April 25, 2010

پولینڈ کا اچھا اچھا

Poland ka acha acha


بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ پولینڈ کے خلاف لکھتے ہو۔میاں یہ عادت اچھی نہیں ہے۔جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں چھید کرتے ہو۔تو آج کی تحریر میں پولینڈ کے حق میں سب اچھا اچھا لکھ کر ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں ہر وقت پولینڈ کے خلاف نہیں لکھتا بلکہ جو باتیں تعریف کرنے کے قابل ہیں وہ بھی مانتا ہوں۔ لگے بندھے طریقوں پر سوچنے والوں نے جتنی افواہیں پھیلائیں ہیں اتنی تو شام کے اخباروں نے بھی نہیں پھیلائیں۔سکاٹش بے وقوف ہیں،عربی دہشت گرد ہیں، پاکستان غصیلے ہیں وغیرہ وغیرہ ایسے ہی پولینڈ کے بارے میں لوگوں نے بہت سی افواہیں پھیلا رکھی ہیں مثلاً جب ہم پہلی بار پولینڈ آئے تھے تو ہمیں بتایا گیا کہ تیار ہوجاؤ۔سردیوں میں طبعیت سیٹ ہو جائے گی۔جب درجہ حرارت منفی بیس کو چھوتا ہے تو ہر چیز جم جاتی ہے ۔ہر چیز حتیٰ کہ  پیشاب بھی۔میں یہاں پر یہ تردید کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بے فکر ہو کر پولینڈ آئیں۔سب جھوٹ ہے ۔اس سال درجہ حرارت منفی تیس تک جا پہنچا تھا ۔لہذا چشم دید ہونے کے باعث میں کہنا چاہتا ہوں کہ پیشاب نہیں جمتا۔بالکل نہیں جمتا۔


کہتے ہیں کہ ہر پولش شراب پیتا ہے۔اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ہر پولش شراب پیتا ہے بلکہ مناسب یہ ہے کہ ہر پولش شراب اپنے اندر انڈیلتا ہے۔لیکن اس دقیانوسی سوچ کی تردید اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کرنا چاہوں گا کہ تین ہفتے قبل میں ایک پولش سے ملا تھا جس نے 35 برس تک شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایاتھا۔ہاں اب پیتا ہے۔اور پچھلے ہفتے میں ایک اور شخص سے ملا ہوں جس نے پچھلے تین سال سے الکوحل کا ایک گھونٹ بھی نہیں بھرا۔ان دو روشن مثالوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ ہر پولش مرد و عورت شراب پیتا ہے بلکہ شراب اپنے اندر انڈیلتا ہے۔

سنا ہے کسی پولش کے لیے اس سے بڑی گالی نہیں کہ اس کو روسی کہا جائے۔وہ بڑی سے بڑی گالی سن لے گا پر اپنے آپ کو روسی کہاجانا اس کے برداشت کی حد سے باہر ہے۔لیکن یہاں آکر پولش لوگوں سے مل کر مجھے تو یہ بھی امریکن پراپگنڈا لگتا ہے۔ٹھیک ہے روسیوں نے کافی عرصہ تک پولینڈ پر قبضہ کیے رکھا ہے اور پولش لوگ روس کے خلاف ہیں لیکن ایسی بھی کیا دشمنی کے ہر گا لی سے بڑی گالی روسی ٹھہرے۔میرے سابقہ فلیٹ کی مالکن کو سارے بلڈنگ والے روسی کہتے تھے لیکن اس نے کبھی برا نا مانا تھا۔ایک روزاس نے ہمیں خود بتایا تھاکہ وہ روس میں پیدا ہوئی تھی اور وہیں پلی بڑھی تھی لیکن ایک پولش مرد سے شادی کر کے اب وہ بھی پولش ہو گئی ہے۔اور وہ لوگوں کا اس کو روسی کہنا قطعی برا نہیں مانتی۔پس ثابت ہو ا کہ تمام پولش روسیوں سے نفرت نہیں کرتے ۔

