January 1, 2013

اردو مضمون -مسئلہ کشمیر

Urdu Mazmoon (essay) masla kashmir

 مسئلہ کشمیر وہ کمبل بن چکا ہے جسے اب بندہ تو چھوڑنا چاہتا ہے مگر کمبل اسکو نہیں چھوڑتا۔

 جب پاکستان بنا تو پاکستان مخالف قوتوں کے پیٹ میں عمل تبخیر کا طوفان سا اٹھا اور انہوں نے سوچاکہیں یہ سچ مچ کی اسلامی ریاست نہ بن جائے تو انہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے میں مختلف قسم کے طوق ڈالنے شروع کر دیے کہ یہ سکون کا سانس نہ لے سکیں اور مسائل کا انبار کھڑا کردیا اور مسئلہ کشمیر ان میں سے ایک تھا۔ حالانکہ پاکستان کے مسائل پیدا کرنے کے لیے پاکستانی سیاستدان اور پاکستانی قوم ہی کافی تھی لیکن تب تک ہماری صلاحیتیں دنیا پر آشکار نہ ہوئی تھین۔قائد اعظم سیاستدانوں سے ہی نمٹ رہے تھے کہ ہم نے پہلی فرصت میں ان سے نجات حاصل کرلی اور پھر ہم نے مسئلوں کو گھسیٹنا شروع کر دیا کہ کہ مسائل فوری حل ہونے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ انکو سالوں گھسیٹا جاتا ہے تاکہ انکی اہمیت اجاگر ہو سکے۔


اگر کشمیر پر پاکستان نے غاصبانہ کیا رضاکارانہ قبضہ بھی کیا ہوا ہوتا تو کشمیر اب تک دو بار آزاد ہو گیا ہوتا-بھارت اور پاکستان کا ریکارڈ دیکھیں۔بھارت نے جوناگڑھ، کشمیر، گوا سے کام شروع کیا اور حیدرآباد تک کام کھینچ گیا چین چونکہ ہمارا دوست ہے لہذا اروناچل پردیش کو بھی ہم چین کا حصہ سمجھتے ہیں لہذا بھارت نے چین تک کو دبا رکھا ہے۔سینکڑوں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں سینکڑوں تنگ آ کر کسی اور دھندے میں لگ گئے پر مجال ہے جو اس کے کان پر جوں رینگی ہو۔ادھر ہماری فیاضی ملاحظہ ہوملک بعد میں بنا جونا گڑھ اور منادو اور کشمیر سے پہلے ہاتھ دھو لیے۔بنگالیوں نے کہا بنگالی کو قومی زبان بنایا جائے ہم نے بنگلہ دیش بنوا کر دم لیا۔بلوچیوں نے کہا انکو سانس لینے دیا جائے تو ہم مکمل آزادی دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔سرائیکی اور ہزارہ پنجاب سے عنقریب آزادی حاصل کر لیں گے۔طالبان اینڈ کمپنی کو فاٹا سونپ دیا۔کشمیر جو آزاد کرایا گیا اسکو آزاد کشمیر کا نام دیا کہ بھائی پاکستان سب کی یکساں آزادی کا حامی ہے۔

1948 میں کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا کہ مجاہدین نے سوچا اسلام برابری کا درس دیتا ہے لہذا انڈین آرمی کوبھی برابر کا موقع ملنا چاہیےتو مجاہدین نے اپنی پیش قدمی سرینگر کے ہوائی اڈے جہاں بھارتی فوج نے اترنا تھاسے تھوڑا پہلے روک دی۔لیکن بھارت نے ایک بار پھر بے ایمانی کی اور پوری قوت سے جوابی حملے کیے اور مجاہدین کو پیچھے دھکیل دیا کہ اسپورٹس مین اسپریٹ تو بھارت کو چھو کر نہیں گزری۔اب یہ 25 دسمبر والے ٹوئنٹی ٹوئنٹی مٰیں ایشانت شرما کو ہی دیکھ لیں ۔اپنے بیٹے کے قد سے بھی چھوٹے کامران اکمل کو ڈرا دھمکا رہاہے۔اور رہی سہی کسر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جا کر پوری کردی جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اقوام متحدہ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح ہے کہ جو کچھ گیا وہ گُلٹم اور اسکو صرف عمرو عیار ہی نکال سکتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد سے ہی ہمارے نمائندوں کو عوام کا غم کھائے جاتا تھا لہذا انکا سارا زور ترقیاتی بجٹ پر رہا کہ عوام کی خدمت کےلیے نالیاں اور سڑکیں بنوا سکیں انہوں نے بھی کشمیر کے اقوام متحدہ میں داخل دفتر ہونے پر سکھ کا سانس لیا کہ پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا۔

