March 1, 2013

مادری زبانیں

madri zabanain

ہر سال 21 فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یوں تو میری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن میں قومی زبان اردو کو قومی مادری زبان اور سرائیکی کو علاقائی مادری زبان سمجھتا ہوں اور ان دونوں زبانوں سے اتنی محبت ہے کہ میں رہ نہ سکا اور اس سلسلے میں ایک مضمون پیش خد مت ہے جس کو طلبا امتحان میں لکھ کر خاطرخواہ نمبر بھی لے سکتے ہیں اور فارغ العقل معاف کیجیے گا فارغ التحصیل و فارغ الضلع پڑھ کر عش عش بھی کر سکتے ہیں۔

 میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ الحمدللہ میں بڑی خوش اسلوبی سے اسے بول سکتا ہوں اس لیے مجھے اس کو سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مجھے نہیں پتہ کہ سرائیکی کے کتنے حروف تہجی ہیں۔ سرائیکی پڑھنی پڑ جائے تو ایسے پڑھتا ہوں جیسے انگریزی میڈیم اسکولوں کالجوں والے اردو پڑھتے ہیں۔ یورپ والوں کا پاگل پن دیکھیں کہ ان کے ہر طالب علم کو ایک تو ہر مضمون اپنی مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے جب کہ اس کے علاوہ اسے یورپ کی ایک زبان اور سیکھنی ہوتی ہے تاکہ مختلف علاقوں والے دوسری جگہ جا کر اجنبیت محسوس نہ کریں۔ اس کے بر عکس ہم نے اپنے بچوں پر انتہائی کم بوجھ ڈالا ہے اور اسی رفتار سے چلتے رہے تو عنقریب اردو سے بھی جان چھوٹ جائے گی کہ انگریزی نہ صرف بین الاقوامی زبان ہے بلکہ ہر طرف اس کا دور دورہ ہے۔ انگلینڈ اور امریکہ کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے۔ ہمارے صاحب لوگوں کے صاحب لوگ جو کہ امریکی ہیں یا برطانوی، انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے صاحب لوگ بھی دوران گفتگو انگریزی ہی استعمال میں لاتے ہیں لہٰذا انگریزی سیکھنا لازم ہے نہ کہ اردو، جب کہ سرائیکی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو وغیرہ تو دور کی بات رہی۔


ماں بولیاں بھی ہماری ماؤں کی طرح ظلم کا شکار رہی ہیں۔ جیسے خواتین کو اب بھی اکثر گھروں میں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا ہے لہٰذا ایسے ہی ماں بولی کو بھی اسی سے ملتی جلتی شے سمجھ کر اس سے خوب بے اعتنائی کی گئی۔ بجائے اس کے کہ ہماری تعلیم مکمل اردو میں ہوتی اور میٹرک تک کم از کم ایک علاقائی زبان بھی پڑھ لیتے ہم نے سب کچھ انگریزی کے ذمے ڈال دیا۔ شروع میں جب تعلیم اردو میں ہوتی تھی اور انگریزی میڈیم کی بیماری عام نہیں ہوئی تھی تب بھی ہماری دور اندیش حکومتوں نے اسکول میں عربی اور فارسی پڑھانے کا انتظام تو کر رکھا تھا لیکن ہماری اپنی علاقائی زبانیں تب بھی یتیمی کا شکار ہی تھیں۔ کچھ مضمون جو اُس زمانے میں اردو میں پڑھائے جاتے تھے آہستہ آہستہ وہ بھی انگریزی میں واپس آگئے۔ سندھ میں تو چلو سندھی پڑھائی جاتی ہے جب کہ پنجاب میں سرائیکی اور پنجابی بی اے میں اچھے نمبر لینے کا بہانہ بن کر رہ گئی ہیں۔ گویا ہم نے پڑھائی کے آخری مرحلے پر مادری زبان شامل کردی ہے کہ بی اے میں پنجابی، سرائیکی رکھ کر اچھے نمبر لو اور ایم بی اے میں داخلہ لے لو ۔

