January 22, 2010

الو کا پٹھہ

Ullo ka Patha

 میرے ایک دوست واصف محمود صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ جب بھی لڑکی کا معاملہ آتا ہے میں پہلو تہی کر لیتا ہوں، انکا
 شکوہ دور کرتے ہوئے یہ مضمون زیرِخدمت ہے اور اس سے اگلا بلاگ وارسا کی لڑکیوں کے بارے میں ہوگا۔ امید ہے کہ واصف صاحب کا شکوہ دور ہو جائے گا۔ 

میں اپنی زندگی سے اچھا خاصا مطمئن تھا جب ایک دن تصور نے(تصور میں نہیں تصور نے کیونکہ تصور میرے دوست کا نام ہے)مجھے ایک قول زریں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔میں تو اس کو بکواس سے زیادہ درجہ دینے کو
 تیا ر نہ تھا لیکن تصور کے اصرار پر اس پر سنجیدگی سے غور کیا۔لکھا تھا " جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی نہ ہو تو وہ تیسرا شیطان ہوتا ہے لیکن جب لڑکا لڑکی اکیلے ہوں اور ان کے ساتھ کوئی ہو تو وہ تیسرا الو کا پٹھہ ہوتا ہے"۔


۔حالانکہ مجھے تصور کی دوستی اور خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن اس کے اور اس کی سہیلی(گرل فرینڈ کا اردو ہمیشہ سے میرے نزدیک سہیلی رہا ہے) کے درمیان الو کا پٹھہ بننے کی بجائے میں نے سوچا کیوں نہ اپنی ہی ایک سہیلی بنا لی جائے۔

اگر ہر سوچ عمل کے احاطے میں آچکی ہوتی تو دنیا کی شکل موجودہ شکل سے خاصی تبدیل ہوتی۔تو میں نے ڈھیٹ (ڈھیٹ الو
 کا پٹھہ سے اچھا لفظ ہے)بنے رہتے ہوئے موجودہ حالت کوقائم رکھا اور حالات کو جوں کا توں چلنے دیا لیکن تصور اور اس کی سہیلی کی چند ملاقاتوں بعد میں خود کو واقعی الو کا پٹھہ محسوس کرنے لگا۔تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سوچ کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔مگر مسئلہ یہ آن پڑا کہ مجھے سہیلی بنانے کا کوئی تجربہ نہ تھا تو کیا کیا جائے آخر سوچ و بچار کے بعد میں نے سوچا اس معاملے میں سب سے بہتر اور موثر مشورہ تصور ہی دے سکتا ہے۔ایک تو وہ میرادوست تھا دوسرا وہ بھی مجھ سے تنگ آیا ہوا تھا لہذا وہ بھی دل سے چاہتا کہ میری ایک سہیلی ہو جائے اور میں اس سے اور اس کی سہیلی سے دور دفعہ ہو جاؤں۔

 تصور نے مجھے باقاعدہ شاگردی میں لیتے ہوئے مجھے حوصلہ دلایا اور ایسے ایسے لوگوں کے بارے میں بتایا جن کو صیح طور بولنا بھی نہ آتا تھا لیکن تصور کی راہبری کے زور پر وہ ہر مشکل مرحلہ طے کرتے چلے گئے تھے۔تصور کی باتیں سن کر مجھے یہ پیار محبت لونڈوں لپاڈوں کا کھیل نظر آنے لگا اور مجھے یقین ہو گیا کہ سہیلی بنانا کونسا مشکل کام ہے یہ چٹکی بجائی یہ سہیلی حاضر۔ تصور نے مجھے پہلی ہدایت کہ کہ دیکھو عشق آنکھوں سے شروع ہوتا ہے لہذا سب سے پہلے تمھیں نظروں سے نظریں ملانا سیکھنا چاہییں۔سو میری مشق یہ ٹھہری کہ ہر آتی جاتی سے لڑکی سے آنکھیں دو چار کروں اور جو جوابی آنکھیں ملائے اس سے بار بار آنکھیں ملاتا رہوں۔ میں تہہ دل سے تصور کاممنون ہو گیا اور تمام رات آنکھوں میں کاٹ دی کہ صبح ہو تو آنکھیں لڑانا شروع کر وں۔جس قول کا میں ذکر کر چکا ہوں اس میں یہ تو نہیں لکھا تھا کہ صرف وہی الو کا پٹھہ ہوتا ہے۔یہ تو ایک خاصیت ہے البتہ اپنی آسانی کے لیے ہم اس قول کو یوں لے سکتے ہیں کہ وہ بھی الو کا پٹھہ ہوتا ہے لیکن میں اس حقیقت سے تب تک آگاہ نہ ہواتھا۔