پہلے وہ سیاستدان جیتا کرتے تھے جو دھڑلے سے نعرہ لگایا کرتے تھے کہ کشمیر بنے گا پاکستان اور انہیں کے ورغلانے پر ہم نے تین چار جنگیں بھی لڑلیں - پھر دنیا نے رفتار بدلی تو ہم نے ڈبل رفتار بدلی اور یہ طے کیا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے اور اسکو باہمی بات چیت سے ہی حل کیا جائے گا۔ہمیں حیرت ایسے بیانوں پر یہ ہوتی ہے کہ میڈیا کے سامنے یہ بیان دیتےوقت بولنے والوں کی ہنسی کیوں نہیں نکلتی۔پھر نو دو گیارہ کے بعد تو دنیا ہی بدل گئی۔بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا لیکن وہ لندن اور نیویارک جیسی فلموں کی سی شہرت حاصل نہ کرسکے حالانکہ بالی ووڈ دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے لیکن بھارتی فلموں میں اوریجنل کہانی کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔تاہم نو گیارہ کا فائدہ یہ ہوا کہ اس دن کے بعد جو بھی مسلمان آزادی کا نعرہ لگائے وہ دہشت گرد قرار پایا تاقتیکہ وہ کسی مسلمان ملک کے خلاف ہو۔گویا کشمیری دہشت گرد لبیائی مجاہد۔فلسظینی دہشت گرد شامی مجاہد۔

اُدھر جیسے جیسے ہمارے ووٹر بالغ نظر ہوتے گئے ویسے ویسے انکی پسند بھی لاجواب ہوتی گئی اور ہمارے کامیاب ہونے والے سیاستدان کشمیر کا نام بھی سرگوشیوں میں لینے لگے ۔بھارت سے محبت کی نئی پتنگیں اڑنے لگیں جن میں کشمیر مارکہ ڈور پر سخت پابندی عائد کردی گئی کہ دھاتی ڈور سے کسی کی جان جاسکتی ہے، کسی کی کرسی جا سکتی ہےاور کسی کی تجارت جانے کا خطرہ ہے۔باقی رہی بیچاری عوام تو اس کے اپنے مسئلے اتنے بڑھ گئے کہ وہ کراچی کا سوچیں کہ کشمیر کا۔گمشدہ بلوچ تو ہمارے محبوب لیڈران برآمد کروا نہیں سکے گمشدہ کشمیریوں کا خاک ماتم کرتے۔اور عوام بھی سوچنے لگے کہ اب کشمیر آزاد ہو بھی گیا تو 5 فروری کی چھٹی کا کیا ہوگا؟ کشمیر کمیٹی اور اسکا چیرمین بیچارہ تو بے موت مارا گیا اور ہم ادھار سے معذرت کیا بہانہ بنا کر کریں گے۔

 اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں بھارت جیسا ہمسایہ عطا کیا ہے جس نے ہمارے لیے ایٹم بم بنارکھا ہے حالانکہ بھلا ہم پر ایٹم بم گرانے کی کوئی کسر رہ گئ ہے کیا؟بس ایک آدھ بار ہم دوبارہ ایسے اور ان جیسے حکمران منتخب کر لیں لوگ ہیروشیما اور ناگاساکی بھول جائیں گے۔بھارت صرف پانچ سال ہمارے ساتھ محبت سے رہ لے جغرافیہ ہی بدل جانا ہے ۔مسلسل متھا لگانے کے باوجود یہ ہم ہی تھے جو کنفڈریشن اور مشترکہ دفاع کی تجاویز دے چکے ہیں۔

بس ہماری تو یہی دعا ہے اللہ بھارتی حکمرانوں کو ایسی ہی بصیرت مستقبل میں بھی عطا کرتا رہے کہ وہ ہمیں گاہے بگاہے سیدھا کرتے رہیں تاکہ ہماری رومانس بازی کی عادت کو لگام لگی رہے اور بھارتی ترقی بھی ہتھیاروں کے جنون میں ضایع ہوتی رہے اور جی ہمارا کیا ہم تو ویسے ہی برباد ہیں ہمیں ترقی سے کیا لینا دینا کہ یہ دنیاوی گند دنیا میں ہی رہ جانا ہے اور ہم نے خود کش دھماکہ کر کے ڈائریکٹ ہی جنت میں چلے جانا ہے۔اور باقی رہا کشمیر ،آج بھارت کشمیر کو آزاد کر دے اور وہ پاکستان کا حصہ بن بھی جائے تو پانچ سالوں میں ہی کشمیریوں نے ہاتھ باندھ کر بھارت سے گزارش کرنی ہے کہ سرکار ہم باز آئے آزادی سے تہاڈی غلامی ہی چنگی۔۔۔۔

یہ مضمون ڈان اردو میں تہاڈی غلامی ہی چنگی کے نام سے شایع ہو چکا ہے۔ لنک درج ذیل ہے۔
http://urdu.dawn.com/2012/12/28/kashmir-slavery-is-better-aq/