July 2, 2012

شکار ایک ان دیکھی خوفناک مخلوق کا


 میں اور شکار ایسے ہی ہے جیسے کسی ان پڑھ کو کمپیوٹر کوڈنگ پر بٹھا دیا جائے ۔ ہمیں تو کبھی چھروں والی بندوق نے قابو نہیں دیا کہ چھپکلی یا کووں کا شکار کر پاتے۔میں نے تو کبھی جم کاربٹ صاحب کی کہانی شوق سے نہیں پڑھی ہماری دلچسپی وہاں تک رہتی جہاں پر شیر چیتا یا کوئی اس جیسی مخلوق لوگوں کا جینا حرام کر دیتی جہاں پر انکی مچان بننی شروع ہوتی وہاں ہمارے صفحے پلٹنے شروع ہو جاتے۔

میری طبعیت زیادہ سے زیادہ بٹیرے کے شکار کی متحمل ہو سکتی ہے جہاں رات کو جال (جسکو مقامی زبان میں لاوا کہتے ہیں)لگایا ٹیپ جس سے اسپیکر جڑا ہے میں بٹیرے کی آواز والی کیسٹ لگائی اور خود گپیں مارنے لگے اور زیادہ بور ہو گئے تو نور جہاں کے نیم فحش گانے چلا کر سر درد کی گولی کھا کر سو گئے (نور جہاں اس لیے کیونکہ وہاں پر کوئی اور کیسٹ میسر نہیں ہوتی) اور اگلے دن بازار سے پچیس تیس بٹیرے خرید کر گھر چل دیے۔


لیکن جب سر پر آتی ہے تو خواتین بھی بندوق اٹھا کر دفاع وطن کو نکلتی ہیں تو ایسا ہی واقعہ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا جب چند سال پہلے ہمارے گائوں کوٹلہ سادات میں رات کو ایک عجیب و غریب خوفناک قسم کی آواز آنے لگی جو کہ انتائی کریہہ اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھی اور گائوں کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ اس مخلوق کے ممکنہ شر کے پیش نظر گائوں کے باہر باری باری پہرہ دیا جائے۔لیکن جب خوف کے مارے دو راتیں کوئی نہ گیا اور اس مخلوق کی ڈراونی آوازیں بد ستور آتی رہیں تو گائوں کی حفاظت کے پیش نظر سب مرد اور لڑکوں کو طلب کر کے اس ان دیکھی شے سے مقابلے کا فیصلہ کیا گیا۔

پہلی رات ہم سب پکی سڑک پر (نقشہ دیکھیے)چھوٹے چھوٹے ٹکڑیوں میں بٹے گپ شپ کرتے رہے بڑوں کے پاس بندوقیں اور ہم لڑکوں کے پاس لکڑیاں ، بیٹ اور ہاکیاں تھیں۔ گھنٹہ انتظار کے بعد اس بلائے جان کی آواز یں آنا شروع ہوئیں اور ہم لڑکوں نے کانپتی ٹانگیں چھپانے کی غرض سے پوزیشنیں آگے پیچھے لینا شروع کر دیں اور بڑوں نے کانپتے ہاتھ چھپانے کی غرض بندوقیں سیدھی کرنا شروع کر دیں۔
اس مخلوق کی آواز بھی انتہائی منحوس تھی گویا کوئی کریہہ الصوت چیخیں مار رہا ہو یا بین کر رہا ہو،

ہمارے ساتھ بیٹھے ایک شخص بولے میں بتائوں یہ کیا ہے؟ہم سب جو اس سے قبل مختلف لوگوں سے جرکھ، بگھیاڑ، دیوانی عورت کا قصہ سن چکے تھے کہ لو جی ایک اور بھید کھلنے لگا ہے۔
وہ گویا ہوئے ہم ایک بار لکن لکائی کھیل رہے تھےاور میری باری تھی۔مجھے کہا گیا کہ نبی شاہ والے پر جو بھنڈیاں کاشت ہیں انکے پتے توڑ کر لائو۔

