June 1, 2011

چاند اور چاند کے ہم نام

chand aur chand ke humnam


جو لوگ معاشرے میں بیویوں کے ان کے مطابق نہ ملنے والے مقام اور شوہرانہ برتری سے شاکی رہتے ہیں انہوں نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے سب اچھی اچھی چیزوں پر تو بیویوں کا قبضہ ہے حتی کہ مظلومیت بھی انہوں نے اپنے اختیار میں لے رکھی ہے۔کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ چاند کو تو ماموں کہا جاتا ہے اور چاچا کون کہلاتا ہے۔چاچا مالی، چاچا موچی، چاچا مستری،چاچا مزدور وغیرہ وغیرہ۔آج کی بات خواتین کی زیادتیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ چاند کے بارے میں ہے، چندا ماموں نہیں صرف چاند۔ماموں پر بات کر کے میں نے اپنی والدہ سے مار تھوڑی ناں کھانی ہے۔

یوں تو ہر کسی کی طرح میرا بھی چاند سے پہلا تعارف مشہور زمانہ نظم چندا ماموں دور کے سے ہی ہوا تھا۔لیکن جب میں پہلی جماعت میں پڑھتا تھا تو تب پہلی بار میں چاند سے متاثر ہو ا تھا۔چاند سے متاثر کہنا تو درست نہ ہوگا اصل میں تب میرے ساتھ ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا جس کا نام چاند تھا۔پڑھائی میں تو خیر وہ چاند ہی چڑھائی کھڑا تھا لیکن جب بھی حاضری لگتی تھی مجھے اس کا نام بڑا پیارا لگتا تھا۔آخر ایک دن میں اپنی والدہ سے پوچھ ہی بیٹھا کہ ممامیرے ہم جماعتوں کے کتنے اچھے اچھے نام ہیں آپکو کوئی اور نام نہیں ملا تھا ’علی‘ یہ بھی بھلا کوئی نام ہوا۔مما کہنے لگیں اچھا پھر کیا رکھتے ؟میں نے کہا اتنے سارے اچھے نام ہیں مثلاً مثلاً چاند ہی رکھ دیتے۔مما ہنسیں اور کہنے لگیں آپ بھی تو میرے چاند ہو میں نے کہا پر پوری جماعت کا تو نہیں ہوں ناں۔مما ہنستی رہیں اور میں سوچنے لگا اب مما کو کیا سمجھاؤں۔


 چند سال قبل ہمارے ساتھ ایک لڑکا کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔بڑی تیز گیندیں پھینکا کرتا تھا مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا تھا کہ میرے سے مشورہ کیا کرتا تھاکہ بالنگ کیسے سدھاری جائے گویا میں اس کا غیر سرکاری کوچ تھا ۔اس کا نام بھی چاند تھا۔لیکن تب تک میں چاند کے نام کے سحر سے نکل چکا تھا اور میں یہی سمجھتا رہا کہ اس کی عرفیت چاند ہے ۔ایک روز میں اس کو گھر سے بلانے گیاتو اس کے گھر کے آس پاس دیواروں پر چاند بابو اور چاند بابو کے نام کے نعرے درج تھے۔ مجھے بڑی ہنسی آئی اور نام بڑا مضحکہ خیز لگا ’چاند بابو‘۔جب چاند آیا تو میں چاند بابو نام کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ یہ چاند بابو کہا بلا ہے؟وہ بولا میرا نام چاند بابو ہی ہے۔خفت تو بڑی ہوئی لیکن شکر زیادہ ادا کیا کہ عاشقی میں عزت سادات جاتی جاتی رہ گئی ورنہ جو کہنا چاہ رہا تھا اس کے بعد اس کے بلے باز بننے کا خاصا امکان تھا ۔سمجھ تو خیر آپ گئے ہی ہوں گے۔

