November 1, 2012

بلاگ پر ٹریفک بڑھانے کے طریقے

Blog per traffic berhany ke tareqy

ہمیں بلاگ کالاکرتے تین سال ہونے کو آئے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے اور سینئر حضرات اکثر اس بات پر غور کرتے رہتے ہیں
 کہ بلاگ پر ٹریفک کیسے بڑھائی جائے۔کوئی تکنیکی مسائل سمجھاتا ہے تو کوئی معیار کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، کوئی موضوع اور مقدار کی بات کرتا ہے تو کوئی انداز تحریر کامیابی کا فارمولا بتا تا ہے۔کچھ وہ بتاتے ہیں کچھ خالہ بلی کی طرح چھپا کر رکھ لیتے ہیں کہ سارے ہی درخت پر نہ چڑھ جائیں۔تو آج ہم اپنے تین سالہ تجربہ کا نچوڑ ہر خاص و عام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ ہم علم کی تقسیم کے قائل ہیں اور جمہوریت کے بعد علم کو ہی بہترین انتقام سمجھتے ہیں)یقین نہ آئےتو کبھی لوگوں کو کسی شاعر یا ادیب کے بٹتے علم سے بھاگتے دیکھیں) لہذا ہمارا بیچارہ سا علم آپکی نظر ہے۔ 

 سچ پوچھیں توالمختصر یہ ہے کہ اردو بلاگ صرف دو قسم کے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں ایک وہ جو خواتین لکھتی ہیں دوسرا وہ جو لکھتے تو مرد حضرات ہیں لیکن لکھتے زنانہ ناموں سے ہیں۔ 

ایسے بلاگوں پر عام طور پر کچھ معرکتہ الارآ پڑھنے کو نہیں ملتا لیکن بلاگ پر آنے والوں اور تبصرہ کرنے والوں کی تعداد ناقابل یقین ہوتی ہے ۔اگر ایسا بلاگ کوئی مرد اپنے نام سے لکھنا شروع کر دے تو گوگل ہی بند کردے گا کہ بھائی صیب انسانیت بھی کسی چڑیا کا نام ہے کہ نہیں لیکن یہاں کہانی دوسری چلتی ہے۔ایک جملہ ہی کیوں نہ ہومثلاً آج میں نے بینگن کا بھرتہ پکایا۔تبصروں کے انبار لگ جانے ہیں۔مفت کی رال ٹپکانے والے کہیں گے کیسا پکا؟ مزاح کرنے والے کہیں گے کیوں خود کشی کرنے کا ارادہ تھا؟ ہر لڑکی سے فری ہونے کی کوشش کرنے والے کہیں گے اکیلے اکیلے کھا لیا ہم سے پوچھا تک نہیں؟اصلی اور لڑکے سہیلیاں کہیں گے جا او چھیمو مر جا بھرتہ کھا کر۔سنجیدہ اور بزرگ نما افراد کہیں گے بینگن ایک بیش بہا خزانہ ہے یہ نہ صرف جسم کی نشو نما کے لیے ضروری ہے بلکہ ملکی معیشت میں اہم کردار بھی ادا کر رہا ہے،حلقہ ارادت میں شمولیت کے خواہشمند تحریر کریں گے آپکا انداز تحریر انتہائی جازب ہے خدا کرے زور قلم اور ہو زیادہ۔اسی دوران موصوفہ کے مداحوں میں بحث چھڑ جائے گی کہ موصوفہ پکاتی زیادہ اچھا ہیں یا لکھتی زیادہ اچھا ہیں، اس بحث کے دوران ہم جیسے انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے اس قسم کے تبصرے بیچ میں گھسیڑ دیتے ہیں کہ وہ مزہ آگیا، کیا بات ہے، لاجواب، بینگن میرا بھی پسندیدہ ہے۔ تواگر آپ کی بے عزت نفس اس بات کو گوارا نہیں کرتی یا آپ اس بات پر مصر ہیں کہ آپ اپنے نام سے ہی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں(بلی کو خواب چھیچھڑوں کے۔۔) تو نیچے دیے گئے نکات پر عمل کریں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں اور اس پر عمل کے بعد بھی کامیابی کا کوئی پکا یقین نہیں پہلے بتائے دیتے ہیں۔

 ٭آج تو ویناملک اور میرا کو بھی پبلسٹی چاہیے
 آج سعادت حسن منٹو اور ممتاز مفتی بھی آ جائیں تو کسی نے انکا بلاگ نہیں پڑھنا۔یا تو انکو بھی زنانے ناموں سے لکھنا ہوگا یا اندھا دھند پبلسٹی کرنی ہوگی۔تو اپنے دوستوں کی فہرست میں اضافہ کریں اور ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو جو انٹرنیٹ استعمال کرتا ہو کو دوست بنائیں ، گپ شپ لگائیں یاری بڑھائیں اور پھر انکو اپنے بلاگ پڑھوائیں۔ آتے جاتے کو بتانا ہوتا ہے، اخبارات میں اشہارات دینے پڑتے ہیں، فیس بک پر پیسے بھرنے پڑتے ہیں کہ دس پندرہ نالائق ہی لائیک کر دیں،یاروں کو پڑھوانا پڑتا ہے انکے پیر پڑ کر انکے یاروں کو پڑھوانے کی منت کرنی پڑتی ہے۔ایک دفعہ بس آپکی ہوا بن جائے پھر خیر ہےپھر جو لکھیں واہ واہ ہی ہونی ہے۔باقی اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی تحریر اتنی عظیم ہے کہ لوگ خود آپکو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آئیں گے تو بھائی صاحب سرائیکی میں کہتے ہیں گھوڑی چھاں تلے بدھو یعنی سکون کرو۔ اب تو وینا ملک کو خبروں میں رہنے کے لیے ہیروٹی وی پر استغفار پروغرام (پروگرام)کرنا پڑتا ہے،میرا کو میرا مارکہ انگریزی ہی بولنی پڑتی ہے،حامد میر اور جاوید چوہدری جیسے لوگ قارئین کو قابو کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو لعن طعن کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بندے ٹوٹ کر وہاں جا رہے ہیں۔بس یوں سمجھیں وہ زمانہ گزر گیا جب پیاسا کنویں کے پاس جاتا تھا اب کنواں خود چل کر پیاسےکے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے مابدولت برا نہ مانیں تو ان باندھے ہاتھوں کو دیکھ لیں اور پانی پی لیں۔یہ بلاگ پڑھ کر ہم پر احسان کر دیں۔

