August 11, 2012

اباجی یا فحش سائیٹ سے اجتناب


انٹر نیٹ پر اردو الفاظ لکھ لکھ کر تلاش کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کونسے ایسے الفاظ ہیں جو لکھے جائیں تو ہمارے بلاگ کا لنک آتا ہے اورروز بروزایسے الفاظ کی فہرست میں اضافہ دیکھ کر ہم اپنا سیروں خون بغیر کسی خرچ کے بڑھاتے رہتے ہیں۔ایسے ہی ایک دن ایک لنک سامنے آیا جس پر لکھا تھا اباجی یا فحش سائیٹوں سے اجتناب۔

جائیں آپ سوئی لینے اور ساتھ مل جائے سلا سلایا سوٹ تو کس کو انکار ہوگا سو ہم نے بھی اس کو کھول لیا اب بھلا کون نہ ایسا نسخہ کیمیا چاہتا ہو گا جس کے ذریعے وہ ابا جی کے قاتل ڈنڈے سے بھی بچا رہے اور انٹر نیٹ پر عیاشی بھی اڑاتا رہے۔


ویسے تو انٹرنیٹ کے سروے بتاتے ہیں کہ اکثر پاکستانیوں کے پاس یہ علاج موجود ہے تبھی تو ہم انٹرنیٹ پر فحش تلاشی میں پہلا نمبر حاصل کر چکے ہیں لیکن کچھ کچھ مجھ سے معصوم بھی پائے جاتے ہیں جنکو فحش سائیٹ سے اجتناب کرنا پڑتا ہے کہ ابا جی کا ڈنڈا جن ستر بیماریوں کا واحد علاج ہے اس میں ایک نام انٹر نیٹ پر خرافات کا بھی ہے۔

یاد رہے کہ جب میں ایک رات چند گوریوں سے نیٹ پر بات چیتchat کر رہا تھا(یہاں پر پاکستانی لڑکیوں کو مایوس ہونے یا غصہ کرنے کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ ہم گوریوں سے صرف اس لیے بات کرتے تھے کیونکہ ایک تو وہ بے تکلف جلد ہو جاتی ہیں اور دوسرا ہمیں یقین ہے کہ انٹر نیٹ پر چیٹ کرنے والی ہر پاکستانی لڑکی اصل میں کمینے لڑکے ہیں جو جعلی اکائونٹ بنا کر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں)کہ صبح کے تین بجے ابا جی میرے کمرے میں داخل ہوئے اور دروازہ کھلنے کی آواز سے میں کمپیوٹر پر گرتا گرتا بچا تھاکیونکہ میرے خیال میں اباجی سو رہے تھے اورابا جی کے خیال میں میں سو رہا تھا اور ہمیں تو ٹیوشن میں لڑکیوں سے بات کرنے کی اجازت نہ تھی کجا کافر گوریاں۔ انہوں نے ڈانٹ کر پوچھا کہ کیا کر رہے ہو میں کانپتی آواز میں بولا کمپیوٹر پروگرامنگ کی پریکٹس کر رہا تھا۔جس پر اباجی نے بھاری ڈوز کا ارادہ ملتوی کرکے ایک چپیت لگا کر کہا کہ چلو سو جائو۔ ایڈا تو پروگرامر۔(ایڈا تو پروگرامر انہوں نے نہیں کہا تھا یہ میں نے تلخیص کر کے انکے جذبات لکھ دیے کیونکہ اگر انکے الفاظ من و عن لکھے جائیں تو ایک الگ بلاگ لکھنا پڑے گا جو صرف بالغان کے لیے ہو گا).

