November 15, 2012

نئی دنیا

Nae Dunya

 نئے اڈے پر اتر کر روٹ 721 والی بس میں بیٹھ جائیں اور جہاں اسکا آخری سٹاپ ہے وہاں اتر کر دن چڑھنے والی طرف 
چھوٹی کچی سڑک پر چلنا شروع کر دیں تو وہ تقریباً پندرہ بیگھے آگے جا کر پکی سڑک سے مل جاتی ہے جو سیدھا ہماری بستی آتی ہے۔راستہ بھی بڑے بند سے ادھر کا ہے اور بستی کا نام بھی چور پور ہے لیکن اس کے باوجود آپ جب بھی آئیں بے فکر ہو کر آئیں کوئی خطرے والی بات نہیں،نہ کوئی چور ہے نہ کوئی ڈاکو ہے۔حالانکہ کمیٹی صدر میں درخواست دی ہے کہ بستی کا نام تبدیل کیا جائے لیکن آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ کو تو پتہ ہے کہ سرکار کو اور بھی بہت سے کام نمٹانے ہیں لہذا یہ مسئلہ ابھی تک مسئلے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکا۔ہر الیکشن کے موقع پر خواہ بلدیاتی ہوں یا اس سے اوپر والی سطح کے ہر امیدوار یقین دہانی کراتا ہے کہ سب سے پہلا کام اس بستی کا نام تبدیل کرنا ہوگالیکن بات پھر وہی ہے کہ آپ تو پڑھے لکھے ہیں کہ ہر وقت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔لیکن آپ اگر آئیں تو سڑک کے خاتمے پر فاروق آباد کا بورڈ دیکھ کر پریشان نہ ہوں۔اپنی مدد آپ کے تحت مولوی صاحب کے مشورے کے بعد ہم نے اپنی بستی کا نام خود ہی تبدیل کر دیا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اگر بستی میں مسجد کی بجائے امام بارگاہ ہوتی تو نام شاید علی پور ہوتا۔یہ الگ بات ہے کہ چار دن قبل جب سلیما موچی شناختی کارڈ بنوانے گیا تو اس کے کہنے کے باوجود اس کا پتہ بستی چورپور،بڑابند،ڈاکخانہ ٹاہلییاں والہ ،تحصیل صدر ہی لکھا گیاہے۔ 
ہماری بستی میں کچھ کچے مکان ہیں کچھ پکے اور کچھ آدھ کچے اور آدھ پکے۔میرا مکان کچا ہے۔جو تھوڑی زمین باپ دادا 
نے چھوڑی تھی اس کو بیچ کر خود بھی حج کیا اور اپنی بیوی کو بھی کرایا۔جو باقی پیسے بچے وہ اپنے بیٹے کی تعلیم پر لگا دیے تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔اب بیٹا کسی کمپنی میں کسی اونچے عہدے پر ہے۔شروع شروع میں ملنے آیا کرتا تھا لیکن جیسے جیسے ترقی کرتا گیا ویسے ویسے گھر آنا بھی کم ہوتا گیا۔اب تو چار سال اور نو ماہ ہوگئے ملنے نہیں آیا۔دنیا بدل گئی ہے پہلے اولاد والدین کی خدمت کو فرض سمجھتی تھی اب مجبوری اور بندش سمجھتی ہے اور جیسے ہی اسے موقع ملتا ہے آزاد ہو جاتی ہے۔آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ کو تو پتہ ہے میں تو صرف ایک پرائمری ماسٹر ہوں۔ 

