January 20, 2012

گذشتہ سال کے اہم واقعات پر ایک نظر

Guzashta saal ke ahem waqeat per aik nazar

مجھے بھولنے کی عادت ہے اس لیے میں باتیں اپنی دماغی ڈائری میں لکھتا ہوں تاکہ بھول جاؤں اور کسی کا کچھ نہ بگڑے پر کچھ کچھ باتیں یاد بھی رہ جاتی ہیں ۔ ایسی ہی چند باتیں جو گزشتہ سال پیش آئیں اور میرے ذہن میں محفوظ بھی رہ گئیں (اس سے آپ ان کے غیر اہم ہونے کا انداذہ کر سکتے ہیں) آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

 نیا سال شروع ہوا۔ یہ نئے سال کا سب سے اہم واقعہ تھا کیونکہ یہ نہ ہوتا تو یہ بلاگ آپ کے سامنے نہ ہوتا

 میرے ساتھ والے اور ان کے ساتھ والے ہمسائے میں گھمسان کی جنگ ہوئی ۔گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔اس دن مجھ پر انکشاف ہوا کہ لڑائی کا مزہ تب آتا ہے جب یا تو آپ کا مد مقابل انتہائی کمزور ہو یا آپ تماشائی ہوں۔


 بھائی کی فون پر لڑکیوں سے بات کرنے کا پردہ فاش کرنے پر ابو سے کٹائی۔والدہ صاحبہ کو شکایت لگا کر ان کو کہا دیکھیں بھائی کےفون میں شمائلہ کا نام محفوظ ہے کہ نہیں جو بھائی نے میرے سامنے محفوظ کیا تھا۔اور جو موبائل میں محفوظ نہ تھا۔ ہاں بھائی کے فون میں محفوظ مستری لطیف کے نمبر پر فون ملا لیتا تووالد صاحب کی مار سے ضرور بچ جاتا۔  

کیبل والوں کی بارہویں بار دکھانے پر فلم "بول" دیکھی اور پہلے گیارہ بار نہ دیکھنے کے اپنے فیصلے کو خوب سراہا۔ 

انتیس روزے کرنے پر مفتی منیب صاحب کے لیے دل میں پہلی بار نرم گوشہ پیدا ہوا ورنہ اب تک تو۔۔۔چلو خیر جانے دیں۔

بکرا عید پر بکرے کے دانت مصنوعی نکل آئے۔لیکن یہ تو آپ جانتے ہیں ، میں جانتا ہوں ، ہمارے گھر والے جانتے ہیں، محلے والوں کو تھوڑا ناں پتہ ہے۔

ابو کے شہر سے باہر ہونے پر جشن آزادی خاصی آزادی سے منایا ۔تیرہ اگست کی رات سے ہی فلمیں دیکھنا چالو کی اور چودہ کی رات جشنِ آزادی منا کر ہی اٹھے۔انگریزی میں ہم زرا کمزور ثابت ہوئے ہیں اور فلمیں بنانے میں پاکستانی کمزور ثابت ہوئے ہیں لہذا مجبوری کے عالم میں بھارتی فلمیں دیکھنا پڑیں۔امید ہے اس سے ہماری حب الوطنی پر شبہ نہیں کیا جائے گا جس کو شک ہو وہ چودہ اگست پر ہمارے گھر میں آکر اپنی آنکھوں سے جھنڈیاں دیکھ جائے۔

 ہزار روپے گم ہونے پر نوکر کو خوب مار پڑی جب کہ اس کو پٹتے دیکھ کر میری جرات نہ ہوئی کہ والد صاحب کو اپنا راہنما اصول بتا سکتا کہ "جو خندق میں گرتا ہے وہ سپاہی کا مال ہوتاہے۔پر اس وقت مجھ سپاہی کے مقابلے ابو نازی فوج کے کمانڈر لگ رہے تھے۔ " اور وہ ہزار روپیہ جوہم کو گیٹ کے پاس گرا ملا تھا اور سپاہی کے طور ہم نے اس کو استعمال کر لیا تھا ہمارے پیٹ میں ڈکراتا رہ گیاجب کہ ہمارا نوکر کافی دنوں تک کراہتا رہ گیا۔

 سات بچوں کی ماں اپنے آشنا کے ساتھ فرار۔ چک نمبر پندرہ گ ب کی مسمات "ف" اپنے ہمسائے میاں قائم کے ساتھ فرار۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ میں نے تو اخبار میں پڑھا تھا آپ بھی تفصیل کے لے سات جولائی کا شام کا اخبار پڑھ لیں۔ یہاں لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سمجھ نہیں آتا قائم صاحب کی چوائس کا افسوس کروں "ف" بی بی کی رنگین مزاجی کا ذکر کروں ، بیچارےالو کے پٹھے شوہر سے تعزیت کروں یا اس صحافی کی عقل کا ماتم کروں جس کو ایک کالمی خبر لگانے کے لیے کوئی اور مواد نہیں ملا تو اس نے سوچا چل استاد۔ ڈبل اے۔

 عرب ممالک انقلاب کی لپیٹ میں۔ دیکھ لیا ہے بچو انقلاب، ہن آرام اے۔ چلو دوبارہ میرا انقلاب پڑھو شاید اب کچھ سمجھ آ جائے آپ لوگوں کو۔

 شہزادے ولیم نے شادی کرکے ہمارے ٹی وی چینلوں کے لیے پرائی شادی میں احمق ناچے کا ایک سنہری اور حقیقی موقع فراہم کیا جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