کسی کا کہنا ہے آج تک کوئی ایسی قوم نہیں جس نے اپنی زبان چھوڑ کر دوسری زبان میں ترقی کی ہو تو ایسے لوگوں سے عرض ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ اب دنیا گلوبلائز ہوچکی ہے اب شیدے تیلی سے لے کر سیٹھ عاشق بوتل والا تک سب فیس بک استعمال کر رہے ہیں اور فیس بک ہے ہی انگریزی میں۔ دوسرا اب تک کتنی قوموں نے ترقی کی ہے تو اس لحاظ سے تو قومی زبان کو اپنانا گھاٹے کا سودا ہوا کہ بھائی ترقی نہ ہوسکی تو غلامی سے بھی گئے۔ اور ہم نے بھی تو اچھی خاصی ترقی کر لی ہے، اب امریکہ یا چین تو نہ بن جائیں۔ لیکن ایک بات بتائے دیتے ہیں کہ انہوں نےاردو اور علاقائی زبانیں آپ کو سکھائی نہیں اور آپ کو انگریزی بھی اتنی نہیں سکھانی کہ آپ ان کے بچوں سے آگے نکل جائیں۔ اگر سب فر فر انگریزی بولنے لگ گئے تو صاحب لوگوں کی اگلی نسل کا کیا ہوگا؟؟ آپ میں اور ان میں فرق کیا رہ گیا؟؟

 ویسے تو مادری زبانوں کے بڑے فوائد ہیں۔ سب سے پہلا تو یہ کہ ہمیں اور زبانوں کی گالیاں سیکھنی نہیں پڑتیں بلکہ کئی لوگ تو انگریزی بولتے بولتے گالی دیتے ہی پھسل کر پنجابی پر آجاتے ہیں بشرطیکہ گالی جاندار بکنی ہو کہ ہمارے ہاں بعض گالیاں ایسی پائی جاتی ہیں کہ پتھر کو پانی کردیں۔ دوسرا زبانوں کی مدد سے صوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔حالانکہ پہلے صوبے انتظامی بنیادوں پر بنائے جاتے تھے لیکن جہاں انتظام نہ ہو وہاں انتظامی تقسیم کیسے ہو سکے گی۔ اس کے لیے آسان فارمولا اب زبانیں ہیں کہ سرائیکی صوبہ، پنجابی صوبہ، سندھی صوبہ، پوٹوھاری صوبہ، ہندکو صوبہ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری طرف ایک کہاوت ہے کہ ہر 70 کلو میٹر پر زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے اور اگر اس طرح ہوگیا تو پاکستان میں ہزاروں صوبے بن سکتے ہیں کہ ایک صوبہ، ایک لہجہ۔

 ماہرین لسانیات کو خطرہ ہے کہ دنیا سے کئی زبانیں ناپید ہونے جا رہی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان میں پاکستان میں بولی جانے والی کون سی کون سی زبانیں ہیں پر یہ بتایا ہے کہ پاکستان میں 70 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اگر وہ مہربانی کرکے اس زبان کا نام  بتا دیتے تو ہم اس زبان کی اذیت کم کرنے میں خاطر خواہ مدد فراہم کر سکتے تھے کہ ایک تو زبان کے ختم ہونے سے لسانیت کا زہر کم ہوگا دوسرا ایک نئے صوبے کی آواز ختم ہوگی اور تیسرا یارو ادھر ملک ختم ہوا جاتا ہے ان کو زبان کی پڑی ہے، اور زبان بھی کونسی علاقائی۔۔۔!!