 ٭سازشی اور سیاسی تھیوریاں خوب کیش ہوتی ہیں۔ 
ہمارا معاشرہ اتنا بیمار ہے کہ وہ سیاست،سازشی مفروضوں اور فحاشی پر چل رہا ہے تو فحاشی نہ بھی لکھیں تو عنوان ایسا رکھیں کہ لوگ سمجھیں اس میں ان کی پسند کا مال ہوگا یعنی کم از کم پیکنگ ہی خوشنما کر دیں۔ ہمارے ہی ایک بلاگ جس کا عنوان اباجی یا فحش سائٹوں سے اجتناب ہے 900 بار پڑھا جا چکا ہے جبکہ اس سے لاکھ درجے اچھے بلاگ بھی 400 تک بمشکل پہنچے ہیں۔باقی یقین نہ آئے تو فیس بک پر بلاگران سے علم کے متلاشیوں کے الفاظ پوچھ لیں جو وہ گوگل پر لکھ کر ان کے بلاگوں پر آئے تھے۔دوسرا پدرم سلطان بود کو ہوا دیں اور ہر معاملے کا سازشی پہلو نکالیں جس میں سارا گند امریکہ کے ذمے آئے اور پاکستانی عوام کو گنگا میں دھو کر نکال دیں بس پھر چلتا دیکھیں بلاگ۔ہماری عوام ووٹ چاہے جسے دے لیکن سیاست میں اس کی دلچسپی سب سے بڑھ کر ہے۔کوئی ٹاک شو ایسا نہیں جس میں سیاسی بکروں کا دنگل ہوتا ہو اور وہ عوام میں غیر مقبول ہو۔مبشر لقمان ،عامر لیاقت اور ثنا بچہ کو دیکھ لیں کوئی حصہ دار ہونے کے باوجود بے گناہ اور کوئی ایک سے نکلتے ہی دوسرے چینل پر موجود۔تو سیاست بارے لکھیں ۔چیزوں کو اپنی مرضی اور عوام کی مرضی کا رخ دیں باقی سچ جھوٹ کون دیکھتا ہے۔

 ٭اپنی مدد آپ۔ 
اپنے بلاگ کا خود ہی وزٹ کیجیے اور بار بار کیجیے۔اس طرح نیچے کاؤنٹر میں آپ خاصا اضافہ کرسکتے ہیں ۔ہمیں دیکھ لیں 40،000 میں سے 39،000 تو ہمارے خیال میں ہمارے اپنے وزٹ ہوں گے۔بھائی اب تو وہ زمانہ ہے کہ فوٹو کاپی کرا کر چالیس بندوں میں ای میل کے زریعے تقسیم کریں ایک شخص نے مذاق سمجھا اسکا کمپیوٹر جل گیا دو بندوں نے بانٹا ان کو شہباز شریف کا لیپ ٹاپ ملا۔ 

 ٭ایک اور ایک گیارہ۔
 اگر کوئی بھولے بھٹکے آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرے تو اسکو جانے نہ دیں ۔اسکو لازمی جواب دیں اس طرح آپ کے بلاگ پرتبصروں کی تعداد ایک کی بجائے دو ہوجائے گی۔اگر آپ میں ذرا مزید قابلیت ہے تو آپ ایک اور ایک گیارہ بھی کرسکتےہیں کہ جواب میں ایسا کرارا جواب لکھیں کہ وہ تپ کر واپسی جواب دینے پر مجبور ہو جائے یوں ایک سے آپ تبصرے گیارہ تک لے جاسکتے ہیں اور پھر وہ اپنے دوستوں کو بھی آواز دے سکتا ہے کہ آؤ ذرا اس پر یوں خوب تبصروں اور بلاگ پر پھیروں کی تعداد میں اضافہ کریں اور آخرمیں صلح صفائی کر کے معرکہ اگلے بلاگ تک ملتوی کردیں۔

 ٭مقدار ہی سب کچھ ہے۔ 
پے در پے پوسٹیں کریں۔اس طرح تنگ آکر کوئی نہ کوئی تو آپکے بلاگ پر آبھٹکے گا۔باقی آپ یہ سوچیں کہ ایک ہو پر نیک ہوتو یہ فارمولا یہاں نہیں چلنے والا یہاں تو وہ بات ہے کہ دو ہی شوق ہیں کھانا ہو اور بہت سارا ہو۔توسارا زور بہت سارا پر ہے۔ 

 باقی بھائیو ہم تو جو آپکی خدمت میں پیش کر سکتے تھے وہ لکھ مارا ہے باقی آپ مانیں یا مانیں آپکی مرضی۔کھائیں دھکے ہمیں کیا اعتراض ہے