January 19, 2013

زندگی گزارنے کے چند راہنما اصول

zindgi guzarny ke chand rahnuma asool

زندگی کے ہر شعبہ میں چند قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور پھر انکی بیخ کنی کر کے زندگی گزاری جاتی ہے۔جب کہ حیران کن طور پر ہماری اپنی زندگی کسی بھی اصول و قانون سے بے بہرہ نظر آتی ہے۔جبکہ ہونا تو یہ چاہیے ہم سب سے پہلے اپنی زندگی گزارنے کے اصول مقرر کریں اور پھر ان اصولوں کو پامال کرتے ہوئے زندگی گزاریں کہ جو مزہ اصول توڑؑ کر جینے میں ہے وہ عام جینے میں کہاں۔خالی روڈ پر جتنی رفتار سے دوڑا لیں جو مزہ مقرر کردہ رفتار سے تیز رفتاری یا اشارہ توڑنے میں ہے وہ صاحب یار لوگ ہی جانتے ہیں(کہ یار ہی بعد میں بچانے کا بندوبست کرتے ہیں)۔لیکن ہر اصول ایسا نہیں ہوتا کہ جس کو بنا کر پچھتایا جائے کہ صبح چھ بجے اٹھوں گا، پڑوسی کے بچوں کو کرکٹ کھیلنے پر گالیاں نہیں دوں گا وغیرہ وغیرہ۔
کچھ اصول ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے بے شک کمینگی جھلکتی ہو پر وہ زندگی گزارنے میں خاصے مددگار رہتے ہیں۔آج میں آپکو اپنی زندگی کے چندایسے ہی وکھرے اصولوں سے آگاہ کرتا ہوں ۔یہ راہنما اصول بھی ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے اپنے سیاسی راہنما۔ان اصولوں پر میں عمل کرتا ہوں یا نہیں یہ الگ سوال ہے لیکن دوسروں کے سامنے معزز بن کر نصحیت کرنا زیادہ آسان کام ہے تو میں تو ویسے ہی تن آسان اور کاہل مشہور ہوں۔


 ٭جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھے وہی سب سے بڑا بے وقوف ہوتا ہے۔
اگر تمام لوگ اس بات کو اپنا لیں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ مسئلہ ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں دو نام نہاد سیانے مل کر بحث شروع کردیں۔ اگر آپ کے علاوہ باقی لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ وہ عقل کل نہیں تو آپ کا خاصا فائدہ ہو جائے گا کہ آپکی بات کی اہمیت ہو گی آپ کو سیانا کوا سمجھا جائے گا بس آپ نے دھیان کرنا ہے کہ سیانا کوا اکثر غلط جگہ جا بیٹھتا ہے۔ اس قول پر دوسروں کی حد تک ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنے اکثر دوستوں اور ملنے والوں کو اسی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور اتفاق سے اکثر ہی پورا اترتے ہیں۔ اب چونکہ ہم بھی انسان ہیں ، چار جماعتیں پڑھ چکے ہیں، لوگ ہمارے بلاگ پڑھتے ہیں لہذا ہم تو خود کو سیانا بندہ سمجھیں لیکن باقیوں کی ہمیں سمجھ نہیں آتی وہ کس بھول پر یہ سمجھتے ہیں۔   

٭بُکھے رہو تے سُکھے رہو
سرائیکی زبان کی یہ کہاوت جس کا اردو میں ترجمہ بھوکے رہو اور خوش رہو بنتا ہے ہماری زندگی پر پوری طرح لاگو ہے۔نو پیسہ نو پرابلم پاکستانی فلم کی ہمیں بے شک ذرا سمجھ نہ آئی ہو لیکن اس محاورے کی بخوبی سمجھ آ چکی ہے کہ جب تک جیب میں پیسہ رہتا ہے انسان گو مگو کا شکار رہتا ہے کہ یہاں خرچ کروں یہاں نہ کروں یہ چیز لوں کہ ناں لوں جب ختم ہو جاتا ہے تو سکون ہو جاتاہے کسی چیز کو دیکھ کر رال نہیں ٹپکتی کہ پہلی نگاہ میں ہی آپ ٹھنڈے ہوجاتے ہیں کہ بھائی پیسے نہیں ہیں۔اور پھر جو نییند خالی پیٹ آتی ہے وہ بھرے پیٹ کہاں۔ بھرے پیٹ میں گیس ہی اتنی ہوتی ہے کہ نیند کا وہاں سے گزر مشکل ہو پاتا ہے جبکہ خالی پیٹ نیند نہ آئے تو غشی تو آ ہی جاتی ہے۔