 ملتان کے اوپر فضائی ٹریفک بند کر دی گئی۔ سنا ہے کوئی انجان ہوائی گاڑی(unindentifying air vehicle)  دکھائی دی تھی اب یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے اگر امریکہ یورپ کے اوپر نظر آتی تو یہ یو اے وی کی بجائے یو ایف او ہوتی (unidentifying flying object) یعنی اڑن طشتری۔ پر نہیں یہاں پر بھی انھی کا اجارہ ہے۔ بھائی کیوں کیا امریکہ کے علاوہ اور یورپ کے علاوہ اور بھارتی فلموں کے علاوہ بندے نہیں ساری دنیا میں ۔کیا پتہ خلائی مخلوق کو بھی سرائیکی میٹھی زبان لگتی ہو اور وہ سیکھنے آئی ہویا پھر وہ ملتا ن کی مٹی پھانکنے آئی ہو یا پھر کسی نے کہا ہو تم کیا ہو خلائی مخلوق پاکستان جا کر دیکھووہاں کیا کیا بلائیں رہ رہی ہیں اور کوئی ان کو خلائی مخلوق بھی نہیں سمجھتا ۔ بہرحال قصہ کچھ بھی رہا ہو آپ کریں تو ادا ہم کریں تو بے حیائی۔آپکی باری ہو تو خلائی مخلوق اساڈی قسمت اچ نیٹو دے ہیلی کاپٹر۔واہ جی واہ اچھا انصاف ہے۔

 یوں تو ویسے بھی سال ختم ہو کر قیامت کا ایک سال قریب ہو گیا ہے پر کراچی یونیورسٹی والوں نے بھی قیامت کے اور نہیں تو دس پندرہ سال تو کم کر ہی دیے ہیں۔ہو سکتا ہے مایا کیلنڈر والوں کی قیامت کا سامان کر رہے ہوں۔

 فراڈستان بلاگ ایوارڈ منعقد ہوئے اور اپنی زندگی کے پہلے بلاگ ایوارڈمیں حصہ لیا اور زمین پر ناک سے لکیریں کھینچ کر آئندہ حصہ لینے سے توبہ کی۔ کہ جب جیوری نے فیصلہ دینا ہی بھنگ پی کر ہے تو پھر حصہ نہ لینے کے باوجود بھی انعام مل سکتا ہے۔ کیوں جی

 سائیکل پر بیٹھے ہوئے سائیکل کا ایکسیڈنٹ۔ بھائی نے اندھیرے کا فائدہ اٹھا تے ہو ئے سائیکل گٹر کے گڑھے میں گرا دی۔ اب گٹر صاحب کا ڈھکن تو موجود تھا پر ایک فٹ سڑک کے لیول سے نیچے۔بس سب سے نیچے گٹر کا گڑھا اس پر سائیکل اور پر بھائی اور اوپر میں۔ بس چھوٹوں کی بھلا زندگی ہے سائیکل جس کا اگلا اور پچھلا پہیہ دونوں جام پور کو پیارے ہو گئے تھے میرا مطلب ہے جام ہو گئے تھے کو میرے ذمے لگا کر بھائی صاحب چل دیے۔ جتنا فاصلہ سائیکل مجھے لاد کر لے آیا تھا اتنا فاصلہ مجھے سائیکل کو لاد کر گھر جا پھینکنا پڑا۔ باقی بھائی صاحب نے ایک سنی پلاسٹ لگا کر شہیدوں میں نام لکھوا لیا۔ اور ابا جی نے انکو موٹر سائیکل لے دی۔

 آمد و رفت اس سال بھی اس دنیا سے لوگوں کی آمد و رفت جاری رہی۔
 جیلا کمہار فوت ہوگیا۔ بیچارہ ہمارے گھر گائوں سے روز دودھ پہنچایا کرتا تھا مجھے تو تھوڑی خوشی ہوئی کہ اب دودھ نہیں پینا پڑے گا۔ پر سنا ہے مرحوم نے پسماندگان میں کوئی تین بیویاں اور پندرہ ایک بچے چھوڑے ہیں جبکہ سوگوران میں ایک ہمسائی چھوڑی ہے۔
 اسامہ صاحب بھی اس دنیا سے چل دے۔پر اسامہ صاحب اور ہماری گلی کے نکڑ پر رہنے والےخان صاحب کا واقعہ ایک سا لگتا ہے۔ نیچے پڑھ لیں۔
 ہماری گلی کے نکڑ پررہنے والے خان صاحب بھی فوت ہو گئے۔مرحوم پنج وقتہ نمازی تھے۔ اسی سال کی عمر میں سارا دن یا اللہ اللہ کیا کرتے تھے یا کرکٹ کھیلنے والے لڑکوں کو اپنے گھر بال پھنکنے پر گالیاں نکالا کرتے تھے۔ خان صاحب فوت نہیں ہوئے۔براہ کرم ذہین نوکر نہ رکھیے گا۔ مسجد میں خان صاحب کے نام کا اعلان سن کر ہمارے نوکر نے فرض کر لیا ہو ناہو یہ ان کی وفات کا اعلان ہوگا۔اصل میں قصور اس بیچارے کا بھی نہیں ۔خان صاحب کے گھر سے بال اٹھانے ہمیشہ وہی بیچارہ جایا کرتا تھا۔

 سارا سال ہمارے دماغ میں گندے خیالات پیدا ہوتے رہے جنکو ہم الفاظ کے کپڑے پہنا کر آپکے سامنے بلاگ کی صورت پیش کرتے رہے۔