کل منیرا نائی ملا تو کہنے لگا ماسٹر تو بھی ماسٹر کا ماسٹر ہی رہا۔مجھے دیکھ میرے چار بیٹے ہیں ،سب کے سب نائی بنائے ہیں،سب میری خدمت کرتے ہیں ،کما کر گھر لاتے ہیں اور میں عیاشی کرتا ہوں،لیکن تو نے پڑھا لکھا کر اپنے اکلوتے بیٹے کو گنوادیا۔منیرا وہ نہیں دیکھ سکا جو مجھے نظر آیا۔اس کا بیٹا اس کے ساتھ ہو کر بھی اس کے ساتھ نہ تھا۔وہ مجبور تھا بندھا ہوا تھا اور میرابیٹا فخر آزاد تھا۔بات پڑھائی کی جہالت کہ نہیں اور نہ ہی نزدیکی یا دوری کی ہے اصل میں دنیا ہی بدل گئی ہے کیا کریں۔مجھے یاد ہے اپنے والد کی بیماری کے دنوں میں میں سرکاری نوکری سے ہاتھ دھو ہی بیٹھا تھا لیکن اس کے باوجود بھی جب تک ابا ٹھیک نہ ہوا میں نوکری پر حاضر نہ ہوا تھا ۔اب کسی نوجوان سے کہو تو وہ کہتا ہے چاچا زمین جو پڑی تھی اس لیے تو نے نوکری کی فکر نہ کی۔اب ہم فکر نہ کریں تو چولہا کہاں سے جلے۔سچ تو وہ بھی کہتے ہیں لیکن چاہے پیسے نہ دیں والدین سے کبھی کبھار ملنے میں کیا حرج ہے؟ اب تو بیٹے کو یاد کر کے آنسو بھی نہیں نکلتے،ہاں فخر کی ماں اس کو ہر چوتھے آٹھویں یاد کر کے رو پڑتی ہے۔عورت ذات ہے ناں،ماں کا دل جو ہوا۔مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار شہر جانے لگا تھا تو میری ماں بھی رو پڑی تھی۔اب تو شہر خود ادھر کو دوڑا چلا آرہاہے۔721 نمبر پر بیٹھ کر محض تیس منٹ میں شہر پہنچ جاتے ہیں۔سیانے کہتے تھے کہ دورِ قیامت کے قریب زمین اور فاصلے سکڑ جائیں گے۔جہاں ہم بچپن میں گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے اب اس گلی سے دو بندے ساتھ ساتھ نہیں گزر سکتے۔خدا معلوم زمیں کی نیت میں فتور ہے یا انسانوں کی جو ہر نئی دیوار کو چند انچ اور ادھر کوکھسکا دیتے ہیں۔ 

کریما کمہار جس دن بستی چھوڑ کر جارہا تھا اس دن میرے پاس بھی آیا تھا اور بولا ماسٹرتو بھی نرا ماسٹر ہی رہا۔دیکھ میرے بیٹے نے شہر میں مکان لے لیا ہے اور مجھے کہا ہے کہ ابا وہاں جا کر وہ اب تو وستی(بستی) میں اور خوار نہ ہو۔ماسٹر تو بھی اپنے بیٹے کو دبئی بھیج دیتا تو اچھا تھا۔کریمے کمہار کی فخریہ آواز میں بھی غم پوشیدہ تھا۔تین سال سے بیٹے سے نہ ملنے کا غم اور پرکھوں کی قبریں چھوٹنے کا غم۔

 دنیا بدل گئی ہے پہلے تو ہر سال سیلاب آجایا کرتا تھا۔جب میں چھوٹا تھا تو سال میں کم از کم پندرہ دن تو بڑے بند پر گزرتے تھے پر اب تو پانی کا جوش بھی نہیں رہا۔لگتا ہے انسانوں کی پیش قدمی کے آگے اس کی بھی بس ہو گئی ہے۔اب تو آخری بند سے آگے کی فصلیں بھی نہیں ڈوبتیں۔سنا ہے ابھی حکومت ڈیم شیم بنانے کا سوچ رہی ہے۔جب پانی بڑابند پار کر لیتا تھا تب ڈیم بن جاتا تو شاید کوئی فائدہ ہوتا ۔لیکن ہم کم پڑھے لکھے لوگ ہیں ہمیں کیا خبر اسی میں ہی کوئی راز پوشیدہ رہا ہو۔