 ٭شیر پالو، سانپ پالو، انسان پالو، جو مرضی آئے پالو مگر خوش فہمی نہ پالو
ہم نے اپنی زندگی حتی المقدور اس نصحیت پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیشہ خاکساری اختیار کیے رکھی ہے حالانکہ ہم اندر ہی اندر اس بات کے قائل ہیں کہ ہم بڑے قابل اور تیس مار خان ہیں لیکن بظاہر ہم عاجزی اور انکساری کا مجموعہ بنے رہتے ہیں۔ویسے خوش فہمی بڑی بڑی بے عزتی کا سبب بنتی ہے اور ہم ایسے کئی واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔کئی دوست جو خود کو شہزادہ چارلس سمجھتے تھے لڑکیوں کے ہاتھوں بڑے بے عزت ہوئے، کئی دوست جو خود کو قابل خان سمجھتے تھے بری طرح فیل ہوئے۔مختصر یہ کہ شیر کا کاٹا، سانپ کا ڈسا اور انسان کا مارا پھر بھی بہتر ہے مگر خوش فہمی کا شکار کام سے گیاہی سمجھیں۔

٭کسی کو چالیس روز تک واپسی جواب نہ دو تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔ 
اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی سوال کا جواب یا کسی پرچے کی بات ہو رہی ہے بلکہ اصل زندگی میں سمجھانا بجھانا یا کسی زیادتی یا بدتمیزی پر چپ کر جانا ہے۔جب ہم چھوٹے تھے تو سمجھتے تھے ہمارے بڑوں نے یہ لڑنے کا بہانہ نکالا ہے۔لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ کوئی چالیس روز تک ہمارے بلاگ پر تبصرہ کر کے ہمیں عقل کی نہ سجھائے ہم اپنے آپ کو ممتاز مفتی سمجھنے لگتے ہیں۔اور ابھی یہ دیکھیں میں خوش فہمی کا قطعی قائل نہیں۔آپ خود آزما کر دیکھ لیں باقی چھوڑیں اپنے بچوں کو آزادی دے کر دیکھیں 40 روز بعد انہوں نے آُپکو ہاتھ پکڑ کر باہر کھڑا دینا ہے۔بیگم پہلے چالیس روز نئی دلہن ہونے ایسا فائدہ اٹھاتی ہے کہ اسکو 40 روز جواب نہ دینے پر آپ پاگل ہو جاتے ہیں۔

 ٭آج کا کام کل پر چھوڑدو کیونکہ کل کس نے دیکھا ہے 
اگر ہم نے دل سے کسی مقولے پر عمل کیا ہے تو وہ یہی ہے۔لوگ کہتے ہیں کل کرے سو آج کر آج کرے سو ابھی۔لو جی یہ بھی کوئی بات ہوئی فرض کریں آپ کل کا کام آج جانفشانی سے کرتے ہیں اپنے تین چار گھنٹے ضایع بھی کرتے ہیں اور رات کو آپ پہنچ گئے اللہ میاں کے پاس تو کتنی نفلوں کا ثواب ہوا۔اسکول میں آپ نے کوئی کام کر کے دکھانا ہے آپ ساری رات جاگ کر کام کرتے ہیں اور اگلے روز استاد صاحب ہی نہیں آتے کیا فائدہ ہوا۔بھائی موت برحق ہے اور کل کسی نے نہیں دیکھا اس لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ کل کا آج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں الٹا سراسر نقصان ہے۔ویسے یہ بات آپکو سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری قوم تو آج کا کام کل کیا پروسوں بھی کرنے کی قائل نہیں۔

