March 1, 2012

حکایت کی شامت

Hikayat ki shamat


چونکہ بات کو کھینچنے میں ہماری قوم اپنی مثال ہےاور آجکل ویسے ہی ایس ایم ایس کے دور میں جب ارسطو کی بات قاعدِ اعظم کے نام سے اور کوئی پھٹیچر شعر غالب کے نام سے موصول ہو رہا ہو تو کچھ بھی ممکن ہے۔ لہذا ہم نے جو حکایت سنی اس کے کردار دیو جانس کلبی اور سکندر اعظم تھے ممکن ہے آپ نے افلاطون، سقراط یا کسی اور کے نام سے سن رکھی ہو بہرحال واقعہ اپنی جگہ موجود ضرور ہے۔باقی کرداروں کا کیا ہے۔

 ہوا یوں کہ سکندر اعظم صاحب دیو جانس کلبی سے ملنے گئے حالانکہ ہمارا پٹواری کسی سے خؤد نہیں ملنے جاتا کجا حکمران۔بجائے اس کے کہ کسی کو بھیجوایا ہوتا کہ بادشاہ سلامت سلام دے رہے ہیں اور کلبی صاحب دوڑے دوڑے دربار پر حاضری دیتے موصوف خود ایک فلسفی جنہیں ہمارے ہاں کھسکے ہوئے سمجھا جاتا ہے سے ملنے پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کر اپنی بادشاہی کی جون میں پوچھتے ہیں بول تجھے کیا چاہیے ۔قرین قیاس یہی ہے کہ اس زمانے میں آج کل کے صحافیوں کی طرح فلسفیوں کو لفافے پہنچائے جاتے تھے ۔اور اپنی اسی حاتم طائی کی قبر پر لاتیں مارنے کی عادت کے باعث جب سکندر صاحب اگلے جہان کو سدھارے تو ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔حالانکہ یہاں بادشاہ تو بادشاہ میڈیا ایڈوائزروں نے محل تعمیر کرا ڈالے ہیں۔موصوف نے بہرحال بادشاہوں کی جگ ہنسائی کا خاصا سامان کیا۔


سنا ہے موصوف یونان میں جمہوریت لانا چاہتے تھے لیکن ان کے وزیروں نے پوچھا آپ لوٹ کھسوٹ کر سکیں گے؟ انہوں نے دونوں ہاتھ خالی والے شعر سے ملنے والہ شہرت کے پیش نظر انکار میں سر ہلایا۔دوسرا سوال پوچھا گیا کیا آپ کی اولاد ہے جو اس جمہوری عمل کو تقویت پہنچائے گی۔جواب ایک بار پھر نفی میں تھا۔جس پر ان کے وزیر جو کہ نہ جعلی تعلیمی ڈگری یافتہ تھے اور نہ اصلی عدالتی ڈگری یافتہ تھے کہنے لگے جا او چاچا کم کر تو بادشاہ ای ٹھیک ایں۔بڑا آیا جمہوریت پسند اور موصوف آئینہ دیکھے بغیر ہی اپنا منہ سا لے کر رہ گئے۔

بہرحال اب اگر اس زمانے میں فلمیں ہوتیں اور کلبی صاحب نے دیکھ رکھی ہوتیں تو تین خواہشوں والے جن کی مناسبت سے مناسب خواہشات کا اظہار کردیتے ۔لیکن انہوں نے سر اٹھایا ، بادشاہ کو دیکھا اور کہا آگے سے ہٹ جائو اور دھوپ آنے دو۔بادشاہ نے اس کے ہاتھ چومے اور ایسی فضول فرمائش پوچھنے پر اپنی عقل پر دو جوتیاں رسید کیں اور گھر آکر دو نفل شکرانے کے پڑھے کہ تھا کھسکا ہوا کچھ ایسا ویسا مانگ لیتا تو۔۔

اب آپ سمجھیں گے کہ کلبی صاحب نے ایسی عظیم چول مار کر ثابت کیا کہ لوگ فلسفیوں کو کھسکا ہوا ٹھیک سمجھتے ہیں پر یورپ والوں سے پوچھیں کہ سردیوں میں دھوپ کتنی پیاری ہوتی ہے۔اگر وہ کسی گرم یا معتدل درجہ حرارت والے ملک کے ہوتے تو وزارت داخلہ، پٹرولیم یا قانون نہ بھی مانگتے تو کم از کم تین چار اے سی تو ضرور مانگ لیتے۔پوچھ کر دیکھ لیں کسی سے گرمی میں جو دھوپ میں جل رہا ہو چاہے وہ فلسفی ہو یا فلسفی کے والد صاحب۔

یہ انکشاف آج صبح بس اسٹیشن پر بس کا انتظار کرتے ہوا کہ آج میرے پاس بھی سکندر بھائی صاحب آتے اور کہتے کہ بول کیا چاہیے تو میں بھی اگر یہ نہ کہتا کہ آگے سے ہٹ جائو اور دھوپ آنے دو تو کم از کم یہ ضرور کہہ دیتا کہ حضور یہ آفر ذرا سائیڈ پر ہو کر نئی ہو سکدی؟؟