بہرحال اگلے روز میں نے ہر آتی جاتی لڑکی کو گھورنا شروع کر دیا۔تین چار گھنٹے کی محنت کے بعد آخر وہ ساعتِ سلیم آن پہنچی۔میں نے ایک لڑکی کو گھورا تو اس نے جوابی طور پر میرا بھرپور جائزہ لیااور میرا دل بلیوں اچھلنے لگاکہ ہاں یہی وہ مقام ہے جو انسانیت کی معراج کہلاتا ہے۔لیکن میرے پیرو مرشد جنابِ تصور کے تصور میں بھی نہ تھا کہ مجھے اتنی جلد کامیابی ہو جائے گی لہذا وہ مجھے دیکھتی رہی اور میں اس کو اور جب میں اپنے آپ کو اکیلے لڑکا لڑکی کے بغیر ہی الو کا پٹھہ محسوس کرنے لگا تو سیدھا دل میں حسرت لیے تصور کے پاس آگیا ۔

تمام واقعہ سن کر اس نے کہا بیوقوف(شاید وہ الو کا پٹھہ ہی کہنا چاہتا تھا لیکن دوستی کا لحاظ مار گیا)اشارہ کرنا تھا ناں۔میرا دل کانپ کر رہ گیاکہ میں اور اشارے بازی؟ہمیں تو بچپن سے گھر سے یہ سبق ملا تھا کہ کبھی کسی شے کی طرف اشارہ نہ کرو کجا لڑکی کی طرف۔لیکن الو کا پٹھہ بننے کے خیال سے اس مشکل مقام کو قبول کرنے پر بھی راضی ہو گیا۔ اگلی صبح مشق میں آنکھیں ملانا اور آنکھیں مل جانے پر اشارے کرنا شامل تھا۔میں دل ہی دل میں دعا مانگتا رہا کہ خدا کرے وہی کل والی لڑکی مل جائے کم از کم پہلا قدم تو نہیں کرنا پڑے گا یعنی عمل سیدھا اشاروں سے شروع ہوتا،لیکن ایسی ہی قسمت ہوتی تو کیا دوسروں کی مدد لینی پڑتی

 آخر اس کا انتظار چھوڑ کر کل کی طرح ہی سب کو گھورنا شروع کر دیا۔ایک تھوڑی سی بڑی عمر کی خاتون نے جوابی دیکھا تو میں نے انکو گھورنا شروع کر دیا اور جب میں نے دیکھا کہ وہ بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے دیکھ لیتی ہیں تو میں نے الٹے سیدھے اشارے بھی شروع کر دیے۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔میں خوشی سے جیسے پاگل سا ہو گیا۔میں دل ہی دل میں تصور کا عقیدت مند ہو گیا اور دوستی کے رشتے کی پاکیزگی سے میرا دل بھر سا آیا۔میں جب ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے بھرپور نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا ’ہٹے کٹے ہو کر بھیک مانگتے شرم نہیں آتی؟محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟‘۔آنکھوں میں جو آنسو جذبہ تشکر سے بھر آئے تھے آنٹی کی باتیں سن کر شرم سے باہر آگئے۔بجھے دل سے تصور کے پاس آیا اور اس کو اشاروں اشاروں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر ناکامی مجھے سابقہ حیثیت(الو کا پٹھہ والی) پر دھکیل رہی ہے۔لیکن اس نے دل نہ ہارنے کی تلقین کرتے ہوئے مزید ہدایات دیں کہ بس سٹاپ پر آنکھ مچولی بند کر کہ یونیورسٹی میں لڑکیوں کہ ساتھ یہ کھیل کھیلا جائے اور میرے بھونڈے اشارے دیکھ کر بمشکل ہنسی ضبط کر تے ہوئے اس نے اشارے ختم کر کے صرف مسکرانے کا مشورہ دے دیا اور چند تعارفی جملے رٹا دیے۔ 

