January 4, 2010

وارشاوا سے

warshawa (warsaw) se
جب میں نے پہلی باروارسا دیکھا تو مجھے پہلی نظر میں ہی اس سے پیار ہو گیا تھا۔ ملتان جہاں کے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ دوزخ میں کچھ لوگ کمبل لی کر سردی سے کانپ رہے تھے تو ایک شخص نے جو وہاں نیا آیا تھا ایک پرانے شخص سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا یہ ملتان کے رہنے والے ہیں۔اگر آپ اس بات کو مقامی لوگوں کا گھڑا ہوا افسانہ سمجھتے ہیں تو ملتان کے چار تحفے فارسی میں بھی مشہور ہیں جو کہ گرد،گرما،گدا وگورستان ہیں۔

باقی متحدہ عرب امارات تو ویسے ہی صحرا ہے وہاں کے بارے میں کچھ لکھنا ہی بیکار ہے۔تو وارسا پہنچنے پر جون میں
جب درجہ حرارت تیس سینٹی گریڈ تک پایا تو ہم گرمی کے ماروں کے لیے ویسے ہی وارسا ایک جنت سی تھی۔لیکن اب چھ ماہ بعد اس کی تمام تر خامیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی مجھے اس سے ویسا ہی پیار ہے جیسا پہلی نظر میں ہوا تھا،حالانکہ میرا ریکارڈ رہا ہے جو شے مجھے پہلی نظر میں ہی بھا جائے وہ بعد ازاں کچھ اتنی خاص نہیں رہتی لیکن وارسا اس اصول سے ابھی تک تو بالاتر ہی رہا ہے۔


حالانکہ مجھے یہ تین ماہ بعد پتہ چلا کہ وارسا کا اصل نام وارسا نہیں وارشاوا ہے۔اور پولینڈ کا مقامی نام بھی پولسکا ہے پولینڈ نہیں۔پولش زبان دنیا کی سات مشکل ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ہنگرین،عربی اور کورین اس لسٹ میں شامل ہیں۔کورین زبان اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ یہ زبان مقامی لوگوں کے لیے مشکل ترین زبان ہے جبکہ ہنگرین باہر کے لوگوں کے لیے مشکل ترین ہے۔پولش زبان میں مزیدار یہ بات ہے کہ اس میں اردو کی طرح جنس کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ہم بولتے ہیں کہ یہ میرا قلم ہے یا یہ میری میز ہے لیکن پولش زبان میں بولیں گے کہ یہ میزی ہے یہ قلما ہے۔گویا اسم کو اس کی جنس کے حساب سے بولا جائے گا۔ویسے قلم ہے لیکن جملے میں چونکہ قلم مزکر ہے اس لیے لڑکا بولے یا لڑکی وہ قلما ہو جائے گا۔(اردو میں مزکر کے آخر میں الف آتا ہے عمومی طور پر اس لیے قلم کو قلما لکھا ہے ورنہ پولش میں مونث کے لیے
الف اور مزکر کے لیے بڑی یے استعمال ہوتا ہے)۔

انگریزی ایک شجر ممنوعہ سا ہے پولسکا میں۔ہر شے پولش میں اور لوگ بھی انگریزی بہت کم جانتے ہیں۔لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوان بوڑھوں کی نسبت زیادہ انگریزی بول سکتے ہیں اور نوجوانوں میں لڑکیاں ،لڑکوں سے زیادہ۔وارسا میں فلیٹ ڈھونڈنا ایسا ہے جیسے کالے کمرے میں بلی ڈھونڈنا۔ویسے تو آپ سے لوگ بڑے پیار سے ملتے ہیں لیکن جب گھر کرایے پر دینا ہو تو غیر ملکی کا نام سنتے ہی انکار کر دیتے ہیں۔لہذا چھ ماہ بعد بھی ہم ہاسٹل میں ہی رہنے پر مجبور ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود بھی میں وارسا سے پیار کرتا ہوں۔