یوں تو زمین کے گرد ایک ہی چاند گردش کرتا ہے جسکے ہم سب کبھی نہ کبھی دیوانے رہے ہیں لیکن میں جس تیسرے چاند کو جانتا ہوں وہ میرے ایک دوست کا دوست تھا اور آپ تو جانتے ہیں دوست کا دوست بھی دوست ہو ہی جاتا ہے۔چاند ویسے شروع سے ہی مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔جو لڑکے کرکٹ نہیں کھیلتے تھے یا مجھ سے اچھی کھیلتے دونوں مجھے نہیں بھاتے تھے اور صیح سے مجھے یاد نہیں پرچاند ان دونوں میں سے ایک گروہ میں ضرور تھا ۔ایک روز ہم سب اکٹھے جا رہے تھے تو شرارت شرارت میں ہم لوگوں کے دروازے کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے لگے۔لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ چاند نے گھنٹی بجائی اور ہم سب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن چاند نہ بھاگا اورآہستہ آہستہ چلتا رہا نہ صرف یہ بلکہ جب دروازہ کھلا تو کہنے لگا بھائی جان وہ لڑکے بھاگے جارہے ہیں جو سب کی گھنٹیاں بجاتے پھر رہے ہیں۔جب دوسری بار اس نے ایساکیا اور پھر جب وہ آکر ہنستے ہنستے ہم میں شامل ہوا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا میں نے اس کو کھری کھری سنائیں اور گلی بدل کر اکیلے ہی گھنٹیاں بجانے لگا اور باہر آنے پر آگے جانے والوں کا نام کہنے لگا کہ انکل وہ بجا کر بھاگ گیا ہے۔۔آپ ہی بتائیں دوستی ایسی ہوتی ہے کیا؟بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی بھاگنا ہے تو ساتھ بھاگے ہم اکیلے کیوںِ پِٹیں بھائی؟یہ میری اور اس کی آخری اکٹھی گھنٹی تھی۔

 نیلے چاند یعنی بلیو مون کا تذکرہ ہوا تو میں ذرہ بھی حیران نہیں ہوا کیونکہ دنیا والوں کے لیےچاند بے شک نیچے اترا ہوگا پر یہاں پولینڈ میں ہر روز یوں لگتا ہے کہ اگلی عمارت کی چھت پر ٹانگیں پسارے بیٹھا ہے۔یہاں تو بلیو مون اور ہنی مون کو یوں سمجھیں کہ روز ہی اتوار ہے۔ 

پر اللہ جانتا ہے ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک اصل چاند کی الفت کسی طور کم نہ ہوئی۔حالانکہ اللہ پوچھے امریکہ سے یہاں بھی ہمارے خوشی اسے نہ بھائی اور اس نے وہاں بھی اپنے بندے بھیج کر الٹی سیدھی باتیں پھیلانے کی کوشش تو بہتیری کی اور نیل آرمسٹرانگ صاحب نے وہاں جا کر ارشاد فرمایا کہ چاند پر خاک اڑتی پھر رہی ہے کوئی بوڑھیا چرخہ نہیں کات رہی اور وہاں اکسیجن ماسک کے بغیر سانس لینا بھی ممکن نہیں اور وہاں پر زندگی کا کوئی امکان نہیں اور یہ اور وہ۔ لیکن یہ تو بھلا ہو میڈیا والوں کا اورسازشی مفروضوں کا جنہوں نے بڑی تفصیل سے ہمارے زخموں پر پھاہا رکھا اور یہ بتایا کہ آج تک کوئی بندہ چاند پر نہیں پہنچا یہ سب ٹوپی ڈرامہ تھاورنہ ہم مصنف، شاعر تو زمین پر بغیر آکسیجن کے سانس لینے میں مشکل محسوس کر رہے تھے۔لیکن اگر موقع ملتا تو نیل آرمسٹرانگ سے ایک بار ضرور ملتا تو اور ان کو سب اردو کا چاند سے متعلق ادب پڑھاکر پوچھتا کہ اگر چاند پر گئے بھی تھے تو اس کی برائیاں کرنے کی کیا ضرورت تھی اتنے لوگوں کا دل توڑ کر کیا ملااور اب لوگ ویسے ہی آپ کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں اور اگر نہیں گئے تو خوامخواہ ڈینگیں مارنے کا کیا فائدہ ہمارے رویت ہلال کے علماء نے بھی کبھی بونگیاں ماری ہیں حا لانکہ ان میں سے اکثر نہ ہونے والے چاند کو بھی پا لیتے ہیں۔