March 19, 2013

جرمنی میں جلسہ اور جلوس-سفرنامہ اشٹوٹ گارٹ

Germany main jalsa aur jaloos-safarnama stuttgart

ویسے تو ہمارا بڑے ترقی یافتہ شہروں سے علاقہ، علاقہ غیر رہا ہے کہ وہاں ماسوائے بے ڈھنگی بلند و بالاعمارات اور خود میں مگن روکھے سوکھے لوگوں (وہ بھی جرمن) کے علاوہ ہوتا کیا ہے لیکن والد صاحب کے حکم پر ان کے دوست کو کمپنی دینے کے لیے ہم نے جہاز سے چار گنا سستی بس کی ٹکٹ خریدی، جس میں پیسے بھی بچ رہے تھے، پندرہ بیس شہروں میں اسٹاپ بھی تھا اور میرے پسند کے قدرتی مناظر الگ۔ جب اشٹوٹ گارٹ Stuttgart چوبیس گھنٹے کے سفر کے بعد وارسا Warsaw سے بس پر پہنچے تو ہماری میزبان اور دبئی والے مہمان ہمیں لینے بس اڈے پر موجود تھے- اشٹوٹ گارٹ مغربی جرمنی میں واقع چند انتہائی ترقی یافتہ اور امیر شہروں میں سے ایک ہے۔ چوبیس گھنٹے کا سفر پولش لوگوں کے ساتھ گزار کر تشریف کا شکریہ تو ادا جو ہونا تھا سو ہونا تھا دماغ کا شکریہ بہرحال ادا ہو چکا تھا۔ اس سفر کے دوران ہم پر یہ راز کھلا کہ پولوں کے ساتھ سفر کرنا ہو تو مفلر کے بغیر ناممکن ہے۔ پولوں کی دو خوبیاں تب ہی آشکار ہوں گی جب آپ ان کے ساتھ وقت گزاریں کہ ایک تو پتا نہیں بچپن میں کاؤ بوائے فلمیں دیکھتے رہے ہیں جو جا بجا تھوک پھینکتے رہتے ہیں دوسرا ان کا بس لگے تو غسل خانوں میں بھی بئیر استعمال کریں۔ جہاں جہاں بس رُکتی تمام مرد و خواتین لڑکے و لڑکیاں با جماعت بئیر پی کر واپس آجاتے اور اگلے سٹاپ تک ہمارا سانس لینا محال ہوجاتا۔ جب اشٹوٹ گارٹ اترے تو دماغ ایسے چکرا رہا تھا جیسے کسی ایسی ویگن میں سفر کرنا پڑ گیا ہو جہاں تین چار خواتین بیک وقت قے کر رہی ہوں۔

 اپنی میزبان کے گھر نہ ٹھہرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہمیں ایمان کا خطرہ تھا۔ ایمان تو ہم یورپ میں پہنچ کر پاکستان سے لانے والے سوٹ کیس میں تالا لگا کر رکھ دیتے ہیں کہ کہیں اوپر نیچے نہ ہوجائے، اتنے کام کی چیز ہے کھو جائے تو بندہ تو گیا ناں کام سے۔ بلکہ اس وجہ سے نہ رہے کہ ان کے گھر میں فقط ایک بندے کو ٹکانے کی جگہ تھی جب کہ ہم دو تھے یعنی میں اور والد صاحب کے دوست۔ اب پاکستان تو تھا نہیں کہ یار تو چادر پھیلا کر نیچے سو جا میں صوفے پر سو جاتا ہوں۔ تو انہوں نے اشٹوٹ گارٹ سے ذرا باہر جہاں وہ رہتی تھیں میں واقع ایک ہوٹل میں ہماری رہائش کا انتظام کر رکھا تھا۔