 ابا جی یا فحش سائیٹوں سے اجتناب مضمون کا عنوان پڑھ کر میں سوچنے لگا شاید اس میں بتایا ہو کہ ایسے موقع پر پروگرامر سے بہتر جواب کیا ہو سکتا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے جنگ اخبار کے سنڈے میگزین میں نیٹ بیتی میں چھپنے والی کہانی والی صورتحال میں اباجی سے کسی اچھے طریقے سےاجتناب کرنے کی تجویز دی گئی ہو۔ نیٹ بیتی یوں ہے کہ ایک میرے جیسے سادہ لوح صاحب دوستوں کے ہمراہ نیٹ کلب آنے جانے لگے اور کافی کافی وقت وہاں گزارنے لگے۔ایک روز کیا دیکھا کہ اباجی کے قریبی دوست کی بیٹیاں بھی وہاں آئی ہوئی ہیں اور نیٹ کلب کے مالک سے کہہ رہی ہیں کہ سائیٹ نہیں کھل رہیں۔وہ صاحب حیران ہوئے پھر جیسے ایک مجرم کو دوسرے مجرم سے ملکر خوشی ہوتی ہے ویسے انکو بھی کمینی سی خوشی ملی اور یہ وہاں گئے اور بولے لائیے میں کھول دوں سائیٹ کہ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔وہ لڑکیاں بڑی متاثر ہوئیں کہ بھائی واہ آپ کو تو کمپیوٹر کا بھی بڑا پتہ ہے۔جب سائیٹیں کھول کر دیں تو انکو اباجی سے کوئی بہانہ بچانے کے قابل نہ تھا کیونکہ موصوف کے دوستوں نے ان کو محض فحش سائیٹ کھولنا سکھائی تھیں اوروہ فحش سائیٹوں کو سائیٹ کہا کرتے تھے اور یہ سمجھے کہ سائیٹ صرف یہی فحش سائیٹ ہی ہوتی ہےاور انہوں نے اپنی تاریخی لتریشن کروانے کے لیے وہی اباجی کے دوست کی بیٹیوں کو کھول کر دے دی تھی۔

ویسے تو اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ بندے کو مفت کا چوہدری نہیں بننا چاہیے لیکن ہمارے موضوع میں یہاں پر اباجی سے بہتر ہے فحش سائیٹوں سے اجتناب کر لیا جائے۔لیکن اس مضمون کو دیکھ کر مجھے امید ہو چلی تھی شاید کوئی حل یہاں کا بھی ہو۔کیونکہ ہمارے فارمولے کے مطابق تو اگر آپ اباجی کے ساتھ ہیں تو فحش سائیٹ سے اجتناب کریں اور فحش سائیٹوں کے شوقین ہیں تو اباجی سے پرھیز ضروری ہے۔

ویسے تو پنڈی نیٹ کلب والے کیس میں میں بھی اکثر متاثرین کو اباجی سے اجتناب کرنا پڑ گیا اور کچھ بیچارے تو اباجی سے بچنے کے چکر میں اللہ جی کے پاس پہنچ گئے۔ہوسکتا ہے یہ مضون تب لکھا گیا ہوتا تو شاید کسی کا بھلا ہوجاتایا تب ہی کسی نے ان واقعات سے متاثر ہو کر کسی نے دل جلوں کے لیے مرہم کا انتظام کیا ہوجو ہماری نظر سے اب گزر رہا ہو۔

ایک بار معصومیت میں ایک اور مجھ سا سادہ لوح اباجی کی موجودگی میں اپنے ایک کزن کمپیوٹر انجینئر سے پوچھ بیٹھا یار یہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک سائیٹ کھولو تو دوسری خود بخود کھل جاتی ہے اور پھر اس سے اگلی اور پھر اگلی تو یہ کیا کوئی کوڈ ہوتا ہے۔اس پر کزن نے گھور کر اسکو دیکھا اور کہا کہ ہاں انکی کوڈنگ ایسی ہوتی ہے لیکن ایسا تو صرف فحش سائیٹ پر ہوتا ہے۔اس پر اباجی کی انگارہ نگاہوں کو دیکھ کر اس بیچارے بندے کو ایم ایس این مسینجر اور یاہو مسینجر بھی یاد نہ آیا کہ انکا ویلکم میسج کی مثال دے پاتاتو وہ بیچارہ یہ کہہ پایا کہ میں نے تو کہیں اور دیکھی تھیں ،فحش سائیٹ اور میں توبہ توبہ لیکن سنا ہے بعد میں وہ اباجی کی بیدردی پر توبہ توبہ کرتا پایا گیا تھا تو ہو سکتا ہے اس مضمون میں ایسے موقع پر ایسی سائیٹوں کی مثال دی گئی ہو جو ایک دوسرے سے انٹر لنک ہوتی ہیں اور ایک کے کھولنے سے دوسری بھی کھل جاتی ہے اور وہ فحش بھی نہیں ہوتیں۔