 ہمارے گائوں میں تو خیرنہ بجلی ہے،نہ گیس ہے،نہ فون ہے اور نہ سرکاری پانی،اسی لیے کسی جاگیردار یا زمیندار کے یہاں رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا اوپر سے فصل بھی ہوائی،زرا سا پانی آگیا تو سب ختم۔لیکن جہاں چوہدری اور وڈیرے ہیں اب تو ان کا حال بھی خراب ہے۔پہلے حکومت رب سوہنے کے پاس تھی پھر اس نے انسانوں کو سونپ دی۔پہلے تو ہر علاقے میں ایک زمیندار ہی حاکم ہو ا کرتا تھا پر اب تو سنا ہے میدے مسلی کے لڑکوں نے چوہدری کے لڑکے کو اتنا مارا ہے کہ وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں پڑا رہا۔مسلیوں کا تو آپ کو پتہ ہے ناں؟یہ جمعدار۔اسی لڑکے کے دادا چوہدری کرم دین کے گھر میدے مسلی کی ماں لیٹرین صاف کرتی تھی۔دنیا بدل گئی ہے پہلے اللہ حاکم تھا تو عدل وانصاف تھا اب انسانوں کے ہاتھ آئی ہے تو سب خدا بنے بیٹھے ہیں۔آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ کو تو پتہ ہے۔ 
جس چوہدری کے گھر میدے مسلی کی ماں لیٹرین صاف کرتی تھی یعنی چوہدری کرم دین کا بیٹا اورجس لڑکے کو مار پڑی ہے اس کا باپ چوہدری ظہور دین تھا۔چوہدری ظہور نے اپنے باپ کا نام خوب استعمال کیا۔تب تک زمینیں وہ تو نہ رہی تھیں جو پچھلی نسلوں میں تھیں لیکن ظاہری شان میں اس نے کمی نہ آنے دی تھی۔اس کے دور میں میدے مسلی کی ماں لیٹرین میں کام کرتی تھی اور میدے مسلی کی بیوی اس کے بستر میں۔بستی کی شاید ہی کوئی لڑکی ہو جو اس کی دست درازی سے بچی ہو ۔اس کی وجاہت کے آگے کسی کی جرات بھی نہیں تھی بولنے کی۔کیا قد کاٹھ تھا اور کیا گوراچٹا رنگ۔گبھرو شیر جوان تھا چوہدری ظہور۔بتانے والے تو بتاتے ہیں کہ بستی کی جو لڑکیاں اس کے التفات سے محروم رہ گئیں آج تک آہیں بھرتی ہیں۔لیکن اس کے مرنے کے ساتھ ہی چوہدری ٹکے ٹوکری ہوگئے ہیں۔اسی کے بیٹے کو میدے مسلی کے بیٹوں نے مارا ہے۔دنیا واقعی بدل گئی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے تو کسی کو اجازت تک نہ تھی کہ اس کے بوہے کے آگے سے گزر سکتا کہ گھر میں کسی غیر کی نظر نہ پڑ جائے۔لیکن اس دن شکورے قصائی کا بیٹا جو شہر میں میڈیکل اسٹور میں کام کرتا ہے بتا رہا تھا کہ چوہدری کی سب سے چھوٹی بیٹی جو ابھی کنواری ہے اور شہر میں رہتی اور پڑھتی ہے اکثر مانع حمل گولیاں لینے دوکان پر آتی ہے۔کہتے ہیں وقت کا پہیہ جب الٹا چلتا ہے تو پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنا ہی لشکر روند ڈالتا ہے۔ 