پھر نیا دن اور نئی کوشش۔اور اب کہ جب آنکھوں سے مثبت سگنل ملنے اور مسکراہٹ کے باہمی تبادلے کے بعد جب میں بات کرنے پہنچا تو میری یاداشت مجھے دھوکا دے گئی اور ہمارے درمیان کچھ اس طرح کا مکالمہ وقوع پذیر ہوا۔ 
میں:جی سنیے
 وہ:جی 
میں :السلام وعلیکم
 وہ: وعلیکم السلام(یہاں پر میں سب کچھ بھول گیا) 
میں: میرا مطلب ہے السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ 
وہ:ہلکا سا ہنستی ہے 
میں:جی وہ(میں یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا بولنا تھا اور مجھے کل والی آنٹی یاد آجاتی ہیں)ہی ہی ہی۔۔۔
 وہ: مزید اونچا ہنستی ہے
 میں: بدحواسی میں اس سے اونچا قہقہہ لگا تا ہوں
 وہ: ہنستی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔
اور میں اپنے آپ کو پھر الو کا پٹھہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔ 

ناکامی کے بعد ایک بار پھر مزید خشوع و خضوع سے میں نے تصور کا رخ کیا۔اس بار تصور نے مجھے مشکل سے بچانے کے لیے نصحیت کی کہ میں مکالمہ لکھ لوں اور اس کو دوہراتا رہوں۔تو تصور نے مجھے ایک صفحے پر چند باتیں لکھ کر دیں کہ جہاں موقع ملے پوچھ لوں کہ معاف کریں آپ کونسی کلاس میں ہیں، کونسے ڈپاٹمنٹ میں ہیں، کیا آپ شمائلہ کو جانتی ہیں وغیرہ وغیرہ -اب اس کو کیا کیا جائے لڑکیاں ہمیشہ سے مجھے مثبت جواب دیتی رہی ہیں لیکن کچھ کم حوصلگی ،کچھ بدقسمتی نے ہمیشہ سے مجھے تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیے رکھاہے۔خیر اس بار جب تمام منازل طے ہو گئیں تو آخر میں میں نے ہمت کر کے کہہ دیا معاف کیجیے گا،جی لڑکی کا جی بھی حوصلہ افزا تھا ،ایک منٹ میں اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا اور تین منٹ بعد کاغذ کی ایک گانٹھ برآمد کرنے میں کامیاب ہو پایا۔مکالمہ دھل کر میری قسمت کی طرح صاف ہو چکا تھا اور میں حسرت بھری نگاہوں سے اس کو جاتا دیکھتا رہا۔ 

اب ایمان داری سے بتاؤں تو تمام قصور تصور کا نہیں ۔بیچ بیچ میں میں نے اپنی طرف سے بھی کوشش جاری رکھی مثلاً ایک بار میں نے سوچا کہ بس آج ختم کر کے رہنا ہے اور لگا ایک لڑکی کا پیچھا کرنے ۔ادھر سے بھی جواب حوصلہ افزا تھا۔اب کبھی وہ لڑکی آگے کبھی میں۔ایک بار جب میری آگے ہونے کی باری آئی تو تھوڑی دیر چلنے کے بعد میں ایسا خیالوں میں کھویا کہ لڑکی بھول گیا اور جب دو ،تین کلو میٹر چلنے کہ بعد خیال آیا تو لڑکی کا نام و نشان نہ تھا۔ 

جب ہر حربہ ناکام ہو گیا تو میں تصور کہ پاس آیا اور بولا بخشو تصور صاحب چوہا الو کا پٹھہ ہی بھلا۔اور اس کے سامنے سات منٹ کی لکھی ہوئی تقریر جھاڑی جس کا لب لباب تھا کہ لڑکیوں کے پیچھے بھاگنا دراصل حرام کاری ہے اور ایسا کرنے والے سراسر گمراہی میں مبتلا ہیں۔تصور میری تقریر سن کر ششدر رہ گیا اور پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔میں بولا یہ ذلالت آج ہی ختم کردو۔تصور نے وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہوگا۔جب میں جانے لگا تو تصور بولا یار یاد آیا وہ کرن کی سہیلی ہے نہ نسرین،وہ تم سے ملنا چاہتی ہے۔کب؟جب تم کہو۔"کل کا کہہ دو"،خوشی سے میری باچھیں کھل گئی تھیں۔وہ بولا" میں بھی ساتھ چلوں"؟میں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔مجھے یہ تو صیح طرح یاد نہیں کہ میں نے ہاں کی تھی یاناں،لیکن مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ذہن میں ایک ہی لفظ گونج رہا تھا ’الو کا پٹھہ‘۔