 ٭زبان پر چاہے کچھ بھی ہوبڑوں کی عزت دل میں ہوتی ہے۔
یہ ہماری قوم کے نوجوان نسل کا لائحہ عمل ہے۔ ابا ، ماما، چاچا کہنا اور ہتک آمیز انداز میں انکا ذکر کرنا عام معمول ہے۔بڑوں کو گالیاں بکنا ، ان پر تنقید کرنا ان کے نزدیک کوئی بات ہی نہیں اور کہو تو کہتے ہیں عزت تو دل میں ہوتی ہے۔ ہم آج بھی بڑے کو ان کی بجائے اس کہتے ہچکچاتے ہیں۔ہم تو خبروں میں جب پڑھتے ہیں کہ "اس نے یہ کہا" تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کتنی بدتمیزی ہے "ان" نہیں لکھ سکتے۔ ہم چاہے اپنے بڑوں کے جتنے خلاف ہوں کتنے ہی غصے میں بھرے کیوں نہ ہوں مجال ہے جو ایک سے دوسری بات کر سکیں۔خدا جانے ہمارے منافقت اچھی ہے یا آج کے نوجوانوں کی کھری باتیں؟

٭ادھار پر ہاتھی بھی ملے تو گھر لے آؤ 
یہ ہمارا پسندیدہ محاورہ ہے۔ہمارے والد صاحب مذاق میں کہا کرتے تھے بیٹا ادھار میں سفید ہاتھی بھی مل رہا ہو تو لے آؤ یہ بعد میں دیکھیں کہ اس کا کرنا کیا ہے۔اب ہمیں کیا پتہ وہ مذاق کرتے تھے ہم تو بچے تھے ہم سمجھے سچی مچی کہہ رہے ہیں اور ہم نے ان کی بات ایسے پلے باندھی کہ جہاں ادھار پر کوئی چیز مل رہی ہوتی ہے تو ہم نہ بھی لیں تو ہماری رال ضرور ٹپک جاتی ہے۔ویسے آپس کی بات ہے کبھی موقع ملوں گا تو والد صاحب سے پوچھوں گا کہ "قبلہ کوئی پاکستان کا پالیسی ساز بھی آپکی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا"؟ لیکن چلو میں تو بچہ توتھا مجھے تو سمجھ نہ آئی، انکو بھی سمجھ نہیں لگی کہ والد صاحب مذاقاً کہہ رہے ہیں۔

 ٭جو آپ کو نہ جانے آپ اس کے باپ کو بھی نہ جانو
ہم نے اپنی انا کے غباروں میں ایسے ہی اور اس جیسے دوسروں سے محاوروں سے خوب ہوا بھر رکھی ہے۔ہم ایسے بے مروت واقع ہوئے ہیں کہ کوئی ہم سے زرا روٹھ کر دیکھے ہم ناراض ہی ہوجاتے ہیں۔پچھلے سال کی بات ہے ہم ایک ریسٹورانٹ میں گئے تو ہمارا ایک دوست وہاں پہلے بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا ہم اس کو ملتے کہ کافی عرصہ بعد دیکھا تھا اسکو لیکن ہوا یوں کہ اس نے بھی ہمیں دیکھا اور ان دیکھا کر دیا۔ بس پھر کیا تھا ہم نے دل میں کہا آپ نے نہیں دیکھا تو ہم کو اندھے سمجھیے اور منہ پر مل کر بیٹھ گئے۔ بہرحال نقصان یہ ہوا ایک سال اور بیت گیا ان سے ملاقات کیے۔

 ٭جب کسی سے کوئی چیز مانگو تو یہ سمجھ کر مانگو کہ یہ آپکے والد صاحب کا ترکہ ہے اور اگر وہ نہ دے تو کہنا کونسا ہمارے والد صاحب کا ترکہ تھا 
ویسے تو یہ دل کو لگتی بات ہے لیکن ہماری قوم کی نفسیات یہ بن گئی ہے کہ والد صاحب کا ترکہ سمجھ کر مانگتے ہیں ، والد صاحب کا ترکہ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اگلا نہ دے تو ایسے ہی ناراض ہو جاتے ہیں جیسے واقعی والد صاحب ہی ان کے لیے چھوڑ گئے ہوں۔ کئی لوگوں کو ایسی بے تکلفی سے چیزیں مانگتا دیکھا ہے کہ حیرانگی ہوئی ، معمولی جان پہچان پر کار مانگ لی، کیمرہ مانگ لیا اور نہ دو تو ناراضگی علٰیحدہ اور دینے پر کئی چیزوں کا نقصان میں خود بھگت چکا ہوں اور تو اور ایک ہمارے جگری دوست ہمارا کچھا مانگ کر لے گئے آج تک واپس نہیں کیا۔یہ بھی کوئی بات ہوئی۔