February 24, 2013

نئے لوگوں کو ووٹ کیوں نہ دیں-حصہ دوئم

Nae logo ko vote kiyon na dain-hissa doem

گھروں میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی تو خواتین پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گا
آج کل ایک بڑا مسئلہ گیس کی ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ہےلیکن اصل میں اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے اگر خدانخواستہ نئے لوگ آگئے اور ڈبل خدانخواستہ وہ اچھے بھی نکل آئے تو گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجانے کا امکان ہے جس سے سب سے بڑا نقصان خواتین کو ہوگا کہ انکو دوبارہ روز کھانا پکانا پڑے گا،کپڑے استری کرنے پڑیں گے ۔اب یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ شوہر تو بیٹھ کر ٹی وی کے چینل بدلتا رہے اور بی بی بیچاری باورچی خانے میں خوار ہوتی رہے۔اور جیسے ہی کھانا پکا کر فرصت ملی اب میاں کے اور بچوں کے کپڑے استری کرو۔اگر وہ تین وقت کھانا پکاتی رہی اور کپڑوں پر استری پھیرتی رہی  تو ڈرامے کب دیکھے گی؟ دو گھنٹے تو محض نہانے اور سرخی پاؤڈر پر نکل جاتا ہے، ہفتے میں چھ سات دن بیوٹی پارلر بھی جانا ہوتاہے، شاپنگ کا وقت علیحدہ نکالنا ہوتا ہے بیچاری کہاں تک تاب آئے۔ادھر شوہر صاحب صبح دفتر گئے اور شام کو وہاں سے گپیں ہانک کر آگئے اور لگے ٹی وی دیکھنے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔

 ویسے ہمارے ایسے شوہر جو رضاکارانہ طور پر کھانا پکانا کرتے ہیں (قسم سے ڈر تے نہیں ہیں بس محبت میں انکار نہیں کیا جاتا کہ وہ بھی تو ہمارے لیے قربانی دیتی ہیں کہ اپنے والدین چھوڑ کر ہمارے پاس آبستی ہیں) کے لیے تو موجودہ حکمرانوں کے لیے انگ انگ سے دعا نکلتی ہے کہ دفتر سے واپسی پر رات کا کھانا اور کل صبح کا ناشتہ بازار سے ایک ہی بار لیتے آتے ہیں ،کپڑے دھوبی کے ذمے لگ جاتے ہیں اور باقی صرف برتن دھونا رہ جاتا ہے۔اب اگر آپ لوگوں نے ایک بار پھر کرم فرمائی کردی تو انشاءاللہ پانی بھی۔۔۔۔

 پرانے امیدواروں کو ووٹ نہ دیے تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا۔
کسی کو بےروزگار کرنا اچھا نہیں کہ ان بیچاروں کو سیاست کے علاوہ کوئی اور کام نہیں آتا لہذا خاندانی سیاست کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ بیروزگاری پر کنٹرول رکھا جا سکے۔ذرا بیروزگاری کا انداذہ لگائیں۔بیروزگاری ایک عفریت کا روپ دھارتی جا رہی ہے۔ اب کسی طرح تو اس کو قابو کرنا ہے اور بیچارے اسمبلی اراکین کا کیا قصور ہے اور بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں کیوں نئے امیدواروں کو منتخب کرا کر ان کے رزق پر لات ماری جائے ۔ بلکہ ہماری تو تجویز ہے کہ جس رکن اسمبلی کے جتنے بچے ہوں اس حلقے کو اتنے مزید حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ سب کے سب کسی کام سے لگ جائیں اور جس کے بچے نہ ہوں یا ہوں اور سیاست میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں ایسے امیدواروں کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دینی چاہیے کہ ایک تو اس سے جمہوریت کا حسن متاثر ہوتا ہے دوسرا اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اراکین اسمبلی اپنے بچوں کے لیے دیگر جگہوں پر سفارش نہیں کریں گےاس سے ان کی بجائے عام یا خاص عوام کو بھی ملازمت کے مواقع ملیں گے اور اس طرح ہم بیروزگاری کے عفریت پر خاطر خواہ قابو پا سکتے ہیں۔

آبادی پر قابو
 اگر اچھے لوگ آ گئے اور انہوں نے اچھے کام شروع کردیے تو خطرہ ہے کہ جذباتی قسم کے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی واپس نہ آجائیں اور اگر وہ واپس آگئے تو ملک پہلے ہی آبادی کے ایٹم بم پر بیٹھاہے تو بہتر ہے پرانے بندے ہی منتخب کیے جائیں تاکہ پاکستانی باہر چاہے بیرہ گیری کر لیں اپنے ملک میں اپنا خود کا ہوٹل نہ کھولیں اور آبادی میں کسی طرح تو کمی ہو سکے-یقین مانیے پاکستانی آبادی کا علاج کسی کے پاس نہیں۔دن دوگنی رات چوگنی کی رفتار سے بڑھنے والی آبادی کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔یہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کا کہ ایسے اقدامات کیے رکھے کہ بندر کی بلا طویلے کے سر باندھی رکھی اور تمام قوم باہر جانے کے بخار میں مبتلا رہی ہے اور اب تو بخار نےسرسام کی شکل اختیار کر لی ہے۔اب اگر کچھ ایسے اقدامات لے لیے گئے جن سے باہر سیٹ (set) نہ ہونےوالے یا کچھ ملکی محبت میں مبتلا ہم سے کم عقل ملک واپسی کو پر تولنے لگے تو ہوگیا کام۔پہلے کم لوگ ہیں جو اوروں کو بلالیں ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھا جائے۔

