September 11, 2012

روم کولر

Room Cooler



 پہلی چیز جو انسان نے ایجاد کی جس سے ٹھنڈی ہوا نکلتی تھی وہ ٹھنڈی آہیں تھیں۔جنت سے نکلے ہوئے انسان جب ملتان
جیسے علاقوںمیں پہنچے ہوں گے تو ٹھنڈی آہیں تو خود بہ خودنکلتی ہوں گی کہ ہم جیسےجنہوں نے فریزر اور پھٹوں پر بکنے والی برف کے علاوہ کبھی کوئی ٹھنڈی شے نہیں دیکھی برف باری کی تصاویر دیکھ کر ایسےٹھنڈی آہیں بھر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہماری والدہ کے الفاط میں"گویا شملے کی پیدائش ہوں"۔

 تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے پہلے پنکھا بنانا سیکھا اور پھر انقلابی ایجاد جو کہ آج کا موضوع لکھواس ہے بھی ہے یعنی روم کولر ایجاد کیا۔ یوں تو کولر کے ساتھ ائیر کنڈیشنر Air Conditioner المعروف اے سی AC بھی آگئےاور پھر اسکے بعد سپلٹ آ گئے لیکن پھر موجودہ حکومت والے آگئے اور عوام واپس کولر ، پنکھے اور ہاتھ والے پنکھے کی طرف لوٹنے لگی۔ 


جب ہم چھوٹے تھے تو بڑے دیدہ زیب قسم کے خوبصورت خوبصورت کولر آیا کرتے تھے جو مضبوط ، زنگ سے محفوظ 
خوشنما رنگوں پر مشتمل ہوتے تھے تاہم پھر پاکستان نے ترقی کی توباقی چیزوں کے ساتھ کولر بھی زوال پذیر ہوگئے اور ایک نئی قسم کے کولر نما کولران پرانے کولروں کی جگہ آ گئےجنکو ہمارے ہاں یعنی جنوبی پنجاب میں لاہوری کولر کا نام دیا گیا خدا جانے وہ لاہور میں بنتے ہیں یا نہیں لیکن وہ ہیں لاہوری کی طرح بولڈ Bold یعنی بغیر کپڑے پہنائے (بغیر رنگ کیے ہوئے) ایک ٹین کی چادر لیکر اس کے اطراف میں درخت کی چھال بھر کر کولر تیار کر دیے گئے ہیں۔اور وہ ٹین کی چادر اس پانی سے زیادہ پتلی ہوتی ہے جو کولر میں ڈالا جاتاہے۔

ہم ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ہمارے گھر میں کولر کی آمد پہلے ہوئی اور پھر اے سی آ تو گیا لیکن زیادہ وقت کولر کے ساتھ ہی گزرا ہے۔تاہم مجھے کولر کبھی بھی اچھا نہیں لگانہ ہی کولر میں سونےکا کوئی خاص شوق رہا ہے۔ کولر چاہے واٹر ہو یا روم ہمارا کوئی خاص اچھا تجربہ نہیں رہا۔جب چھوٹے تھے تو فریج وریج تو ہوا نہیں کرتے تھے تو گرمیوں میں برف لینے چار پانچ کلو میٹر دور جانا پڑتا تھا۔ ایک گرمی دوسرا اپنا بوجھ تیسرا واٹر کولر جس میں برف لانی ہوتی تھی اور جب برف ڈل جاتی تھی تو اسکو اٹھا کر واپس لانا سب سے بڑا مسئلہ بن جاتا تھا۔ واٹر کولر سے جان چھڑانے کے واسطے ہم اس کو راستے میں جان بوجھ کر گرا دیا کرتے تھے کہ ٹوٹے اور جان چھوٹے لیکن تب کے بنانے والوں کو شاید منافع اچھا نہیں لگتا تھالہذا زیادہ سے زیادہ اس کی ٹونٹی لیک leak ہو جایا کرتی تھی جسکو بنوانے ہمیں ایک بار پھر کولر اٹھا کر پیدل مارچ کرنا پڑتاتھا۔ اور یہ آہستہ آہستہ واٹر کولر والی نفرت روم کولر میں منتقل ہوتی گئی۔

