March 7, 2013

ہم سفر "نہیں" چاہیے

hum safar nahee chahiye

اب تک میں سمجھتا رہا ہوں کہ میری جان صرف بھونکتے کتوں اور شراب پیے آدمیوں سے نکلتی ہے لیکن اب احساس ہوا ہے کہ وہ بندہ بھی اتنا ہی خطرناک ہے جو دوران سفر بولنے کے مرض میں مبتلا ہو۔

ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ جان پہچان والے سے کم کم بات کرتے ہیں کجا انجان آدمی سے بات کرنا۔ اب ہماری طبعیت ایسی شرمیلی ہے کہ کسی کو یہ بتاتے شرم آتی ہے کہ پی ایچ ڈی کر رہا ہوں کہ اگلا سمجھے کا اویں ہی شیخی بگاڑ رہا ہوں۔ اب اگر آپ کیا کرتے ہیں کایہ جواب نہ دیا جائے تو اور کیا دیا جائے۔لیکن پھر آگے یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ یورپ سے کر رہا ہوں یورپ میں ایسٹو نیا سے کر رہا ہوں اور ایسٹونیا کا محل و وقوع کیا ہے اور وہاں ہی کیوں گیا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ اگر جھوٹ بولوں تو بھی شرم کی بات ہے کہ ایک تو ویسے ہی چھوٹ بولنا گناہ ہے دوسرا پہلے کیا کم جھوٹ بول رکھے ہیں زندگی میں جو مفت میں اور بولیں اور تیسرا یہ بتانا بھی باعث شرمندگی ہے کہ کچھ نہیں کرتا پھر کچھ کرنے پر لیکچر سننا پڑے گا۔ 

مجھے یاد نہیں کہ کبھی کسی ہم سفر سے دوران سفر بات کی ہو اور کی بھی ہو تو اس کو طوالت دی ہو۔ ایک بار ریگا سے استنبول آتے ساتھ بیٹھی دو لڑکیوں کی باتیں سنیں تو پتہ لگا کہ وہ ایسٹونین بول رہی ہیں۔ خوشگوار سی حیرت ہوئی کہ دنیا میں فقط پندرہ لاکھ افراد ایسٹونین بولتے ہیں اور اندھی کانی ہم بھی ایستی کیلت (ایسٹونین زبان کا مقامی نام) مار لیتے ہیں۔ جہاز اترنے سے ذرا قبل ہی پوچھا کہ" آپ ایسٹونیا سے ہیں"؟
انہوں نے پوچھا کہ "آپ کو کیسے پتہ"؟
تو میں نے جواب دیاکہ "آپ ایسٹونین جو بول رہی تھیں"۔
اس سے پہلے کہ وہ ہم سے پوچھا جانے والا سب سے زیادہ سوال پوچھتیں کہ میں ایسٹونیا کیسے آگیا میں نے کانوں پر ہیڈ فون چڑھائے، خواتین جیسی مخلوق کو چھیڑ کر چپ ہونے پر مجبور کر کے گانے سننے لگ گیا- لیکن جن لوگوں کو دوران سفر گفتگو کی لت ہو آپ ان کے سامنے لاکھ کوشش کر لیں انکو جواب تو دینا ہی پڑے گا۔ تاوقتیکہ آپ بدتمیز بن کر کہہ دیں کہ بس بھئ بس زیادہ بات نہیں بھائی صاحب۔ 

میرے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں اونچا سننے کا عادی ہوں- مجھے انتہائی غصہ آتا ہے جب کوئی مجھ سے ہلکی آواز میں بات کرتا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو فون پر اتنی ہلکی آواز میں بول رہے ہوتے ہیں کہ ساتھ بیٹھا بندہ بھی ککھ نہ سمجھ پائے۔ پر اصل کمال انکا نہیں ہے جو لڑکے لڑکیاں ہلکی آواز میں بولتے ہیں بلکہ اصل کمال تو انکا ہے جو انکی سرگوشی سمجھ بھی لیتے ہیں۔