 ویننڈن Winnenden میں واقع اس ہوٹل کی ریسپشنسٹ کم ویٹرس کم ایڈمنسٹریٹر گھنگریالے بالوں اور لمبے قد کی مالک خوش اخلاق لڑکی تھی جس کو ہم پہلی نظر میں ہی دل دے بیٹھے اور شکر ہے کہ ایمان وارسا ہی رکھ آئے تھے ورنہ قوی امید تھی کہ ایمان بھی دل کے ہمراہ اس کافرہ کو دے بیٹھتے۔ اور باقی تمام چار دن اس کو دیکھ کر آہیں بھرتے رہے اور اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کر کے دل کو خوش کرتے رہے۔

یورپ میں کسی بھی شہر میں جائیں دو جگہیں ہی دیکھنے کی ہوتی ہیں اولڈ ٹاؤن یعنی اندرون شہر اور سٹی سنٹر۔ پر ہماری پہلی ترجیح چڑیا گھر ہوتی ہے۔ یہاں کا چڑیا گھر جس کا نام ویلھیلما ہے کسی زمانے میں بادن Baden کی ریاست کا شاہی محل تھا اور چونکہ یورپ میں جانور اور پودے قابل دید ہیں تو انہوں نے اس کو چڑیا گھر اور نباتاتی گھر میں تبدیل کر دیا اور یہ یورپ کا سب سے بڑا مشترکہ جانوروں اور پودوں کا مقام ہے۔ اگر یہ ہمارے ہاں ہوتا تو چونکہ ہم انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور ہمارے ہاں انسان ہی قابل دید شے ہے تو یہ اگر گورنر گھر یا وزیراعلی گھر نہ ہوتا تو کم از کم ریلوے کے کسی افسر کا گھر ضرور ہوتا۔ چڑیا گھر میں مختلف پودوں اور جانوروں کے لیے مختلف درجہ حرارت کا انتظام کیا گیا تھا مثلاً ایمزان ، استوائی اور صحرائی خطوں کے لیے ویسے ہی موسم کا انتظام کیا گیا تھا۔ پنگوئن سڑکوں پر پھر رہے تھے تاہم سب سے مزیدار اود بلاؤں کا مظاہرہ تھا جنہوں نے طرح طرح کے کرتب دکھا کر ہمارا دل جیت لیا اور ہمارا دل اس بہاولپور والے اود بلاؤ کی ہمدردی سے بھر آیا جس کے پنجرے کے پاس سے بو کی وجہ سے گزرنا محال تھا۔

 ہمیں ذاتی طور پر کاروں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں، ہمیں وہی کار اچھی لگتی ہے جو ہمارے پاس ہو لیکن میزبان کے خاص اصرار پر مرسیڈیز کے میوزیم میں بھی گئے جو کہ واقعی قابل دید ہے۔ کاروں کی تو ہمیں سمجھ نہیں لیکن عمارت خاصی خوبصورت تھی اور تاریخ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جنگی طیاروں کے انجن بنانے کےبعد ہمت ہارنے کی بجائے گاڑیاں بنانی شروع کیں اور آج جہاں ہیں وہ ہر کوئی جانتا ہے۔

 اب اشٹوٹ گارٹ جاتے اور اشٹوٹ گارٹ فٹ بال کلب کی سیر نہ کرتے یہ تو ممکن ہی نہیں تھا لہٰذا ہم نے اپنے دیکھے گئے فٹ بال اسٹیڈیمز کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ کیا تاہم ابھی تک ہم کسی بھی اسٹیڈیم میں فٹ بال کا میچ اور اپنے پسند کے فٹ بال کلب ریال میڈرڈ کا اسٹیڈیم ابھی بھی نہیں دیکھ سکے۔