لکن لکائی یعنی چھپن چھپائی چاندنی راتوں میں ہمارے گائوں میں کھیلی جاتی ہے جس میں کھیل کا دائر ہ کوئی دس بارہ کلو میٹر پر پھیلا ہوتا ہے باری دینے والے کو دور کسی جگہ کو ہاتھ لگانے جانا ہوتا ہے اور ثبوت کے طور پر وہاں سے کوئی شے لانی ہوتی ہے اور باقی باغوں میں قبرستانوں میں فصلوں میں چھپ جاتے ہیں اور باری دینے والے کو پکڑنا ہوتا ہےیہاں تک کہ صبح ہو جاتی ہے اور کھیل اگلی رات وہیں سے دوبارہ شروع ہوتا ہے۔
تو جب میں بھنڈی کے پتے توڑ کر جارہا تھا تو یہی آواز سنائی دی تھی میں سمجھا کوئی پچھل پیری یا چڑیل ہے میں ڈر کر درخت پر چڑھ گیا۔تھوڑی دیر بعد راز کھلا کہ یہ مستی میں آیا ہو ایک جنگلی بِلا (بلی کا شوہر نامراد) تھا۔اب چونکہ یہ ایک مربعہ آگے بھنڈیاں کاشت ہیں لہذا یہ جنگلی بلا وہیں سے آتا ہے۔گویا تمام قصور بھنڈیوں کا تھا۔

کھودا پہاڑ نکلا چوہا دیکھ کر ہم نوجوانوں کو سخت تائو آیا کیونکہ ہم ورولف Werewolf (بھیڑیا انسان)نہ سہی بھیڑیا یا شیر چیتے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔کہ کوئی آسمانی مخلوق نہ سہی کوئی خونخوار جانور تو ہوتا۔ ہمارے گائوں کونسا روز روز ایسی چیزوں نے آنا تھا۔ایک لڑکے نے سوال کیا شاہ جی پھر بلے کو جوتا مار کر بھگا دییتے تو آج ہمکو یہ تکلیف نہ ہوتی اسپر وہ بولے ایسی صورتحال میں بلا خطرناک ہو جاتا ہے لہذا میں نے اسے جانے دیا۔دوسرا لڑکا بولا جناب آپکو کیسے پتہ چلا کہ اس کو مستی چڑھی ہوئی ہے اسکے جواب میں چپ رہے کیا پتہ وہ ہم نوجوانوں کے اخلاق کو خراب نہ کرنا چاہتے ہوں۔
خدا جانے ان سے آشنائی کی شرمندگی سے یا ان کے قصوں کے خوف سے یا ہماری آوازوں کی وجہ سے وہ مبینہ بھنڈیوں والےجنگلی بلا صاحب ہمارے پاس نہ آئے لیکن ہمیں انکے راستے کا پتہ چل گیا۔

اگلی رات ایک بار پھر ہم شکار گاہ میں پہنچے اور آج تین گروہ تشکیل دیے گئے اور میں بیس کیمپ کے حصے میں آیاباقی دو گروپوں کی پوزیشن اس بھنڈیوں والے بلے صاحب کے راستے پر متعین کی گئی اور ہمارے حصے میں گپ بازی اوراس مخلوق کے راستہ بدلنے کی صورت میں بستی کادفاع مقرر کیا گیا۔



اس آفت کو مستی پر آئے ہوئی بلے کے طورپر شناخت کرنے والے شاہ صیب آج بھی ہمارے حصے میں آئےاور جیسے ہی آواز قریب آنی شروع ہوئی وہ بولے میں بتائوں یہ کیا ہے؟ ہم ایک بار لکن لکائی کھیل رہے تھےاور میری باری تھی۔مجھے کہا گیا کہ نبی شاہ والے پر جو بھنڈیاں کاشت ہیں انکے پتے توڑ کر لائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا جانے وہ کل کے سامعین بھول گئے تھے یا اس خوفناک صوتی مخلوق کا ڈر بھلانے کا انہوں نے یہ طریقہ نکالا تھایا پھر اس مخلوق نے انکو افواہیں پھیلانےکے پیسے دے رکھے تھے

جوں جوں آواز قریب آتی گئی ہم سب اپنا اپنا خوف چھپانے کی خاطر مختلف کام کرنے لگے کہ ہمارے کانپنے کا کسی کو شک نہ ہو۔
ادھر اب ہماری دلی خواہش تھی کہ یا اللہ یا تو یہ مرے نہ اور مرے تو کم از کم جنگلی بلا نہ ہو اور اگر ہم اتنے گناہ گار ہیں کہ اس منحوس آواز والے نے بھنڈیوں والا جنگلی بلا ہی نکلنا ہے تو کم از کم اسکو مستی نہ چڑھی ہو حالانکہ مستی ماپنے کا آلہ کوئی ایجاد نہیں ہو سکا لیکن ان صاحب کے دعوے سے ہماری توقعات کو شدید ٹھیس پہنچتی تھی۔