حالانکہ ہم جانتے ہیں کسی بھی انگریز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا آسان ترین طریقہ ہے کہ آپ اردو لکھنا شروع کر دیں گے وہ تجسس کے مارے خود ہی آپ سے ہمکلام ہو گا۔ تو ایسے ہی جب جب خواتین میری ہمسفر ہوئی ہیں میری اردو دیکھ کر وہ اسکو کوئی نئی قسم کا آرٹ سمجھ کر مجھے سے گفتگو کر چکی ہیں لیکن بات میں نے کبھی ایک آدھ جملے سے آگے نہیں بڑھنے دی کہ ایک تو انگریزی نہیں آتی لہذا بولنا نہیں دوسرا دوران سفر ہمارے پچاس فیصدی کام کرنے والے کان رہے سہے پچاس فیصدی بھی چھٹی کر جاتے ہیں لہذا سننا بھی نہیں۔ اور لڑکیوں کا تو نخرہ ہی یہی ہے کہ اتنا ہلکا بولیں کہ خود انکو بھی سمجھ نہ آئے کہ کہا کیا ہے۔ اور پھر ہم اپنے ہر سفر میں اتنے بلاگ لکھ لیتے ہیں کہ اگلے سفر تک کام نکل جاتا ہے تو اگر کوئی اونچا بولنے والی مل بھی جائے تو غپ بازی ہی ہوگی بلاگ کا تو پھر اللہ مالک ہے۔

 لیکن معاملہ جب اپنے ہموطنوں کا آتا ہے تو معاملہ ٹھپ ہوجاتاہے۔ ایک تو ان کے سامنے لکھتے ویسے ہی شرم آتی ہے کہ وہ کہیں گے اتنا شوخا اور پھر جتنی کوشش کرلیں ان کو چپ کرانا ناممکن ہے۔

 ابھی آخری بار پاکستان آتے ہوئے ایسے ہی ایک انکل میرے ساتھ والی نشست پر تشریف فرما تھے۔ حالانکہ میں عقلمند کو اشارہ دکھاتے ہوئے بیٹھتے ہی کانوں پر ہیڈفون چڑھا کر آنکھیں موند لیں کہ بھائی ہمارا بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن باتونی عورت کو چپ کرانا آسان ہے، کمنٹیٹر کو خاموش کرایا جاسکتا ہے، سیاستدان کو تقریر کرنے سے روکا جاسکتا ہے، شاعر کی غزل سے نجات میسر ہے لیکن ہم سفر کی باتوں سے فرار ناممکن ہے جب تک کہ جیسا پہلے لکھا آپ منہ کو نہ مل لیں کہ بھائی صاحب گھر میں کوئی نہیں سنتا آپکی جو میری شامت آئی ہے۔

برا ہو اپنی شرافت کا کہ انکل نے چھوٹتے ہی پوچھا" لاہور جا رہے ہیں"؟
 جی تو چاہا کہہ دوں "ارے انکل یہ جہاز تو کراچی جا رہا ہے آپ غلط جہاز پر بیٹھ گئے"، لیکن ایک کان سے ہیڈفون کی ٹونٹی نکال کر پوچھا "جی کچھ کہا آپ نے"؟
اپنی طرف سے تو بات ٹالی تھی میں نے لیکن انکے نزدیک وہ معاملے کا آغاز تھا اور انہوں نے گفتگو کا آغاز کر دیا جس میں میرا حصہ اچھے سامع کا سا اور جہاں جہاں وہ سانس لینے کو رکیں انکی تائید کرنے کا تھا۔ انکے سوال پوچھنے کا انداز یوں تھا کہ وہ موضوع چنتے، سوال پوچھتے پہلے خود جواب دیتے پھر میرا جواب سن کر اس پر تبصرہ بھی فرماتے۔اسی گفتگو کے دوران انہوں نے اخبار بھی پڑھ ڈالی اور میں نے حالات حاضرہ اور سیاست پر گفتگو سے بچنے کو اخبار پڑھنے سے صاف انکار کردیا لیکن انکل کی گفتگو کے جہان اور بھی تھی اور ہمارے سفر کےامتحان اور بھی تھے۔

