January 1, 2012

ہدایت نامہ سفری حصہ دوم

hadyat nama safri -II


وہ مشہور واقعہ تو سن ہی رکھا ہو گا آپ نے کہ ایک بار علامہ اقبال اسکول دیر سے پہنچے تو استاد نے پوچھا اقبال دیر سے کیوں آئے ہو تو علامہ صاحب نے فرمایا حضور اقبال ہمیشہ دیر سے آیا کرتا ہے۔یہ بیسیویں صدی کے آغاز کا واقعہ ہے پر اکسیویں صدی کے آغاز میں بچے دیر سے آنے پر کہتے ہیں سر پی آئی اے ہمسیشہ دیر سے آتا ہے
 ۔کیا مطلب؟ جہاز سے آ رہا ہوں ناں سر۔

پی آئی اے کے بارے میں آپ نے سنا تو ہو گا کہ باکمال لوگ لاجواب سروس۔لیکن سننے سننانے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک آپ سفر نہ کریں۔

پی آئی اے والے مساوات کو اہم ترین اصول مانتے ہیں لہذا قومی ہو یا بین الاقوامی دونوں جگہ آپ سے یکساں سلوک کیا جائے گا۔اگر آپ کاخیال ہے کہ بین الاقوامی پروازوں پر حال بہتر ہوگا تو یہ حال نہیں ماضی ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ پی آئی اے والے مساوات اور ہر بندے کے برابر حقوق کے حامی ہیں لہذا نشست کا الاٹ کردہ نمبر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔آپ نے دو ہفتے پہلے جو کھڑکی والی نشست اپنے لیے محفوظ کرائی تھی عین ممکن ہے کہ آپ کے پہنچنے پر وہاں پر ایک اور صاحب براجمان ہوں جو آپکے بورڈنگ کارڈ پر آپکا نشست نمبر دیکھ کر کہیں آپ اِدھر ساتھ والی نشست پر بیٹھ جائیں کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ نے تلتما کر فضائی میزبان سے شکایت کی تو اس نے جواب دیا آپ کہیں اور بیٹھ جائیں۔اب وہ بھی سچی ہیں کہ جس کے پاس انٹرنیٹ نہیں کیا اس کا کھڑکی والی نشست پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں؟

اور دوسرا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ پہنچیں تو پتہ چلے کہ آپ کے ساتھ والی نشست پر خاتون بیٹھی ہیں۔معذرت کے ساتھ پر میں پاکستانی خواتین کی ہمسائیگی سے تنگ ہوں۔لڑکی ہو عورت ہو یا معمر خاتون کوئی بندہ ساتھ بیٹھا نہیں کہ ایمان خطرے میں پڑا نہیں۔بات یہ نہیں کہ ایسا نہ کریں،بالکل کریں ،اچھی بات ہے لیکن مسئلہ یہ کہ انہوں نے اپنی سیٹ بھی نہیں چھوڑنی اور کسی بندے کے ساتھ بھی نہیں بیٹھناگویا ہجرت آپ کو ہی کرنی ہےانہوں نے اپنی نشست چھوڑ کر کسی اور خاتون کے ساتھ نہیں بیٹھنا۔تو بھائی اگر آپ نے نشست پہلے سے محفوظ کرائی ہوئی ہے تو زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں۔اس کو محض ایک کھیل سمجھ لیں کہ چل یار فارغ بیٹھے ہیں نشست محفوظ کرانا کھیلیں۔

چونکہ صفائی نصف ایمان ہے اس لیے پی آئی اے والے باقی نصف کی فکر کرتے ہوئے صفائی کو خاص اہمیت نہیں دیتے۔خاص تو کیا وہ تو خیر عام بھی نہیں دیتے۔مثلاً نشست کے پیچھے لٹکا ہوا پیلا کپڑا جو اصل میں سفید ہوا کرتا تھا پیلا ہوتا جارہا ہے۔جس پر بد نما دھبے اور میل کے نشان نمایاں ہیں اور آپکو اسی پر سر ٹکانا ہے پر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ قومی ایر لائن خسارے میں ہے دھوبی کا خرچہ کہاں سے لائے۔اور جب آپ نے سر ٹکا لیا تو پھر آپکو نظر تھوڑی آرہا ہے کہ وہ صاف ہے کہ میلا۔آخر آپ کو کچھ تو برداشت کرنا پڑے گا۔

ترکش ایر لائن میں ایک بار سفر کرتے ہوئے میرے ساتھ بیٹھے ایک بڑی عمر کے انکل نے کہا آپ نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ فضائی میزبانوں کو خاص طور پر ٹریننگ دی گئی ہے کہ انہوں نے مسکرانا نہیں ہے۔حالانکہ بات فقط اتنی سی تھی کہ انکل ذرا شوقین مزاج تھے اور خاتون میزبان ذرا مصروف پر پاکستان میں انکو کاٹ دوڑنے کی ٹریننگ ضرور دی جاتی ہے۔

ہر صنف نازک میزبان خواہ نازکی کبھی اس کو چھو کر نہ گزری ہو یا چھو کر کافی عرصہ پہلے گزر گئی ہو یہ سمجھتی ہے کہ وہ ملکہ حسن ہے اور یہ جتنے مسافر ہیں یہ سب اوباش، لفنگے ہیں اور ان سب کا مقصد صرف اور صرف اس پر لائن مارنا ہے اور جو مرد میزبان ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان مسافروں کے باپ کے نوکر ہیں کیا جو ان کی بات سنیں، ٹکٹ لی ہو گی اپنے پیسوں سے لی ہو گی ہمیں کوئی گھر سے دانے نہیں دیتے ہمیں پی آئی اے تنخواہ دیتی ہیں ہم مسافروں کی نوکری کیوں کریں۔تو نتیجہ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ سیانے بیانے بندے ہیں ایک آدھ بار تو پی آئی اے سے پالا پڑا ہی ہوگا۔