ویسے تو ہم نے یورپ میں پہلا قدم ہی فرینکفرٹ Frankfurt جرمنی میں رکھا تھا اور میونخ Munich بھی گھوم چکے ہیں وہی مجید امجد والا میونخ کہ" میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے" لیکن ایک تو وہ دونوں چکر ذرا مختصر رہے اور دوسرا تب ہم ذرا نا تجربہ کار تھے البتہ اشٹوٹ گارٹ میں ہم نے نا صرف چار دن قیام کیا بلکہ اب کی بار ہم نے تفصیلی جائزہ لیا۔ جس سے یہ بات آشکار ہوئی کہ جرمنی دراصل خاندانی ملک ہے جبکہ اکثر یورپی ممالک نودولتیوں سے ہیں جن کو نئی نئی دولت (آزادی) ملی ہے اور وہ ان سے ہضم نہیں ہو رہی۔ تاہم سنا ہےمشرقی جرمنی کا حال ذرا مختلف ہے۔ مغربی جرمنی کے لوگ اور ان کا رہن سہن انتہائی مہذب ہے۔ آپ کو سڑکوں پر کوئی ٹن نہیں ملے گا، کھلے عام فحاشی کے مناظر بھی خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پڑھے لکھے اور خود تک محدود لوگوں کا معاشرہ ہے اور واقعی ترقی ان کو جچتی ہے۔

 پاکستان میں جہاں دس بارہ بندے اکٹھے ہوئے وہاں معاملہ جلوس کا بن جاتا ہے۔ جلسہ جلوس ہو اور توڑ پھوڑ نہ ہو تو ایسے جلسے کی خبر چھپوانے کے لیے صحافیوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ اتفاق سے ہمارے وہاں سیر کرنے کے دوران ہم نے دیکھا کہ گروہ کے گروہ لوگ ایک طرف جا رہےہیں۔ تفصیل پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ ایٹمی ری ایکٹر بند کرنے اور ایٹمی توانائی ترک کرنے کے حق میں جلسہ کیا جارہا ہے کہ جاپانی سونامی کے بعد جرمن عوام چاہتی ہے کہ جرمنی ایٹمی سرگرمیاں بند کردے کہ کوئی ایسا حادثہ جرمنی میں نہ ہوجائے۔ یہ سن کر ہماری ہنسی نکل گئی اور ہمیں بتانے والا حیرانی سے دیکھنے لگا کہ ہم کیوں ہنس رہے ہیں۔ اب ہم کیا بتاتے ایٹم بمپ ہمارے ملک میں کتنی اہمیت رکھتا ہے اور جو کوئی ایٹم بمپ پر لطیفہ بھی بنائے وہ غدار کہلاتا ہے۔ بہرحال ہم بھی جلسہ دیکھنے چل پڑے کہ ہم بھی دیکھیں توڑ پھوڑ کیسے کی جاتی ہے لیکن ہمیں انتہائی مایوسی ہوئی کہ وہ جلسہ کم اور میلہ زیادہ لگ رہا تھا۔ پیلے رنگ کے بینر اور جھنڈے اٹھائے لوگ دور دور سے سٹی سنیٹر پہنچے تھے اور وہاں پر ایک موسیقی کا کنسرٹ منعقد کیا گیا تھا اور لوگ ناچ گا کر گھر واپس چلے گئے۔ ہمیں جلسے کے شرکا کی نااہلی پر انتہائی افسوس ہوا تاہم اس سے بڑی نا اہل ہمیں حکومت لگی جس نے ایسے جلسے پر سنجیدگی سے غور کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔

 جلسے میں چار خواتین پولیس اہلکار تعینات کی گئی تھیں جو جب باری باری گھوڑے پر سوار ہو کر گشت کرنے چلتیں تو ان کی مردانہ وجاہت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی اوران کو دیکھ دیکھ خطرہ پیدا ہوتا تھا کہ کوئی ہم جیسا کمزور دل کا مالک چور خود ہی پیش ہو کر نا کہہ بیٹھے" بی بی فلاں چوری میرے سے سرزد ہوئی تھی۔ ہاتھ پیش ہیں ڈال دو ہتھ کڑیاں "اور کوئی بعید نہیں وہ بے رخی سے کہتیں جاؤ آج وقت نہیں ہمارے پاس پھر کسی روز آنا۔