انکل نے گفتگو کا رخ جرمنی کی طرف موڑ دیا کیونکہ وہ ایسٹونیا کو جرمنی کا صوبہ سمجھ رہے تھے اور میں نے کافی کوشش کی کہ انکو سمجھا سکوں کہ یہ آزاد ملک ہے لیکن انکو ایسٹونیا کی جغرافیائی حیثیت سمجھانے کی کوشش رائیگاں گئی اور وہ مصر رہے کہ ایسٹونیا جرمنی کا صوبہ ہے۔انکل فرمانے لگے کہ "جرمن دو چیزیں نہیں چھوڑ سکتا فٹ بال اور تیز رفتار کار چلانا"۔
اگرچہ ہمارے خیال میں جرمن انتہائی منظم، تمیزدار اور قانون پر عمل کرنے والے لوگ ہیں لیکن ہم سمجھے انکل شاید فراری اور فارمولا ون والے مایکل شوماکر اور سباسٹین فیٹل کی مناسبت سے کہہ رہے ہیں تو ہم بات پی گئے لیکن انکل نے بس نہ کی اور بولے" جرمنی مجھے بڑا پسند ہے اگر کبھی موقع ملا زندگی میں تو جرمنی ضرور جاؤں گا"،
 میں انکے خیال کی تائید کرسکتا اس سے قبل ہی وہ بولے" جرمن عوام اپنی حکومت سے کہتے ہیں کہ جو مرضی قانون بنا لو لیکن ایک فٹ بال پر پابندی نہ لگاؤ اور ایک سڑکوں پر کوئی حد رفتار مقرر نہ کرو،اسی لیے وہاں سڑکوں پر کوئی حد رفتار مقرر نہین جتنا مرضی آئے بھگاؤ"۔
 ہیں!!!
 میں چونک گیا بات ہضم کرنا مشکل تھی۔میں نے کہا" انکل جی میرے خیال میں تو یہ دبئی والی شیخ زاید روڈ پر 140 کی رفتار دنیا کی تیز رفتار سڑکوں میں سے ایک ہے"۔
لیکن انکل اپنے موقف پر قائم رہے بولے "پھر آپ نے غور نہیں کیا ہوگا وہاں کوئی حد نہیں اور اگرحد رفتار مقرر کردیں تو بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز اور واکس ویگن کا کیا فائدہ رہ گیا"؟
 گویا یہ کاریں سواری کے لیے نہیں بلکہ ریس لگانے کو بنائی جاتی ہیں اور انکل کی اپنی سوچ کے مطابق جرمنی میں رہنا والا بندہ نہیں جانتا تھا انکل جانتے تھے۔
اسپیڈ لمٹ

اب بندہ کیا جواب دے میں نے بےلذت ہو کرکہا "انکل آپ ٹھیک کہتے ہوں گے اب جاؤں گا تو غور کروں گا"، بات ختم کردی لیکن انکل کی گفتگو ختم نہ ہوئی ادھر میرے کانوں نے مزید ہلکی آواز میں سننے سے انکار کر دیا اور انکل کی کی جانے والی باتوں پر جو میرے کانوں میں پہنچنے سے پہلے ہی کہیں کھو جاتی تھیں پر میں نے اپنا پرانا فارمولا لگایا کہ ہلکا ہلکا مسکرا دیا جائے کہ بندہ بار بار اونچا بولنے کا کہے یا "جی "؟ "کیا کہا"؟ کہتا بھی برا لگتا ہے۔ مسکراہٹ سے بندہ سمجھتا ہے کہ شاید بات کی تائید کی گئی ہے اور سنے بغیر ہی کام چل جاتا ہے۔ لیکن جب انکل نے ایک سوال کیا تو میں سمجھا انکل نے کوئی نئی تھوری پیش کی ہے اور میں نے سمجھے بغیر ہی مسکراہٹ دکھائی کہ آپ نے بجا فرمایا ۔انکل نے سوال دوہرایا اور میں نے مسکراہٹ دوہرائی۔انکل سمجھے کہ لڑکا کمینگی پر اتر آیا ہے اور انہوں نے اترتے وقت تک پھر بات نہیں کی۔ہم نے سکون سے کانوں میں ٹونٹیاں لگائیں اور موسیقی کی حرام کاری کرنے لگے ۔لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہم نے انکل سے کوئی بری نہیں کی ہم تو مسکرا بھی انکل کا دل رکھنے کو رہے تھے۔