ہمیں ذاتی طور پر زبانوں کے مستقبل مخدوش اور ان سے ہونے والے سلوک پر کوئی خاص اعتراض نہیں البتہ مشکل یہ ہوسکتی ہے کہ ہمیں سرائیکی گانے اچھے لگتے ہیں تو پھر ہمیں بے سُرے انگریزی گانے سننے پڑیں گے۔ ٹرکوں میں آپ  طالب حسین درد اورعطااللہ عیسیٰ خیلوی کے "تینوں لے کے جانا اے میانوالی" کی بجائے پسی کیٹ ڈال اور ایلیسا کیز کا "اووووو نیویارک" چلتے دیکھیں گے، کاروں میں نرگس کے مجروں کی بجائے شکیرہ کے بیلی ڈانس کی سی ڈیاں دیکھنے کو ملیں گی اور ہم بلاگ کیسے لکھیں گے کہ مادری زبان میں آزادی اظہار بہتر انداز سے کیا سکتا ہے اور جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہم تو اپنی مادری زبان اردو اور سرائیکی کو بیک وقت مانتے ہیں۔ ویسے تو ہم اظہار انگریزی میں بھی کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اظہار بعض اوقات ہمیں بھی سمجھ نہیں آتا کہ یہ اظہار ہے یا اظہار قاضی؟ ہم خود سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم دراصل کہنا کیا چاہ رہے ہیں، لہذا نہ صرف عطا اللہ، طالب حسین درد اور نرگس کے لیے بلکہ ہمارے بلاگ کی بقا کے بھی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی مادری زبانوں سے محبت کرتے رہیں اور اسی میں پڑھنا، لکھنا، سننا، دیکھنا سیکھیں۔

کہتے ہیں کہ سرائیکی زبان کی بنیاد میں چند افریقی زبانیں بھی شامل ہیں۔ ویسے ملتان اور بہاولپور کی گرمی کو دیکھتے ہوئے یہ واقعی کسی افریقی علاقے سے بچھڑا ہوا علاقہ ہی لگتا ہے۔ اور لوگوں کی رنگت دیکھ کر بھی یقین آتا ہے واقعی بنیاد میں کسی افریقی قبیلے کا ہی ہاتھ ہے۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق بچے روتے بھی اپنی مادری زبان میں ہیں۔ تو اگر ہمارے بلاگ پر "اوں اوں اوں" یا "بھاں بھاں بھاں" لکھا نظر آئے تو یہ نہ سمجھیں کہ کچھ اول فول لکھ دیا ہے بلکہ آپ کو اس کا سمجھ نہ آنے کا باعث یہ ہے کہ آپ سرائیکی نہیں جانتے اور ہم سرائیکی میں رو رہے ہیں۔

 سرائیکی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو نہیں سکھانا چاہتے تو اس کو ٹالنے کا انتہائی آسان طریقہ ہے کہ اس کو کہیں کہ وہ بولے "ڈو آنے دی ڈہی"(اردو :دو آنے کی دہی)۔ سرائیکی میں پانچ آوازیں ایسی ہیں جو سندھی کے علاوہ  اس خطے میں کسی اور زبان میں نہیں۔ جیسے کہ....
 ٻ۔ ڄ ۔ ڳ۔ ݙ۔ ݨ
تو کوئی مائی کا لعل نہ " ݙ "  ادا کرسکے گا نہ آپ کو سکھانا پڑے گا اور آپ پہلے جملے میں ہی اگلے کو کہہ سکتے ہیں کہ بھائی آپ نہیں سیکھ سکتے سرائیکی۔

 بھائیو انگریز (یورپی اقوم) پاگل ہیں عجیب عجیب تحقیقیں کرتے رہتے ہیں۔ لاکھوں کروڑں خرچ کر کے ہماری زبانیں سیکھتے ہیں۔ اب یا تو یہ پاگل پن ہے یا وہ ہماری جاسوسی کرنے کے لیے سیکھ رہے ہیں کہ ہم خود تو سیکھتے نہیں اپنی مادری زبانیں ان کو زیادہ تکلیف ہو رہی ہے۔ چلو خیر ہے ہم بھی بدلے میں انگریزی سیکھ جو رہے ہیں۔ ایسے اقدام رہے تو دیکھنا اگلے دس پندرہ سال میں پوری ایک نئی نسل گلابی انگریزوں کی تیار ہو گی جو حتیٰ المقدور انگریزی کی ٹانگ توڑے گی۔ باقی مادری زبانوں کا کیا ہے، امیروں کے بچے پل جاتے ہیں تو یتیم بھی جیسے تیسے جی لیتے ہیں۔ ہم نے اپنی مادری زبان سیکھ لی ہے تو ہمارے بچے بھی سیکھ ہی لیں گے ۔ اتنی پریشانی کی کیا ضرورت ہے....!!!