اسی دوران ایک سیانے بندے نے انکشاف کیا کہ تم لوگوں میں تال میل تو ہے نہیں یہ بھی ہوسکتا ہے اس مخلوق کو مارنے کے چکر میں گولی دوسرے مورچے میں بیٹھے کسی بندے کو ہی نہ لگ جائے۔لوجی یک نہ شد دو شد۔اب اس ڈروانی آواز کے ڈر میں گولی چلنے کا ڈر بھی شامل ہو گیا اور ہمیں پیشاب کی شدید حاجت ہونے لگی اور ہم سے پہلے وہ بھنڈیوں والے بلے کے ایجنٹ صاحب پیشاب کے بہانے کھسک گئے اور ہم شدید خواہش کے باوجود ماموں کو نہ کہہ پائے کہ ماموں سڑک کے پیچھے نہ ہو جائیں؟

مورچہ 2 سے پہلے شور کی آواز آئی پھر ایکدم خاموشی چھا گئی اور پھر گولی کی آواز آئی۔انکے بعد مورچہ 3 سے گولی کی آواز آئی اور اب تک ہمارے مورچے والوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور دہشت اور خوف کے مارے ہمارے بڑوں نے ہوائی فائرنگ کر کے بندوقوں کے میگزین خالی کر ڈالے۔

جب ہم بیس کیمپ والے مورچہ 2 پہنچے تو وہاں کے انچارج بولے جب اس مخلوق کی گندی آواز قریب آئی تو وہ گولی چلانے لگے تو انکو خیال آیا کہ کہیں کسی اپنے بندے کو گولی نہ لگ جائےجبکہ وہاں کے لڑکے مصر تھے کہ چاچا سے بندوق نہیں اٹھائی گئی آخر جب وہ مخلوق وہاں سے گزر گئی تو تب ہی چاچا کے ہاتھ بندوق آئی اور انہوں نے ہوائی فائر کیا۔جب ان سے اسکی شکل کا پوچھا گیا تو چاچا نے اس کا قد جنگلی بلے جتنا جبکہ لڑکوں نے گدھے جتنا بتایا۔
ادھر مورچہ 3 والے بولے کہ انہوں نے کوئی چیز بھاگتے دیکھی تھی جس پر انہوں نے ہوائی فائرنگ کر دی کوئی چیز کی مزید تفصیلات اور اس چیز کی بجائے ہوائی فائرنگ کی وجہ انہوں نے بتانا مناسب نہ سمجھا تھا۔

اسی دوران وہ بھنڈیوں والے بلے کے تنخواہ خوار بھی آن پہنچے اور اندھیرے میں چھوٹی نہر پر لگے نشانات دیکھ کر بولے میں نہ کہتا تھا جنگلی بلا تھا یہ دیکھو بلی کے پائوں کے نشان۔

ہمیں بہرحال اس بات کی خوشی تھی کہ وہ مارا نہیں گیا کیا پتہ جنگلی بلا ہی نکلتا اور ان صاحب کی بِلے بِلے یا بَلے بَلے ہو جاتی۔

اگلے روز ماموں نے جانے سے انکارکردیا کہ بندوقیں اٹھائی نہیں جاتیں کریں گے ہوائی مخلوق کا شکار۔ ان کے نہ جانے پر باقی لوگ بھی بد دل ہوگئے اور کوئی نہ گیا یوں اس خدائی خوار کا شکار اختتام پذیر ہو گیا۔

خدا معلوم ہمارے نہ آنے پر وہ بھنڈیوں والا مستی میں آیا ہو ا جنگلی بلا بد مزہ ہو گیا ، یا وہ گولیوں کی آواز سے ڈر گیایا شاہ صاحبان کی بہادری دیکھ کر اس چھوٹی نہر کے چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر گیایا وہ بھی مستی میں آیا ہوا جنگلی بلے کا الزام سن سن کر بور ہو چکا تھا اور کسی اچھے مفروضے کی خاطر اور علاقے میں نقل مکانی کر گیا وجہ جو بھی رہی ہو اس دن کے بعد اس کی آوازیں آنا بند ہو گئیں اور اس انتہائی خوفناک آواز والی مخلوق کی حقیقت راز ہی رہی۔