جب میں پولینڈ آیا تو یہاں لوگوں کی باتیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ پولش لوگوں سے بچ کر رہنا ہے ۔ہر پولش کے ہاتھ میں ظاہری یا پوشیدہ ودکا کی بوتل ہوگی جس پر لکھا ہو الکحول صد فیصد،روسیوں کو سرِ عام گالیاں دیتے ہوں گے اور ہر جملے میں دو بار ’ک‘ سے شروع ہونی والی گالی دو بار تو کم ازکم بولتے ہوں گے جوپنجابی میں والدہ صاحبہ والی گالی کے ہم پلہ ہے۔شراب اور روسیوں کا معاملہ دیکھ لیا باقی جہاں تک گالی کا تعلق ہے میں بقائمی ہوش و حواس کہتا ہوں کہ میں نے اپنے دو استادوں کے منہ سے آج تک یہ گالی نہیں سنی۔ایک استانی نے البتہ اتنا پوچھا تھا کہ آپ نے وہ کاف والا جادوئی لفظ سنا ہے؟جب کچھ لڑکوں نے لفظ سننے پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا میں کلاس میں کم از کم یہ گندہ لفظ نہیں لے سکتی۔اور وہ استانی تو ہمارے بھلے کو ہی بتا رہی تھی اس کو وہ لفظ بولنے کا تو شوق نہ تھا۔جب میں پنڈی میں پڑھتا تھا تو ہم سینئرز نے ہر زبان کی گالیاں سیکھ رکھی تھیں کہ زبان چاہے نہ آئے کوئی آپ کو گالیاں نکالے تو پتہ چل جائے۔اور بات بھی عقلمندی کی ہے کیا پتہ وہ مس بھی کسی ایسی جگہ پڑھتی رہی ہوں اور ہماری بہتری چاہتی ہوں۔

مندرجہ بالا مثالیں آپ کو لوگوں کی بڑھا چڑھا کر باتیں بیان کرنے کی عادت واضح کر چکی ہوں گی۔ پولش لوگوں کی ایک عادت بڑی اچھی ہے کہ وہ بالکل بھی جلدی میں نہیں ہوتے۔آپ کسی سپر مارکیٹ کے کاؤنٹر پر لائن لگے کھڑے ہیں اور سیلز گرل یا سیلز بوائے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ایک ایک چیز کمپیوٹر میں ایسے درج کر رہا ہے جیسے آخری بار اس نعمت کے شرف سے فیضیا ب ہو رہا ہے۔اگر پاکستان میں ایسا ہو تو اتنی دیر میں بلوہ ہو جائے۔دبئی میں لوگ سامان پھینک کر چلے جائیں گے کہ کیا مصیبت ہے؟ہمیں کوئی اور کام نہیں؟لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لائن میں لگے کھڑے لوگوں کو اور کوئی کام نہیں۔یہ ہوسکتا ہے کہ پولش میں بھی یہ کہاوت رہی ہو کہ جلدی کا کام شیطان کا۔اور پولینڈ تو ویسے ہی کٹر مذہبی عیسائی ریاست ہے تو نیکو کاروں کے بیچ شیطان کا کیا کام؟

آخر میں پولینڈ کی خوبیوں میں ایک بار پھر اپنے کمرے میں رکھے فریج کا ذکر کروں گا۔پہلے تو جب اس کا کمپریسر بند ہوا کرتا تھا تو بے اختیار واپڈا والوں کے لیے گالی نکلتی تھی یکن اب جب اس کا کمپریسر چلتا ہے تو گہری نیند میں سویا بندہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔کچھ دن قبل پڑھا تھا کہ بگ بینگ کے تجربے کے لیے نجانے کتنے بلین ڈالر(ہندسے اور چہرے یاد رکھنا میرے بس میں نہیں)امریکہ نے دیے ہیں تاکہ یہ تجربہ مکمل کیا جاسکے۔میری ان سے گذارش ہے کہ کیوں اتنے پیسے خرچ کرتے ہیں۔یہ پیسے کسی کارِ خیر میں لگائیں اور میرے کمرے سے فریج لے جائیں۔جس رفتار سے اس کی آواز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے عنقریب اس نے بذاتِ خود بگ بینگ کا تجربہ کر ڈالنا ہے۔ایسا فریج بھلا کہیں اور ملے گا۔حضرت انسان نے بھی کیا کیا چیزیں ضائع کر رکھی ہیں۔

 ورلڈ کپ ہاکی کے کوالی فائنگ راؤنڈ میں جب پولینڈ نے پاکستان کو شکست دی تھی تو میں اس کو پولینڈ کی خوبی سمجھا تھا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ پاکستان کو تو کوئی بھی ہرا سکتا ہے پولینڈ نے ہرایا تو کیا کمال کیا؟لہذا اس بلاگ میں اس کو پولینڈ کی خوبی نہ سمجھا جائے۔