July 1, 2011

ایک نا سفر کا سفر نامہ

aik na safar ka safarnama


سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے کی اس تواتر سے تشہیر کی گئی کہ مجھے شک گزرنے لگا کہ میں گجرانوالہ جانے کی تیاری کر رہا ہوں یا ایتھنز کی۔گویا آپ کسی فضائی طیارے میں بیٹھے یونان کے دارالحکومت ایتھنز جو ایک وقت پوری دنیا کا دارالحکومت تھا نہیں بلکہ کسی شبیر طیارے یا نیازی یا منٹھار میں بادامی باغ سے تحصیل جڑانوالہ کے دارالنمبردار چک بیاسی جا رہے ہوں کہ سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے، خیر نال آتے خیر نال جا، جلنے والے کا منہ کالا ، سفر سے پہلے کلمہ پڑھ لیں ہو سکتا ہے یہ آپکا آخری سفر ہو پر کیا کیا جائے کہ ایتھنز میں آنے والے سیاحوں کو سب سے پہلی بات یہی بتلائی جاتی ہے اور بار بار بتلائی جاتی ہے کہ واپسی پر آپ کا سامان آپ کے پاس ہو یا نہ ہو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں۔

 یونانیوں کاحال بھی اب کسی ایسے جاگیردار سا ہو چکا ہے جس کے باپ دادا کے پاس تو سینکڑوں ایکڑ زمین رہی ہو لیکن اب وہ ہر چیز بیچ باچ کر نام کا ہی زمیندار رہا ہو۔لیکن دماغ میں اکڑ فوں آج بھی وہی پہلے دن والی ہو۔پر اس کا زور اب چند ایک ہی کمیوں پر چلتا ہو۔اسی لیے بیچارے یونانی اب ملک ملک جا کر لوٹ مار تو کرنے سے رہے پر آنے جانے والوں کے مال کی بہتی گنگاسے حتی الوسیع ہاتھ دھوتے رہتے ہیں۔سکندر کے جانشین اب سیاحوں ، اقلیتوں اور پناہ گزینوں کو سر کرنے کے مشن پر نکلے ہیں۔

 ایتھنز جانے کا شوق محض گلیڈی ایٹر اور بن حر دیکھ دیکھ کر نہیں ہوا تھا بلکہ ایتھنز ہوائی اڈے پر چار گھنٹے میں گزار چکا تھا جہاں جہاز کے اترتے اور اور بلند ہوتے ایتھنز کے فضائی نظارے نے ایتھنز کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا تھا جو آتے جاتے کو دعوت دے رہا تھا کہ جیون میں ایک بار آنا ایتھنز۔

 ایتھنز کے ہوائی اڈے پر جس امیگریشن والی خاتون سے پالا پڑا تھا اس سے مجھے انگریزی زبان میں شناختی کارڈ بنوانے کے دوران نادرا کے دفتر میں ملنے والی وہ خا تون یاد آ گئی جس نے میرے کوائف کمپیوٹر میں درج کیے تھے۔دونوں خواتین شکل و صورت کے حساب سے ایک جیسی ہی تھیں۔ان کی شکل پر ہمارے ہاں بولی جانے والی ایک بات درست طور بیٹھتی تھی کہ "دونوں میری طرح خوبصورت تھیں "۔ یونانی دوشیزہ گھنگریالے بالوں اور گوری رنگت کے باوجود اس پاکستانی خاتون سے ایک درجہ کم ہی تھی اور دونوں کی کام کرنے کی صلاحیت بھی ماشاء اللہ ہی تھی۔ شناختی کارڈ کے دفتر میں ملنے والی موصوفہ کلیدی تختے Key board پر کلید Key کے مقامات سے بھی ناآشنا تھیں اور تب تک حرف ڈھونڈتی رہتی تھیں جب تک میں تنگ آکر اس کی نشاندہی نہ کر دیتا تھااور ایسے ہی وہ یونانی حسینہ بھی پندرہ منٹ کی محنت کے بعد بھی میرا یورپی ویزے کا آن لائن ریکارڈ ڈھونڈنے میں ناکام رہی اور تنگ آ کر خروج کا ٹھپہ لگا کر پاسپورٹ میرے حوالے کر کے مجھے چلتا کیاجبکہ میرے عارضی سکونت کے کارڈ کی وجہ سے میرا پاسپورٹ پر ٹھپہ صرف ان ممالک میں لگتا ہے جہاں کمپیوٹرائز نظام نہیں وگرنہ وہ آن لائن ہی میری آمد و اخراج درج کر دیتے ہیں۔

لیکن اس معمولی ناخوشگوار واقعے نے بھی ایتھنز کی محبت میں کمی نہ ہونے دی اور میں جہاز میں یہ عز م کر کے بیٹھا کہ ایتھنز نہ دیکھا تو کچھ نہ کیا۔ اس چکر کے بعد میں ہر روز وارسا سے ایتھنز کی ٹکٹ کی قیمت دیکھتااور ایک روز میں خوشی سے اچھل پڑا کیونکہ ٹکٹ محض چھ سو زواتی کی تھی ۔میں نے اپنے ایک دوست کو راضی کیا اور اس نے اپنے ایک دوست کو راضی کیا اور ہم نے پروگرام پکا کر لیا کہ کافر حسیناؤں اور یونانی کھنڈرات کو دیکھ کر عبرت حاصل کر آئیں۔ اب ٹکٹ خریدنے کی باری آئی تو میرے اکاؤنٹ میں فقط پچاس زواتی (پولش کرنسی ایک زواتی برابر 30 روپے پاکستانی) تھے۔دوست سے پوچھا تو اس کے اکاؤنٹ میں بھی کوئی سو ایک زواتی تھے۔میں نے دوست کو مشورہ دیا کہ اکاؤنٹ میں جمع کرا کر ٹکٹ خرید لی جائے لیکن میرے دوست نے مشورہ دیا کہ اس کے دوست کے پاس پیسے ہیں لہذا اسی کا اکاؤنٹ استعمال کر کے ٹکٹ خرید لیں گے۔شام کو وہ دوست آیا تو پتہ چلا کہ وہ بھی آج کل ہماری طرح کیش میں ہی لین دین کر رہا ہے۔بات اگلے روز پر ٹل گئی اور اگلے روز اتوار تھا۔

پیر کے روز ہم نے پہلا کام بنک میں پیسے جمع کرانے کا کیا۔ اور جب سب کچھ طے ہو گیا اور میں ٹکٹ خریدنے اور ہوٹل بک کرانے کے لیے آن لائن ہوا تو ٹکٹ سولہ سو زواتی کی ہو چکی تھی اور یوں ہم اپنے سامان اور ایمان کی حفاظت کے تکلف سے آزاد ہو گئے۔کسی نے سچ کہا ہے ذہنی سکون سب سے بڑی نعمت ہے حتیٰ کہ یونان سے بھی بڑی۔