لاجواب سروس میں آپ کو ایسی ایسی اطلاعات سننے کو مل سکتی ہیں کہ غالب کے الفاظ میں روئوں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں۔

سب سے مشہور اور سب سے عام کہ تکنیکی خرابی کے باعث پرواز تاخیر کا شکار ہے۔ امید ہے آپ آئندہ بھی پی آئی اے میں سفر کریں گے۔پی آئی سے پرواز کرنے کے لیے ٹکٹ نہیں قسمت ہونی چاہیے۔ قسمت اچھی ہوئی تو پرواز اُڑی ورنہ چلو جی ہوٹل یا بیٹھے رہو ہوائی اڈے پر قسمت کو کوستے۔

کچن میں اے سی اور اوون کی خرابی کی وجہ سے کھانا خراب ہو گیا ہے لہذا ہم آپکو تجویز کریں گے کہ کھانا نہ کھایا جائے ۔اس کے باوجود جو صاحب کھانا کھانا چاہیںوہ طلب کر سکتے ہیں۔ امید ہے آپ آئندہ بھی پی آئی اے میں سفر کریں گے۔ (یہ اعلان دبئی سے ملتان جانے والی پرواز میں کیا گیا تھا)

جہاز کا اے سی صیح طور پر کام نہیں کر رہا جس کے ہم معذرت خواہ ہیں۔ امید ہے آپ آئندہ بھی پی آئی اے میں سفر کریں گے۔

باتھ روم میں پانی کا نظام صیح سے کام نہ کرنے کی وجہ سے باتھ روم قابل استعمال نہیں ہے۔لہذا انتہائی ضرورت کے علاوہ اس کو استعمال نہ کریں۔امید ہے آپ آئندہ بھی پی آئی اے میں سفر کریں گے۔

لاجواب سروس کے سلسلے میں ایک اور واقعہ سن لیں کہ ایک بار چائے دیتے خاتون میزبان نے چائے مسافر پر گرا دی اور اس کے بعد کہتی ہے  چلو کوئی بات نہیں، چائے گرم نہیں تھی۔

با کمال لوگوں نے بھی وہ چاند چڑھائے ہیں کہ کیا لکھوں۔
باتھ روم میں سیگرٹ پینا۔
جہاز رکا نہیں اور مسافر ایسے سامان کو لپکتے ہیں کہ نیا شخص سمجھے کہ بلوہ ہو گیا ہے۔ شکر ہے جہاز کی کھڑکیاں نہیں کھلتیں ورنہ جہاز رکنے سے قبل ہی باکمال لوگ لا جواب سروس سے باہر ہوتے۔ حال ہی میں خبر آپ کی نظر سے گزری ہوگی جب ایسے ہی سانحے میں کئی مسافر سر پھٹوا بیٹھے اور جو لوگ جہاز رکنے کا انتظار نہیں کر سکتے وہ ابتدائی طبی امداد کے لیے کہاں رکتے۔
موبائل بند کرنا تو مسافروں کو ایسے لگتا ہے جیسے موبائل بند کرنے کا نہ کہا سانس بند کرنے کا کہا ہو۔کیپٹن چیخ چیخ کر مر گیا کہ بند کرو موبائل پر ہم لگے ہوئے کہ اڑنے والے ہیں، اڑ گئے ہیں، اوئے ایک منٹ ہوسٹس آ رہی ہے ،چلی گئی ہاں تو کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔
بیلٹ سے تو اینٹ کتے والا بیر ہے۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں بیلٹ باندھیں گے۔
جہاز میں لوگوں کوتھوکتے تو میں نے خود دیکھا ہے ۔
ہوسٹس کے بارے ایسے ایسے جملے کہنے ہیں کہ میرے جیسے بندہ بھی پانی پانی ہو جائے۔

جب ہم چھوٹے تھے تو اکثر ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے پاکستان کی قومی ایر لائن کونسی ہے تو سیانے بچے  تو کہہ دیتے تھے پتہ نہیں پر میرے جیسے معصوم کہہ بیٹھتے تھے پی آئی اے۔پوچھنے والا منہ پر زور کا طمانچہ مار کر کہتا تھا تھپڑ کھائیے۔فرق یہ ہے کہ تب پی آئی اے کہنے پر تھپڑ سہنا پڑتا تھا اب پی آئی اے سے سفر کرنے پر تھپیڑے سہنے پڑتے ہیں۔

امید ہے کہ آپ باکمال لوگ لا جواب سروس سے آگاہ ہوں گے اگر نہیں تھے تو اس کاوش کو پڑھ کر جان چکے ہوں گے اگر مزید کچھ چیزیں سوال طلب ہوں تو سفر کر کے دیکھ لیں نہ گھوڑا دور نہ میدان دور سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا۔

پس تحریر: یہ پچھلے بلاگ کا دوسرا حصہ تھا جو طوالت کی بنا پر دو حصوں میں شائع کیا۔
جبکہ ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ یہ صرف میرے اور آپ کے جیسے عام بندے کے اوپر یہ حقیقتیں لاگو ہوتی ہیں۔اگر آپ کے پاس سفارش ہے۔ جان پہچان ہے، پی آر ہے یا آپ ویلکم اَ بورڈ کو ویلکم اَبراڈ پڑھتے ہیں تو پھر یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