جب ہم نئے نئے کمپیوٹر کے سکندر بنے تھے تو ہر نئے ہاتھ لگنے والے کمپیوٹر کے انٹر نیٹ ایکسپلورر کی ہسٹری دیکھ کر پتہ لگا لیتے کہ موصوف کون کون سے شوق رکھتے ہیں لیکن ہمیں یہ فائدہ تھا کہ ہماری نسل براہ راست چھاپہ پڑنے پر ہی پکڑے جا سکتے تھے کیونکہ ہمارے زمانے کے اباجی کمپیوٹر اور اسکی پیچیدگیوں سے نا بلد تھے یعنی ہمارے لتر پریڈ کے چانس تب ہی تھے جب اباجی کمرے میں آئے اور کمپیوٹر کی اسکرین پر کچھ مخرب الاخلاق قسم کا مواد اسکرین پھاڑ کر باہر آ رہا تھاجبکہ آج کے زمانے میں اس مضمون کی ضرورت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے بچے بیچارے جلد پھنس جائیں گے کیونکہ ہماری طرح کمپیوٹر انجینئر نہ سہی ہماری نسل کے اکثر مرد و خواتین کمپیوٹر سے اچھی خاصی واقفیت رکھتےہیں۔

جب ہم نے کمپیوٹر GW Basic کی پروگرامنگ کرنے کے بہانے خرید ے تھے تو ہمیں سولیٹیئر کھیلنے اور فلمیں دیکھنے کے علاوہ تب کمپیوٹر کا کوئی تیسرا استعمال بھی نہ پتہ تھا۔اور ہمارے والدین کمپیوٹر کی ان دو افادیت سے بھی نا آشنا تھے۔تو اسی لیے ہو سکتا ہے کسی نے وقت اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ عوام کی بھلائی کی خاطر یہ مضمون لکھ کر چھپوایا ہو کے قیمت فقط چند دعائیں ہیں البتہ پوری کتاب مبلغ 200 روپے ہدیہ کے عوض فلاں پتے سے منگوائی جا سکتی ہے۔ ویسے کچھ لوگ اس پر بھی امریکی سازش اور صہیونی ہاتھ کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں مسلمان شاہینوں میں فحاشی کا عنصر اتنا پھیلا جائے کہ وہ شاہینہ کے ہی ہو کر رہ جائیں ہم اس بارے میں ذرا مختلف سوچ رکھتے ہیں کہ اب کوئی بندوق آپ کی کنپٹی پر رکھ تو نہیں کہتا کہ چل کھول فحش سائیٹ ورنہ ماروں گولی؟؟

 یہی سوچتے سوچتے جب وہ سائیٹ کھل گئی تو ہم نے بے تابی سے ماؤس Mouse سے اس صفحے پر کلک کیا اور آنکھیں کھول کر مضمون کا عنوان دیکھا توآنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مضمون "اباجی یا فحش سائیٹوں سے اجتناب "نہیں تھا بلکہ مضمون تھا " اباحی یا فحش سائیٹوں سے اجتناب"۔ اباحی یعنی PORNOGRAPHIC۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آئے اب خواہ ہم عمل کریں یا نہ کریں یہ تو ہمیں پتہ ہی ہے کہ کیسے اجتناب کرنا ہے فحش سائیٹوں سے۔ اس لیے ہم نے وہ لنک Link بند کر کے دوبارہ اپنے بلاگ کو جانے والے اردو الفاظ ڈھونڈنے شروع کر دیے۔

گویا ایک بر وقت نہ نظر آنے والے نکتے نے ہمارے خیالی گھوڑوں کو خوب دوڑایا تھا تاہم ہمیں ایک بار پھر احساس ہوا کہ ہماری سوچ کتنی گندی ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں؟