دنیا بدل گئی ہے۔بالے آرائیں کا بیٹا مونا 4 سال قبل جب بھاگ کر لاہور گیا تھا تو چار دن بعد واپسی پر وہ سات روز تک مسجد میں استغفار کی نفلیں پڑھتا رہا کہ اس نے وہاں بغیر دوپٹے کے بے حیا لڑکیا ں دیکھی تھیں۔مولوی صاحب نے جمعہ کے خطبے میں اس کا نام فخریہ بتایا اور اجتماعی دعا کرائی کہ خدا اسے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے۔وہی مونا دو ہفتے قبل شراب کی بھٹی چلاتے ہوئے پکڑا گیا۔بعد میں اس نے پولیس کو بتا یا کہ وہ لڑکیاں بھی سپلائی کرتا ہے۔جن کو وہ لڑکیاں سپلائی کرتا تھا وہ بااثر لوگ تھے انہوں بالے کو باآسانی ضمانت پر چھڑوا لیا۔بالا آج بھی اسی گائوں میں رہتا اور فخریہ انداز میں گھومتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ ہے کسی میں جرات کہ اس کو ہاتھ لگا کر دکھائے جہاں چندصر ف 4 سال قبل ہی وہ سات روز تک استغفار کی نفلیں پڑھتا رہا تھا۔خدا معلوم اس روز مولوی صاحب کی دعا میں کھوٹ تھا،مونے کی نیت میں فتور تھا یا پھر معاشرے میں راست چلنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ کو تو پتہ ہو گا۔ 

 پچھلے ماہ جب مجھے تین ماہ سے پنشن نہیں مل رہی تھی تو میں اپنے ایک دوست کے پاس کچہری میں بیٹھا مشورہ کر رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔یکے بعد دیگرے دو حکومتیں بدلنے سے تین کلرک بدل چکے تھے اور اب چوتھا کلرک پیسے مانگ رہا تھا۔ادھر تین ماہ سے پیسے نہ ملنے پر کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے تو رشوت کے پیسے کہاں سے لاتا ورنہ میں کوئی ایسا کٹر مسلمان نہیں ہوں۔لیکن کلرک کا اصرار تھا کہ پہلے پیسے دوتو تب پنشن ملے گی۔کچھ لوگوں کو حرام کھانے کی بھی کتنی جلدی ہوتی ہے۔پر قصور اس کا بھی نہ تھا سنا ہے اس نے ہر ماہ اوپر والوں کو حصہ پہنچانا ہوتا ہے۔خیر سرکاری کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،پر تین ماہ سے پیسے نہ ہونے کیوجہ سے پاس پڑوس والے بھی جتنا ادھار دے سکتے تھے وہ بھی ہم لے چکے تھے اور اب تین دن سے فاقے تھے۔وکیل جب سوچ سوچ کر تھک گیا تو کہنے لگا ماسٹر ایک ہی حل نظر آتا ہے ۔میں نے کہا بتائو۔کہنے لگا پیسوں کا انتظام ہو سکتا ہے لیکن تجھے ایک کڑوا گھونٹ بھرنا ہو گا شاید تجھے میرا مشورہ پسند نہ آئے۔بھوک میرے اندر ناچ رہی تھی میں بولا حکم کر۔ایک گواہی دے دے میں تجھے دس ہزار دلا دوں گا،کیس سچا ہے اس کی گارنٹی میں دیتا ہوں۔وکیل گارنٹی نہ بھی دیتا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی میری نظروں میں تو میری بیوی کا چہرہ گھوم رہا تھا جو تین روز سے پانی پی پی کر گزارہ کر رہی تھی۔ 
اس روز جب میں بقایاپیسے اور پنشن لے کر گھر پہنچا تو بیوی سے بولا،" فخر کی اماں دنیا بدل گئی ہے، پہلے تو جھوٹی گواہی دینے پر لال سرخ آندھی آیا کرتی تھی اور ہر شے مٹی مٹی ہو جاتی تھی ،لوگوں کو پتہ چل جاتا تھاکہ کسی نے جھوٹی گواہی دی ہے پر اب تو جھوٹی گواہی دینے پر مہینے کا خرچ نکل آتا ہے"۔میری بیوی چٹی ان پڑھ ہے آٹا گوندھتے ہوئے بولی مجھے آپ کی ایسی باتیں سمجھ نہیں آتیں "،لیکن آپ تو پڑھے لکھے ہیں آپ تو سمجھتے ہیں ناں؟"