تین چار سال قبل اشٹوٹ گارٹ کے موجودہ اسٹیشن کو گرا کر نیا ریلوے اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس سے ٹرین کا سفر بھی کچھ کلو میٹر کم ہونا تھا تاہم جب اس کو گرانے کا مرحلہ آیا تو عوام نے اس کی مخالفت کرنا شروع کر دی کہ ایک تو مفت میں عوام کے ٹیکسوں کا ضیاع کیا جارہا ہے دوسرا پرانا اسٹیشن بذات خود یادگار ہے تیسرا اس منصوبے میں اتنے قدیم اور پرانے درختوں کو گرایا جائے گا جو کہ ناقابل قبول ہے۔ کئی لوگوں نے مستقل وہاں پر ہی ڈیرہ لگا لیا اور جب ہم وہاں گئے تو درخت رنگ برنگی جھنڈیوں، ربن اور کپڑوں سے سجے تھے اور کئی خیموں میں مقیم افراد منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے جبکہ میئر صاحب چیخ رہے تھے کہ پہلے ہوش نہیں آیا آپ لوگوں کو اب جب کمپنی کو پیسے دے دیے گئے آپ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ کہاں کی شرافت ہے۔ تاہم میئر صاحب کی محنت کام آئی اور 2011 میں کیے گئے ریفرنڈم میں 58 فیصد لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دے دیے اور یہ منصوبہ تمام تر مخالفت کے باوجود تکملیل پذیر ہوچکا ہے۔

جرمنی میں اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو وہ میرے والد صاحب کے دوست تھے جو دبئی سے تشریف لائے تھے اور ان کو چھو کر بلانے یا بات کرنے کی عادت تھی جب کہ جب ہم یورپ پہنچے تو جو پہلے سبق ہمیں سکھائے گئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اپنے دوستوں کو چھونا نہیں ہے کہ صرف ہم جنس پرست ایسا کرتے ہیں لہٰذا اگر آپ پاکستان والی روش یعنی کندھے پر ہاتھ رکھنا ، ہاتھ پکڑنا یا بازو ہلا کر بلانا پر قائم رہے تو دیکھنے والےآپ کو ہم جنس پرست سمجھیں گے اوروالد صاحب کے دوست نے ان چار دنوں میں مستقل ہمارے صبر کا امتحان لیے رکھا اور ہم بھی چپ کر کے برداشت کر گئے کہ چار دنوں کا معاملہ ہے بندے آ برداشت کر تاہم ہم بازار میں یا عوامی جگہوں پر ان سے اتنا فاصلہ ضرور رکھتے کہ وہ پہلی کوشش میں ہمیں چھو نہ سکیں اور یہ آنکھ مچولی اس سفر میں جاری رہی۔

جب ہم واپس جانے لگے تو ہماری آنکھیں بھر آئیں جس پر ہماری میزبان بھی آبدیدہ ہوگئیں کہ کتنا محبت کرنے والا بچہ ہے لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ ان سے جدائی کے آنسو نہیں تھے بلکہ پولوں کا تختہ مشق بننے کا سوچ کر ہی امڈ آنے والے آنسو تھے۔ لیکن کیا کیا جاسکتا تھا کہ واپس تو جانا ہی تھا ہم بس میں سوار ہوگئے اور تمام راستہ گنگناتے گئے کہ میرا دل ہے کہ روسیوں کے زیر قبضہ شہر وارسا ہے کہ روتا ہی جا رہا ہے کیونکہ وہ پولش پولش نہیں جو پیئے نا اور تھوکے نا۔ اور ہم جہاز کی ٹکٹ سے بچائے گئے پیسے چوبیس گھنٹوں پر تقسیم کرنے لگے۔

اگر آپ تصاویر دیکھنا چاہتے ہیں تو لنک درج زیل ہیں

اشٹوٹ گارٹ ، قدیم شہر، فٹ بال کلب اور چند ایک جلوس کی

اشٹوٹ گارٹ چڑیا گھر و نباتاتی باغ

مرسیڈیز بنز میوزیم