 بیروزگاری پر قابو
نئے لوگ کے آنے کی صورت میں امن وامان بہتر ہونے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں موبائل بزنس سے منسلک اسٹریٹ کراائمرز اور ان سے خریدنے والے ہزاروں دوکانداروں کے بزنس ٹھپ ہونے کا خدشہ ہے ۔اسی طرح ہی ہزاروں افراد سے وابستہ بھتہ ، اغوا، ڈکیٹی کی صنعت کا کیا ہوگا؟ جیسا کہ ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ بیروزگاری کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش ہے اور نئے حکمرانوں کی آمد اس کوشش میں انتہائی دڑار ڈال سکتی ہے۔ہزاروں افراد جو براہ راست اس دھندےمیں ملوث ہیں اور ہزاروں افراد جو بالواسطہ طور پر کمیشن لیتے ہیں ایک ہی ہلے میں فارغ ہوجائیں گے جس سے معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا اور بطور معیشت دان ہم اس خطرے سےپہلے ہی آگاہکر رہے ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات بطور مشیر پیش کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے تجویز کنندہ عہدے کے لیے اور کوالیفائیڈ(over qualified) ہیں کیونکہ ہم میٹرک سے آٹھ دس جماعتیں آگے پڑھ چکے ہیں۔تاہم پھر بھی جو ہمارے بس میں ہو ہم قوم کی خدمت کے لیے حاضر کر سکتے ہیں۔

نئے سوراخ سے ڈنگنے سے پرھیز
 نئے لوگوں کا کیا پتہ انکو حکومت کرنی آتی بھی ہے کہ نہیں۔موجودہ لوگوں کا تو پتہ ہے ہمیں کہ انہیں نہیں کرنی آتی اور ان سے کچھ نہیں ہونا لہذا انہی پر اعتماد رکھا جائے۔ آزمائی شے تو ہے کم از کم۔ نئی چیز کی آزمائش کیوں کی جائے۔ بھائی سیدھی سی بات ہے۔ نئی چیز کا خطرہ ہی کیوں اٹھایا جائے۔ جیسے ایک سکھ کیلے کے چھلکے سے گرا تو اگلے روز کیلے کا چھلکا دیکھ کر بولا مر گئےآج پھر گرنا پڑے گا تو ایسے ہی ہمارا بھی فرض ہے کہ کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر ہم بھی گر پڑیں بلکہ کہیں دور پڑا تو خود جا کر اس کے اوپر سے پھسلا جائے کہ بھائی ہم آزما چکے ہیں اور ہم گرنے اور پھسلنے میں ماہر ہو چکے ہیں تو کیوں ایسی راہ سے گزریں جہاں کیلے کا چھلکا نہ ہو کیا پتہ وہاں کیلے کی بجائے انناس کا چھلکا ہو جس سے پھسلیں بھی سہی اور کانٹے بھی چبھوانے پڑ جائیں لہذا انجان صاف راستے سے بھائی دیکھا بھالا کیلے کا چھلکا اچھا۔

مارشل لا اور جمہوریت بحالی تحریک
ملک بننے کے ساتھ ہی مارشل لا لگتا آیا ہے اور اگر اچھے لوگ آگئے تو مارشل لا کون لگائے گا؟اگر آپ سوچتے ہیں کہ اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا تو بے چاری فوج ان پانچ سالوں میں ہی مارشل لا نہ لگانے کے باعث بدنام ہوچکی ہے۔آخر کب تک وہ ایسی حکومتیں برداشت کریں گے وہ کوئی عوام تھوڑی ہیں اور آپکو تو پتہ ہے پہلے ہم مارشل لا پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں پھر جمہوریت بحالی کی تحریکیں چلاتے ہیں تو بھائیو نئے بندوں کو منتخب کرا کر بھلا کیوں ہم مشغلے سے محروم ہوں۔ہندی فلموں اور ترک ڈراموں پر چاہے پابندی لگ جائے پرمارشل لا پر پابندی کے ہم سخت خلاف ہیں کہ اگر مارشل لا کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا تو میرے جیسے کئی دانشور یتیم ہو جائیں گے۔اور پھر میڈیا کے فرمان کے مطابق بدترین جمہوریت بہترین مارشل لا سے اچھی ہے تو جب تک بہترین مارشل لا نہیں آئے گا ہم بدترین جمہوریت کیسے قبول کریں گے لہذا ہماری قوم کی جمہوری بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ مارشل کا تڑکا تھوڑے تھوڑے عرصے بعد لگتا رہنا چاہیے۔

عرض مصنف:درج بالا نکات سراسر نیک نیتی اور کسی لفافے کی آمد کے بغیر لکھے گئے ہیں جس کا مقصد محض عوام کا بھلا کرنا ہے اور انکے اقدامات کو عقلی شکل دینا ہے ۔امید ہے درج بالا وجوہات پڑھ کر عوام ایک بار پھر موجودہ لوگوں کو خدمت کا موقع دے گی۔اور یہ لوگ منتخب ہو کر عوام کو ایسے ہی اچھے اچھے کاموں سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے۔پاکستان زندہ باد۔ پاکستانی قوم تابندہ آباد۔