی واہی تباہی نہیں
سوچتا بس اتنا ہوں
 کاش میں بس ڈرائیور ہوتا
اپنی پیاری کے پاس تو رہتا
یا تیرے محلے کا چوکیدار ہوتا
یا علاقے کا تھانیدار ہوتا
کسی نہ کسی بہانے پر
کبھی آنے پر کبھی جانے
پر کم از کم تجھے سیٹی ہی مار سکتا
 تجھے دیکھ کر یہ پکار سکتا 
تیری بے ہودگی کی قسم 
کوئی کزنؔ سے بھی اتنی بے اعتناعی کرتا ہے؟؟