 یوں تو پاکستان کیا دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت حبس بے جا میں رکھنا قابل گرفتاری جرم ہے لیکن کبھی سنا ہے کسی کولر کو گرفتار کیا گیا ہو جبکہ اس سے زیادہ کون حبس میں رکھتا ہوگا۔جب میرے والد دبئی گئے تو انہوں نے بتایا یہاں بڑی حبس ہوتی ہے تو میرا پہلا خیال کولر کی طرف ہی گیا اور مجھے کسی سے سنی ہوئی بات پریقین ہو گیا کہ واقعی دبئی والے غریب عربی ہیں جنہوں نے اتنے گرم موسم میں اے سی کی بجائے کولر لگوائے ہوئے ہیں جو وہاں پر حبس پیدا کر رہے ہیں۔اور عوام کے لیے باعث زحمت بنے ہوئے ہیں۔ بجلی بچائیے اپنے لیے قوم کے لیے اور حکمرانوں کے اے سیوں کے لیے سن سن کر ہمارے کان پک گئے لیکن ہماری ذاتی تحقیق کے مطابق کولر کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے۔ایک ہوائی جہاز اڑانے والا پنکھا اور ایک پمپ مستقل چل رہا ہے یہ سسٹم تو کار میں لگایا جائے تو کار اڑ پڑے (آغا وقار صیب جیل سےمتوجہ ہوں)۔اگر کولر کے پر لگا دیے جائیں تو شاید ہی کوئی اس کو اڑنے سے روک پائے۔میں نے کئی بار کہا ہے کہ یہ اے سی جتنی بجلی لیتا ہے لیکن گھر میں کوئی ہماری سنے توناں۔ 

 کولر کی ایک اور خاصیت کرنٹ مارنا ہے۔بچھو ڈنک مارنے سے رہ سکتا ہے روم کولر کرنٹ مارنے سے باز نہیں آ سکتا۔یعنی کہ خون بھی پلائو یعنی پانی بھی ڈالو اور نواب صاحب کو چھوئو بھی ناں۔کہ کولر کو ہاتھ لگا نہیں اور آپ کے چودہ طبق روشن ہوئے نہیں۔پانی گرم کرنے والے راڈ اور روم کولر سے بڑھ کر روئے زمین پر کسی نے اتنے کرنٹ نہیں مارے ہوں گے (صرف بے جان چیزوں کی بات ہو رہی ہےانسانوں کی تو بات ہی الگ ہے)۔ 

 گائوں میں جب جب لائیٹ جاتی تھی تو ہمارے گھر والے چار پائیاں باہر ڈال کر صحن میں سوتے تھے لیکن بجلی آنے پر یا صبح ہونے پر بوریا بسترسمیٹمنا پڑتا اور واپس لوٹ کے بدھو گھر کو آنے کے مصداق سب واپس اندر کمروں میں آجاتے لیکن ہم با امر مجبوری ہی باہر سوتے تھے۔گرمی، مچھر اندھیرے سے بالاتر ہمیں اندر سونا پسند تھا کیونکہ اس طرح ہماری نیند میں خلل نہیں پڑتا تھا کیونکہ ایک بار سو کر اٹھنا اور پھر گھوم پھر کر دوبارہ سونا میرے لیے انتہائی مشکل ہے کہ سو گئے تو سو گئے اٹھ گئے تو اٹھ گئے۔

کولر میں بھی یہ خوبی ہے کہ یہ سکون سے سونے نہیں دیتا۔ابھی آنکھ لگی نہیں کہ آواز آئی بیٹا اٹھو کولر بھرو۔ اب مختصراً ایک منظر پیش ہے تاکہ کولر کی اوپر بیان کی گئی خوبیاں آپ پر مثالوں کے ساتھ واضح ہو سکیں۔ آپ پسینے سے نہائے کولر کے سامنے سوئے پڑے ہیں اور خواب میں بھی اس سوچ میں ہیں کہ یہ کولر کے پنکھے کی ہوا کہاں جاتی ہو گی کہ آپ کو جھنجوڑ کر اٹھایا جاتا ہے کہ اٹھو کولر بھرو۔نیند سے چور چور ہونے کے باوجودآپکو کمرے میں کولر کی خس کے خشک ہونے کی بدبو محسوس ہو رہی ہے۔آپکی بنیان یا قمیص جو آپ پہن کر سوئے تھے میں اتنا پسینہ بھرا ہے کہ نچوڑیں تو کولر بھر جائے لیکن آپکے پسینے کی بو اور کولر کی خشک خسوں کی بو کے ملکر نشہ دو آتشہ ہونے کے ڈر سے آپ نیند میں چیزوں سے ٹکراتے ٹکراتے پانی کا پائپ ٹونٹی سے باندھنے کے بعد کولر میں پانی ڈالنا چالو کرتے ہیں اور نیند کے ایک جھونکے میں ذرا کولر کو چھوتے ہی ایک چیخ مار کر دور جا گرتے ہیں۔اندر سے آواز آتی ہےاو فیر پانی لوڑ دیتا ای ناں ۔جاہلا کوئی کم تے ٹھیک کر لیا کر۔۔۔۔